میں کہاں ہوں… بھارت یا پاکستان میں
سوائے چند اوپر کے لوگوں کے ایک عام پاکستانی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.
میرے گھر کے قریب سینما گھروں جن کی تعداد ملک بھر میں اب بہت کم رہ گئی ہے بہر حال جو باقی ہیں ان میں پاکستانی نہیں بھارتی فلمیں دکھائی جا رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں تماشائیوں کا خاصا رش رہتا ہے۔ ٹیلی وژن بھی ہر نصف گھنٹے کے بعد جب پروگرام بدلتا ہے تو بھارتی فلمی دنیا کی تصویریں اور خبریں دکھائی اور سنائی جاتی ہیں اور یہ ایک مستقل معمول بن گیا ہے۔ ہمارے اخبارات میں ہر روز ایک پورا صفحہ تفریح کے نام پر بھارتی فلمی اداکاروں کی رنگین دلکش تصویروں کا ہوتا ہے۔ اس بھارتی ثقافتی ماحول میں کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ میں کہاں کا ہوں بھارت کا شہری ہوں یا پاکستان کا۔ بھارتی لیڈر خاتون سونیا گاندھی کی یہ بات پھر دہراتا ہوں کہ فکر کی کوئی بات نہیں پاکستانی قوم کو ہماری فلمیں ہی مار دینے کے لیے کافی ہیں۔ کیا سونیا نے سچ کہا تھا۔ ہمارے اپنے ہاتھوں ہمارے اپنے میڈیا اور سینما گھروں کے ذریعے بھارتی فلمی یلغار ہمارے گھروں میں گھس گئی ہے۔
صرف ساٹھ برس سے کچھ اوپر کے آزادی کے عرصے میں بھارت نے یہ زبردست خاموش کامیابی حاصل کی ہے۔ میڈیا کی ان کوششوں پر وہ این جی او مستزاد ہیں جو کسی نہ کسی بہانے بھارت پرستی میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں بھارت پرستی کی یہ وبا کیسے شروع ہوئی یہ ہمارے اس عرصے کے حکمرانوں سے پوچھئے اور مستقبل میں بھی جو حکمران دکھائی دے رہے ہیں وہ فی الحال بھارت پرستی نہ سہی بھارت پسندی کی جھلک دکھا رہے ہیں اور ان میں سے کئی ایک کو بھارت اور پاکستان کے درمیان موجود رابطے کے راستے بہت محدود دکھائی دیتے ہیں وہ دونوں ملکوں کی ہزار میل سے زائد سرحد پر کئی واہگے کھولنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بعض لیڈروں کے لیے یہ سرحد بھارتیوں کے بقول ایک لکیر ہے اور بس۔ اس ماحول میں یہی بات دہراتا ہوں کہ میں کہاں رہتا ہوں بھارت میں یا پاکستان میں۔
بھارت اور پاکستان دشمنیاں لے کر پیدا ہوئے مثلاً کشمیر کا تنازعہ اور اب بھارت نے اس پر آبی جارحیت کے ذریعے مزید تنازعے کھڑے کر دیے ہیں اور ہر روز اس آبی جارحیت کی کوئی نئی مثال سامنے آ جاتی ہے مگر ہم اس کو زیادہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم اس وقت بھارتی فلموں کی رنگینیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم مصروف ہی رہیں گے تاآنکہ دشمن ہماری معیشت کی رگیں بند کر دے گا۔ سخت تعجب ہے کہ ہماری حکومت بھارت کی کسی خفیہ یا کھلی جارحیت کو محسوس ہی نہیں کرتی۔ جب سے امریکا بھارت کے ساتھ کھل کر کھڑا ہوا ہے اور ہمارے حکمرانوں پر اچھی طرح واضح ہو گیا ہے کہ امریکا بھارت کو ہم پر ترجیح دیتا ہے تو ہم بھی بھارت کو اپنے پر ترجیح دینے لگے ہیں اور اس کی کسی زیادتی پر چپ رہتے ہیں خواہ یہ زندگی و موت کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔
ہندو کی مسلم دشمنی تاریخ کا حصہ ہے اور اگر ہمارے دلوں میں حضرت قائداعظمؒ کی کوئی عزت باقی رہ گئی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر کوشش کے باوجود قائد ہندو قوم سے معمول کے تعلقات رکھنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے صرف دشمنی باقی رہ گئی۔ قیام پاکستان سے پہلے کی تاریخ اگرچہ بہت واضح ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ چھپی ہوئی نہیں ہے۔ پاکستان پر کھلا حملہ کر کے دولخت کرنے میں بھارت کا حصہ بہت واضح ہے۔ شروع دن سے کشمیر کا مسئلہ چلا آ رہا ہے اور اب آبی جارحیت اس کے برابر کی تباہ کن جارحیت ہے۔ بھارت نے اب تک پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ایک پاکستانی کے لیے بھارت کے ساتھ دوستی کی کوشش ایک ناقابل فہم حرکت ہے لیکن بھارت کے اس دشمن پاکستان رویے کے باوجود ہم اس کی فلموں اور مجروں پر مرے جا رہے ہیں کیا ہم کوئی تماشائی قوم ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی بات تو چھوڑئیے لگتا ہے ہم عام پاکستانی بھی بھارت سے مرعوب ہو چکے ہیں اور ہم پاکستانی جب بھارت کے ساتھ محبت کی پینگیں جھولتے ہیں تو وہ بھارتی فضائوں میں لہراتی ہیں لیکن افسوس کہ ہم اس کو برداشت کرتے ہیں۔
کیا ایسا تو نہیں کہ اب یہی پاکستانی زندگی کا چلن بن چکا ہے اور ہمیں اسی انداز میں زندگی بسر کرنی ہے لیکن سوائے چند اوپر کے لوگوں کے ایک عام پاکستانی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں غیرت کی رمق باقی ہے۔ اگرچہ غلط اور خود غرض حکمرانوں نے اسے کمزور بنا دیا ہے لیکن وہ پاکستانیت پر فخر کرتا ہے اور کسی کو اس میں شبہ ہو تو وہ عوام میں جا کر اپنی تسلی کر لے اور اپنے تمام شبہات دور کر لے اسے عوام میں صرف پاکستانی ملیں گے۔ بھارت پرست کوئی نہیں ملے گا یہ بھارتی لابی عوام میں نہیں ہے وہ اونچے محلوں گاڑیوں میں رہتی ہے۔ عوام صرف پاکستانی ہیں۔ مجبوریاں ہیں تو بڑے لوگوں کی جن کے ذاتی مفادات بھی بیرون ملک اداروں سے وابستہ ہیں، جن کے اکائونٹ باہر ہیں اور گھر بھی باہر۔ عوام کی کیا مجبوری ہے محنت مزدوری کرکے روٹی کمانی ہے اور تمام سفلی مفادات سے محفوظ ہو کر سکھ چین کی نیند سوناہے۔ میں کبھی کبھی ایک پرانی بات یاد کرتا ہوں اور لاہور کے بادامی باغ کے لوہا کوٹنے والے سے شرمندہ ہوتا ہوں جسے کسی نے بتایا کہ بھیا اب ہم آزاد ہو گئے ہیں پاکستان بن گیا ہے۔ اچھا تو کیا میری مزدوری بڑھ جائے گی اس نے جواب دیا تو اسے بتایا گیا کہ آزادی کیا ہوتی ہے وہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس پر اس نے کہا کہ بھائی ہم اب بھی لوہا کوٹتے ہیں آزادی کے بعد بھی یہی لوہا کوٹیں گے۔ ہمارے لیے آزادی اور غلامی کا ایک ہی بھائو ہے۔