جہاں بھی گئے ’’داستاں‘‘ چھوڑ آئے

ہماری نوجوان نسل کے لیے اب ادب سے دلچسپی کا ایک اور خوبصورت راستہ کھل گیا ہے۔

Amjadislam@gmail.com

تقریباً نصف صدی قبل اشفاق صاحب اور بانو آپا نے لاہور سے ایک بہت منفرد انداز کا ادبی رسالہ جاری کیا تھا جس کا نام بھی بہت عجیب سا تھا ''داستان گو''۔ اب جن لوگوں کو اشفاق صاحب کی باتیں سننے اور بانو آپا کی کہانیاں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ یقینا اس بات کی گواہی دیں گے کہ یہ نام اصل میں اس کے مدیران کی شخصیت کا ہی آئینہ تھا اور ایسے بات سے بات نکالنے والے اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کو محصور' مسحور اور مبہوت کرنے والے داستان گوئوں کے لیے بلا شبہ یہی استعارہ برمحل اور موزوں ترین تھا۔

جہاں تک داستانوں اور داستان گوئی کا تعلق ہے ان دونوں کی اپنی ایک طویل اور دلچسپ تاریخ ہے کہ پرانے وقتوں میں' جب یہ دنیا ہر طرح کے برقی میڈیا سے ناآشنا تھی یہ داستان گو ہی تھے جو بستیوں کے کناروں پر واقع سرائوں میں پڑائو کرنے والے مسافروں کو ایک ایسی آرام دہ تفریح کا موقع فراہم کرتے تھے جس سے نہ صرف ان کی دن بھر کی تھکن دور ہوجاتی تھی بلکہ انھیں ایسی دلچسپ داستانیں بھی سننے کو ملتی تھیں جن میں حقیقت اور تخیل اس طرح ایک دوسرے میں گھل مل جاتے تھے کہ وہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے تھے اور اس میں مزید اضافہ وہ جادو بیان داستان گو کرتے تھے جن کے الفاظ کا زیروبم اور ادائیگی کے مخصوص انداز کہانی کے واقعات کے مطابقت سے جیسے سامعین کو ایک اور ہی دنیا میں لے جاتے تھے۔

کہانی کہنے اور سننے کا یہ سلسلہ سات براعظموں پر پھیلی ہوئی اس زمین پر آباد ہر بستی میں تب سے جاری و ساری ہے جب ابھی انسان نے لکھنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی یہ روایت معلوم تاریخ کے ہر دور میں موجود نظر آتی ہے یہ اور بات ہے کہ یہاں کی داستانوں میں مختلف قوتوں' مذاہب اور بیرونی حملہ آوروں کے تہذیبی اثرات کے میل جول سے ایسی کہانیوں نے جنم لیا جن میں مقامی عناصر کے علاوہ یونانی' آریائی اقوام، ترکی، عراق، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی تہذیب اور اساطیر بھی اس طرح جمع ہوگئے ہیں کہ اب انھیں ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا بھی ایک انتہائی مشکل اور ریاضت طلب کام بن چکا ہے۔ کم و بیش یہی صورتحال داستان گوئوں کے فن میں بھی سامنے آتی ہے کہ ان کی داستانوں میں ان سب عناصر کو معہ ان علاقوں میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کے صوتی حوالے سے دلچسپ مانوس اور مستعمل الفاظ کے' بڑی خوبصورتی اور فراوانی سے برتا گیا ہے۔


آج یہ سب باتیں مجھے اس لیے بھی یاد آرہی ہیں کہ کچھ دیر قبل ہی مجھے لاہور پریس کلب میں بھارت سے آئے ہوئے دو جدید داستان گوئوں دانش حسین اور محمود فاروقی کو پہلی بار براہ راست دیکھنے اور سننے کا موقع ملا ہے۔ محمود فاروقی سے میرا ایک غائبانہ تعارف پہلے سے بھی تھا کہ موصوف اردو کے بے مثال نقاد اور کہانی کار شمس الرحمن فاروقی کے بھانجے یا بھتیجے ہیں اور ان کی زبانی اور ان کے مشہور ادبی رسالے' شب خون' کی معرفت (جو بند ہونے کے بعد بھی اب تک ایک خبرنامے کی صورت میں شایع ہوتا ہے اور جسے فاروقی بھائی بہت محبت سے مجھے باقاعدگی سے بھجواتے بھی رہتے ہیں) میں ان کے نام اور کام سے بہت حد تک واقف تھا لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ''شنیدہ کے بود مانند دیدہ'' تو آج ان کو اور ان کے ساتھی دانش حسین کو روایتی قصہ گوئوں کے لباس میں ملبوس اور پرفارمنس کے دوران چاندی کے روایتی پیالوں سے (جسے ہم پنجابی میں چھنا کہتے ہیں) گھونٹ گھونٹ کرکے پانی پیتے ہوئے دیکھ کر یوں لگا جیسے وقت ایک دم دو صدیاں پیچھے چلا گیا ہو کہ ان دوستوں کا گٹ اپ بغداد' قسطنطنیہ' تبریز' اصفہان' غزنی یا سمر قند و بخارا کے بجائے دہلی اور لکھنو کے ان قصہ گوئوں سے ملتا جلتا تھا جن کی آخری نشانی میر باقر علی تھے جن کے کمال فن کا ذکر ہمیں زبان و ادب اور تاریخ تہذیب کے حوالے سے بہت سی کتابوں اور یادداشتوں کی وساطت سے بآسانی دستیاب ہے۔

نثرپاروں کو ڈرامائی انداز میں پڑھنے کی روایت کچھ اصناف شاعری' مثلاً مرثیہ، قصیدہ اور منظوم داستانوں کی باقاعدہ پڑھت جیسی مضبوط اور مقبول نہ سہی لیکن یہ ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں قائم اور موجود ضرور رہی ہے خود ہمارے یہاںضیا محی الدین کی اردو ادب سے منتخب مختلف Readings اور حال ہی میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی اپنی ہی تحریروں کو پڑھنے کے خصوصی پروگرام اسی روایت کا حصہ کہے جاسکتے ہیں مگر جہاں تک محمود فاروقی اور دانش حسین کا تعلق ہے ان دوستوں نے یقینا اس فن کو ایک نیا روپ اور زندگی دی ہے۔ یہ خالص اردو تحریروں کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں اور لہجوں سے بھی حسب ضرورت کام لیتے ہیں اور ان کے منتخب کردہ نثر پاروں میں بھی ہر طرح اور ہر دور کی تحریریں شامل ہیں۔ آج کے پروگرام میں انھوں نے سعادت حسن منٹو کی زندگی اور تحریروں کے حوالے سے تقریباً ایک گھنٹے پر مشتمل ایک نان اسٹاپ پرفارمنس دی جس میں مونو لاگ' ڈائیلاگ بیانیہ اور اسکرین پلے کے ساتھ ساتھ کئی اور ٹیکنیکس سے بھی بھر پور اور تخلیقی انداز میں کام لیا گیا۔

منٹو کا انتخاب غالباً اس لیے کیا گیا تھا کہ 2012ء ان کا ایک سو سالہ سال پیدائش ہے۔ جس خوبصورتی سے انھوں نے منٹو کی مختلف تحریروں اور ان کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں مختلف حوالوں کو اپنے اسکرپٹ کا حصہ بنایا اس کی داد نہ دینا یقینا زیادتی ہوگی لیکن اس سے بھی زیادہ خوبصورت بات ان دونوں کا اپنے اپنے سر کو قائم رکھتے ہوئے وہ ڈوئٹ کا سا انداز تھا جیسے نزاکت سلامت یا امانت اور فتح علی خاں کسی راگ کی گائیکی کے دوران بڑی مہارت اور فن کاری سے لے کاری کا مظاہرہ کررہے ہوں۔ ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جس خوبصورتی سے اس گم ہوتی ہوئی روایت کا احیاء کیا ہے اور اسے ایک مقبول صنف کی شکل دے دی ہے اس کا ایک فنی فائدہ یہ بھی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے لیے اب ادب سے دلچسپی کا ایک اور خوبصورت راستہ کھل گیا ہے۔
Load Next Story