تاریخی ٹیسٹ اور خالی اسٹیڈیم

اتنے زیادہ لوگ تو کراچی یا لاہور میں کسی کلب کا میچ دیکھنے بھی آ جاتے ہوں گے


Saleem Khaliq October 14, 2016
ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا حال ان دنوں زمبابوے جیسا ہے، پرفارمنس انتہائی ناقص اور بورڈ سے الگ لڑائیاں ہیں۔ فوٹو: گیٹی

ٹاس کیلیے سکہ اچھلا، ہولڈر کی زبان سے ٹیل کا لفظ ادا ہوا،ہیڈ دیکھ کر مصباح خوشی سے پھولے نہ سمائے، انھیں بیٹنگ کیلیے انتہائی سازگار وکٹ پر پہلے کھیلنے کا موقع جو مل گیا تھا، کچھ دیر بعد سمیع اسلم اور اظہر علی بیٹنگ کیلیے میدان میں داخل ہوئے، سمیع نے پہلی گیند کا سامنا کیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان اور ایشیائی کرکٹ میں نئی تاریخ رقم ہو گئی، دبئی نے بھی ایشیاکے پہلے ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کی میزبانی کر کے بڑا اعزاز اپنے نام کر لیا۔

جدید دور میں جس طرح ٹی ٹوئنٹی کرکٹ مقبولیت حاصل کر رہی ہے ٹیسٹ کو زندہ رکھنے کیلیے ایسے اقدامات ضروری ہیں، ایسا تو نہیں کہ گراؤنڈز کھچا کھچ بھر جائیں گے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ دلچسپی تو بڑھے گی، میں کل ہی دبئی پہنچا تھا میرے ذہن میں بہت سی باتیں تھیں کہ اتنے یادگار موقع کا یقیناً بہترین انداز سے جشن منانے کیلیے بورڈ نے بڑے اقدامات کیے ہوں گے، گراؤنڈ میں شائقین کا جم غفیر نہیں تو اتنی تعداد تو ہو گی کہ کچھ پتا چلے کہ پہلا نائٹ ٹیسٹ ہو رہا ہے، مگر افسوس ایسا کچھ نہ تھا، جب میں پہنچا تو محسوس ہوا کہ اتنے زیادہ لوگ تو کراچی یا لاہور میں کسی کلب کا میچ دیکھنے بھی آ جاتے ہوں گے۔

ٹرافی کی تین بار رونمائی کا بھی خوب مذاق بن چکا تھا، کسی طور بھی یادگار میچ کا سماں نہ تھا، بورڈ کو چاہیے تھا کہ انٹری مفت کر دیتا مگر اس نے ٹکٹ رکھ دیا، پاکستان و دیگر ایشیائی ممالک کے اسکولز کے بچوں کو مدعو کیا جا سکتا تھا یہ بھی نہ ہوا، 400 ویں ٹیسٹ کی مناسبت سے ایک سووینیئر شائع کرنا چاہیے تھا جس میں پاکستان کی خاص ٹیسٹ فتوحات، اسٹار کرکٹرز و دیگر چیزیں شامل ہو جاتیں، یہ بھی کرنے کا کسی کو خیال نہ آیا، چیئرمین شہریار خان تاحال انگلینڈ سے واپس نہیں آئے، ان کی صحت کے بارے میں بھی کوئی نئی خبر سامنے نہ آئی۔

نجم سیٹھی اور سبحان احمد آئی سی سی میٹنگز میں شرکت کیلیے جنوبی افریقہ گئے ہوئے ہیں، اس لیے کوئی بڑا عہدیدار موجود نہ تھا،البتہ ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی نے اتنا ضرورکیا کہ میڈیا باکس میں انضمام الحق سے کیک کٹوا دیا، یہیں کچھ دیر قبل وقار یونس، رمیز راجہ اور توصیف احمد سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، ویسے ہم اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ پہلے نائٹ ٹیسٹ کا جشن ٹھیک نہیں منایا گیا مگر بورڈ نے تو ٹیم کو بھی تیاریوں کا موقع نہ دیا، ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا حال ان دنوں زمبابوے جیسا ہے، پرفارمنس انتہائی ناقص اور بورڈ سے الگ لڑائیاں ہیں، جس طرح اسے یکطرفہ مقابلوں کے بعد ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس سے لگتا ہے کہ ٹیسٹ میں بھی اس سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔

یقین مانیے اگر کوئی اور ٹیم حریف ہوتی تو یہ پہلا ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ گلے پڑ سکتا تھا مگر امید ہے ویسٹ انڈیز کیخلاف کوئی مسئلہ نہیں ہوگا،پلاننگ کا یہ عالم تھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں وہ کھلاڑی ڈے اینڈ نائٹ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں جنھیں ٹیسٹ میں موقع ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں،ویسے بھی آدھی سے زیادہ ٹیم تو قائد اعظم ٹرافی شروع ہونے سے قبل ہی یو اے ای میں مختصر طرز کے میچز کھیلنے کیلیے موجود تھی، ہمارے کھلاڑی چند روز نیٹ میں پریکٹس کرنے کے بعد ہی پنک گیند سے بیٹنگ کر رہے ہیں۔

بھارت جس کا ابھی پہلا نائٹ ٹیسٹ ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں مگر وہ بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں نائٹ میچز شروع کرا چکا مگر ہمیں بہت دیر سے خیال آیا، بورڈ کے ایک آفیشل سے چند ماہ کے دوران کئی بار نائٹ ٹیسٹ کی تیاریوں کا پوچھا مگر وہ ہمیشہ بات ٹال دیتے مجھے بعد میں سمجھ آیا کہ کوئی تیاری کی ہوتی تو بتاتے ناں، ایسے میں دل میں یہ خیال بھی آیا کہ کاش یہ میچ کراچی یا لاہور میں ہوتا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر زمبابوے کی ٹیم بھی سامنے ہوتی تب بھی اسٹیڈیم شائقین سے بھرا ہوا ہوتا، افسوس کہ ماضی کے واقعات کی وجہ سے ملک کا امیج دنیا میں بڑا خراب ہو چکا ہے، حالانکہ اب حالات بہتر ہیں مگر لوگ آنے سے ڈرتے ہیں،بورڈ بھی کرکٹ کی واپسی کیلیے سنجیدگی سے کوشش نہیں کر رہا،حالانکہ آہستہ آہستہ آغاز تو کرنا چاہیے جیسے زمبابوے کو بلایا تھا مگر اب تو کوئی ایسا ذکر بھی نہیں کر رہا،گذشتہ دنوں اینڈی رابرٹس، ڈیمین مارٹن، جونٹی رہوڈز اور ڈینی موریسن کو نعمان نبی کراچی لے کر آئے، وہ ٹرائلز لینے کیلیے گراؤنڈ گئے، خوب سیر و تفریح بھی کی،خوش خوش واپس گئے۔

میں نے ایک بار نعمان نبی سے پوچھا کہ کیا یہ سیکیورٹی سے مطمئن ہیں تو انھوں نے کہا کہ ''پہلے آنے کو تیار نہیں تھے اب جانے کو تیار نہیں ہیں'' کاش ملک میں حالات مزید بہتر ہوں اور دوبارہ سے سونے میدان آباد ہو جائیں اور ہم اپنا 500 واں میچ ہوم گراؤنڈ پر کھیلیں،امید ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔

ان دنوں ہرجگہ پنک گیند کا ذکر چل رہا ہے، بیٹسمین بھی اس سے ڈر رہے ہیں کہ نجانے کیسا برتاؤ ہو، فاسٹ بولرز کو سوئنگ نہ ہونے کا خوف ہے،یقیناً ماضی میں جب سفید گیند آئی ہو گی تب بھی آغاز میں کھلاڑیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا مگر آہستہ آہستہ گیند بہتر ہوتی گئی اور پلیئرز بھی اس کے عادی ہو گئے، ایسا ہی پنک گیند کے ساتھ بھی ہو گا، میں کئی ٹیسٹ کور کر چکا مگر پنک گیند سے ہونے والا اپنے ملک کا پہلا میچ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھنا ایک یادگار تجربہ ہے۔

پاکستانی بیٹسمینوں نے تجربہ نہ ہونے کے باوجود پنک گیند کااعتماد سے سامنا کیا، انھوں نے میچ کے پہلے دن ظاہر نہ ہونے دیا کہ انھیں گیند سے کسی مسئلے کا سامنا ہے،پہلے روز سمیع اسلم اور اظہر علی نے بہترین کھیل پیش کیا، یہ پاکستان کے پاس بھی ریکارڈز بنانے کا سنہری موقع ہے، جو کھلاڑی کارنامہ انجام دے گا اس کا نام ملکی کرکٹ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس موقع سے سب کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے