بھوک نیوکس اور ابنِ خلدون
پاکستان اوربھارت نے خود کو بیرونی حملوں سے تو محفوظ کرلیا لیکن کیا یہ ایٹمی طاقتیں بھوک کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں؟
حال ہی میں پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں دونوں ممالک کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے بہت کچھ کہا اور سنا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس ایک ایک سو سے زیادہ نیوکلیئر ہیڈز ہیں۔ ان نیوکلیئر ہیڈز کو عرفِ عام میں نیوکس بھی کہا جاتا ہے۔
کل بی بی سی اردو پر ایک خبر آئی کہ پاکستان بھوک سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں گیارہویں نمبر پر آگیا ہے۔ دراصل یہ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق میں واضح ہوا کہ پاکستان 118 ملکوں کی بھوک کی فہرست میں تقریباً ساڑھے 33 پوائنٹس لے کر صرف 10 ملکوں سے پیچھے یعنی گیارہویں نمبر پر رہا ہے۔
اس انڈیکس کے مطابق اگرچہ بھارت 22ویں نمبر پر آیا ہے لیکن تقریباً 40 سے زائد ممالک انتہائی تشویشناک حالت میں ہیں اور پاکستان اور بھارت دونوں اسی زمرے میں آتے ہیں۔ چند ایک ممالک جیسا کہ شام، صومالیہ اور سوڈان میں نامساعد حالات کی وجہ سے یہ تحقیق نہیں کی جاسکی لیکن صورتِ حال وہاں بھی سات انتہائی متاثرہ ممالک سے مختلف نہیں۔ یہ انتہائی متاثرہ ممالک چاڈ، میڈگاسکر، سیرالیون، زمبیا، سہارا اور وسطیٰ افریقہ ہیں۔
پاکستان اور بھارت کی جانب واپس آتے ہیں جہاں آبادی کا تقریباً 30 فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق
اس رپورٹ کو اگر اسی حال میں درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر پانچواں پاکستانی بھوکا ہے اور شدید بھوکا ہے۔ یہی حال بھارت میں ہر چوتھے پانچویں ہندوستانی کا بھی ہے۔
انسانی بھوک نے شہنشاہوں اور بادشاہتوں کو بنانے اور گرانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ بارہویں صدی کے مشہور مسلمان فلسفی اور تاریخ دان ابنِ خلدون نے سلطنتوں کے زاول میں مفلسی اور بے گھری کو کلیدی اہمیت دی ہے۔ ابنِ خلدون کے مطابق جب بے گھر(خانہ بدوش) اور غیر مہذب قبیلے پسماندہ علاقوں سے اٹھ کر قدرے مہذب علاقے (شہر) پر طاقت یا چالاکی سے قبضہ کرلیتے ہیں تو ایک سلطنت بننے کا آغاز ہوتا ہے لیکن تبھی ایک پرانی سلطنت زوال پذیر بھی ہو رہی ہوتی ہے۔
پاکستان اور بھارت نے ایٹم بم کے حصول کے بعد خود کو بیرونی حملوں سے تو محفوظ کرلیا لیکن کیا یہ ایٹمی طاقتیں بھوک جیسے اندورنی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابنِ خلدون کی''عصبیہ'' کی تھیوری اس ضمن میں کیا کہتی ہے۔
یہ درست ہے کہ کوئی بھی تھیوری مکمل طور پر لاگو نہیں ہوسکتی اور بارہویں صدی سے اکیسویں صدی تک بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن پھر بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کو اس تھیوری کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تناظر میں ایٹم بم کے حصول کو ان دو ملکوں کے لئے طاقت کی انتہائی سطح مان کر ایک نقشہ بنایا جاسکتا ہے۔
برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت وہ لوگ جن کے پاس قدرے کم طاقت تھی اور جو انگریزوں کے مقابلے میں بھوکے اور بے گھر تھے، انہوں نے پاکستان اور بھارت کی دو نئی ریاستوں کی بنیاد رکھی۔ پرانی سلطنت کے سینے پر کھڑی ہونے والی یہ دو ریاستیں ابنِ خلدون کے مطابق اپنی اپنی جگہ سماجی یکجہتی اور سماجی جڑت سے طاقت پکڑتی گئیں۔
دونوں طرف ایسی حکومتیں بن گئیں جنہوں نے نئی طرز کے شہروں کی بنیادیں رکھیں اور یہاں پہلے سے آباد لوگوں کے ساتھ مل کر نئی تہذیبوں کو پروان چڑھایا۔ یہ الگ بات کہ یہ دونوں ریاستیں اس میں کس حد تک کامیاب ہوئیں لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں نے دفاع کے مضبوط اور ناقابل تسخیر طریقوں سے وہ طاقت حاصل کرلی جس کو ابنِ خلدون زوال کا سبب بتاتا ہے۔
ابنِ خلدون کے مطابق جب ایک قبیلہ (جدید دنیا میں جس کا مطلب قوم یا طبقہ لیا جاسکتا ہے) طاقت کی انتہا کو پہنچتا ہے اس کے لئے عیش و آرام کو وطیرہ بنا لینا ایک فطری عمل ہوجاتا ہے اور اس عیش و آرام سے وہ کمزوری جنم لیتی ہے جو اس کے زوال کا باعث بنتی ہے۔ یہ کمزوری بھوکے پیٹوں اور ننگے جسموں کو دعوتِ تسخیر دیتی ہے اور پسماندہ علاقوں سے اٹھ کر بھوکے اور بے گھر لوگوں کی ایک نئی فوج اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے اور یوں یہ گولا گھومتا رہتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی بھوک آج دونوں ممالک کے صاحبانِ اقتدار کے لیے ایسا چیلنج ہے جس کا مقابلہ ایٹم بم سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مفلسی اور بے گھری اس حیوانیت کو جنم دیتی ہے جس کے آگے کوئی تہذیب، مہذب نہیں رہتی۔ جس کے آگے کوئی ایٹم بم مقدس نہیں رہتا۔ جنگ اور دفاع میں مگن ان ایٹمی طاقتوں کو دیکھتے رہنا، دیکھنا کہیں بھوک ان کے نیوکس کھا نہ جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کل بی بی سی اردو پر ایک خبر آئی کہ پاکستان بھوک سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں گیارہویں نمبر پر آگیا ہے۔ دراصل یہ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق میں واضح ہوا کہ پاکستان 118 ملکوں کی بھوک کی فہرست میں تقریباً ساڑھے 33 پوائنٹس لے کر صرف 10 ملکوں سے پیچھے یعنی گیارہویں نمبر پر رہا ہے۔
اس انڈیکس کے مطابق اگرچہ بھارت 22ویں نمبر پر آیا ہے لیکن تقریباً 40 سے زائد ممالک انتہائی تشویشناک حالت میں ہیں اور پاکستان اور بھارت دونوں اسی زمرے میں آتے ہیں۔ چند ایک ممالک جیسا کہ شام، صومالیہ اور سوڈان میں نامساعد حالات کی وجہ سے یہ تحقیق نہیں کی جاسکی لیکن صورتِ حال وہاں بھی سات انتہائی متاثرہ ممالک سے مختلف نہیں۔ یہ انتہائی متاثرہ ممالک چاڈ، میڈگاسکر، سیرالیون، زمبیا، سہارا اور وسطیٰ افریقہ ہیں۔
پاکستان اور بھارت کی جانب واپس آتے ہیں جہاں آبادی کا تقریباً 30 فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق
''پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8 اعشاریہ 1 فیصد بچے 5 سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔''
اس رپورٹ کو اگر اسی حال میں درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر پانچواں پاکستانی بھوکا ہے اور شدید بھوکا ہے۔ یہی حال بھارت میں ہر چوتھے پانچویں ہندوستانی کا بھی ہے۔
انسانی بھوک نے شہنشاہوں اور بادشاہتوں کو بنانے اور گرانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ بارہویں صدی کے مشہور مسلمان فلسفی اور تاریخ دان ابنِ خلدون نے سلطنتوں کے زاول میں مفلسی اور بے گھری کو کلیدی اہمیت دی ہے۔ ابنِ خلدون کے مطابق جب بے گھر(خانہ بدوش) اور غیر مہذب قبیلے پسماندہ علاقوں سے اٹھ کر قدرے مہذب علاقے (شہر) پر طاقت یا چالاکی سے قبضہ کرلیتے ہیں تو ایک سلطنت بننے کا آغاز ہوتا ہے لیکن تبھی ایک پرانی سلطنت زوال پذیر بھی ہو رہی ہوتی ہے۔
پاکستان اور بھارت نے ایٹم بم کے حصول کے بعد خود کو بیرونی حملوں سے تو محفوظ کرلیا لیکن کیا یہ ایٹمی طاقتیں بھوک جیسے اندورنی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابنِ خلدون کی''عصبیہ'' کی تھیوری اس ضمن میں کیا کہتی ہے۔
یہ درست ہے کہ کوئی بھی تھیوری مکمل طور پر لاگو نہیں ہوسکتی اور بارہویں صدی سے اکیسویں صدی تک بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن پھر بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کو اس تھیوری کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تناظر میں ایٹم بم کے حصول کو ان دو ملکوں کے لئے طاقت کی انتہائی سطح مان کر ایک نقشہ بنایا جاسکتا ہے۔
برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت وہ لوگ جن کے پاس قدرے کم طاقت تھی اور جو انگریزوں کے مقابلے میں بھوکے اور بے گھر تھے، انہوں نے پاکستان اور بھارت کی دو نئی ریاستوں کی بنیاد رکھی۔ پرانی سلطنت کے سینے پر کھڑی ہونے والی یہ دو ریاستیں ابنِ خلدون کے مطابق اپنی اپنی جگہ سماجی یکجہتی اور سماجی جڑت سے طاقت پکڑتی گئیں۔
دونوں طرف ایسی حکومتیں بن گئیں جنہوں نے نئی طرز کے شہروں کی بنیادیں رکھیں اور یہاں پہلے سے آباد لوگوں کے ساتھ مل کر نئی تہذیبوں کو پروان چڑھایا۔ یہ الگ بات کہ یہ دونوں ریاستیں اس میں کس حد تک کامیاب ہوئیں لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں نے دفاع کے مضبوط اور ناقابل تسخیر طریقوں سے وہ طاقت حاصل کرلی جس کو ابنِ خلدون زوال کا سبب بتاتا ہے۔
ابنِ خلدون کے مطابق جب ایک قبیلہ (جدید دنیا میں جس کا مطلب قوم یا طبقہ لیا جاسکتا ہے) طاقت کی انتہا کو پہنچتا ہے اس کے لئے عیش و آرام کو وطیرہ بنا لینا ایک فطری عمل ہوجاتا ہے اور اس عیش و آرام سے وہ کمزوری جنم لیتی ہے جو اس کے زوال کا باعث بنتی ہے۔ یہ کمزوری بھوکے پیٹوں اور ننگے جسموں کو دعوتِ تسخیر دیتی ہے اور پسماندہ علاقوں سے اٹھ کر بھوکے اور بے گھر لوگوں کی ایک نئی فوج اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے اور یوں یہ گولا گھومتا رہتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی بھوک آج دونوں ممالک کے صاحبانِ اقتدار کے لیے ایسا چیلنج ہے جس کا مقابلہ ایٹم بم سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مفلسی اور بے گھری اس حیوانیت کو جنم دیتی ہے جس کے آگے کوئی تہذیب، مہذب نہیں رہتی۔ جس کے آگے کوئی ایٹم بم مقدس نہیں رہتا۔ جنگ اور دفاع میں مگن ان ایٹمی طاقتوں کو دیکھتے رہنا، دیکھنا کہیں بھوک ان کے نیوکس کھا نہ جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔