سیکولر اور اسلام پسندوں کے گھروں کی خواتین
ہینڈسم، اسمارٹ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سوٹ بوٹ میں رہنے والے ان لوگوں سے بڑا قدامت پسند کوئی نہیں ہو سکتا
ہم آج دو گھروں کی عورتوں کے بارے میں بات کریں گے، ایک وہ جن کے گھروں کے مرد لبرل اور سیکولر ہیں، دوسرے وہ جو اسلام پسند ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ اسلام پسندوں نے عورت تو قید کر لیا ہے اور سیکولر طبقے نے عورت کو آزادی عطا کی ہے۔ معاملہ یوں نہیں بلکہ الٹ ہے، کچھ سیاستدان ایسے ہیں جو لبرل پارٹیوں میں ہیں لیکن ہم کہہ سکتے ہیں ان کے گھر کی خواتین میڈیا کے سامنے نہیں آتیں۔ دوسری طرف وہ اسلام پسند ہیں جنہوں نے اپنے گھر کی خواتین کو باہر نکلنے کی آزادی دی ہے۔ پردے میں ہی سہی ان کی بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں سیاست میں رہی ہیں۔ برقعے میں ہی سہی، اسلام پسند کہلانے والوں کے گھر کی خواتین میڈیا کے سامنے تک آئی ہیں۔ یوں کیا ہمیں لبرل کی تعریف بدلنی پڑے گی؟ حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کے لیے ایک سوال۔
ایک تصویر ضرور ان لوگوں نے دیکھی ہو گی جو یہ کالم پڑھ رہے ہیں، بی اماں کی تصویر۔ آج سے تقریباً ایک صدی قبل کی تصویر۔ یہ وہ دور تھا جب تحریک خلافت زوروں پر تھی۔ ''بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلاف پہ دے دو۔'' یہ شعر مولانا محمد علی جوہر کو مولانا کہلانے داڑھی ہونے اور اسلام پسند ہونے کے باوجود اپنی صاحب فراست ماں کو گھر تک محدود ہونے کا نہیں کہتا۔ ممکن ہے والدہ بزرگی کو چھو گئی ہوں اور مولانا نے والدہ کو تحریک میں دیکھا ہو۔ اب ہم دوسری تصویر کو کہاں لے جائیں گے؟ بیگم محمد علی کی تصویر جو تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم اور دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان مسلم لیگی رہنماؤں کے گھروں کی خواتین تھیں۔ وہ لیگی جو دائیں بازو کے اور اسلام پسند کہلاتے ہیں۔ ممکن ہے ''سرخ سویرا'' کا نعرہ لگانے والے دوست اسے ابتدائی دور کی بات کہیں اور یہ دعویٰ کریں تحریک پاکستان کے رہنما بڑے اعلیٰ ظرف تھے۔ ہمارے یہ دوست بیگم کلثوم نواز کے بارے میں کیا کہیں گے؟ بات اس وقت واضح ہو گی جب پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم جیسی لبرل پارٹیوں کے ان رہنماؤں کی بات کی جائے گی، جن کی خواتین پردہ کرتی ہیں یا کم ازکم میڈیا کے سامنے نہیں آتیں۔
فیصل صالح حیات، گورنر عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال کا تعلق لبرل کہلانے والی پارٹیوں سے ہے۔ ہینڈسم، اسمارٹ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سوٹ بوٹ میں رہنے والے ان لوگوں سے بڑا قدامت پسند کوئی نہیں ہو سکتا۔ تعلق تو ان کا سیکولر پارٹی سے ہے، یہ خود بھی دنیا بھر میں گھومتے رہتے ہیں، لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے گھر کی خواتین میڈیا کے سامنے آئیں۔ اب بتائیں کہ لبرل نواز شریف ہوئے یا فیصل صالح حیات، سیکولر مولانا محمد علی جوہر ہوئے یا مصطفی کمال؟ یہ وہ لوگ ہیں جو وہ نظر نہیں آتے وہ سمجھے جاتے ہیں۔ آئیے! آج کے دور کے کچھ اور رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں، جن کے گھر کی خواتین ٹی وی کی اسکرین اور اسمبلی کے فلور پر نظر آتی ہیں۔ کہلانے کو تو ان سے بڑا اسلام پسند کوئی نہیں، لیکن دیکھیں کہ عورت کی آزادی پر قدغن کون لگاتا ہے اور کس کے ذہن میں وسعت ہے؟
قاضی حسین احمد کی صاحبزادی سمیعہ راحیل قاضی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب کتاب خاتون ہیں۔ پردہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ ایک اسلامی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود بھی نہ ان کی تعلیم میں رکاوٹ ڈالی گئی نہ میڈیا میں آنے پر، اور نہ گاڑی چلانے کے راستے روکے گئے، اوریا مقبول جان جیسے بیوروکریٹ دانشور کی اہلیہ اور صاحبزادیاں اپنے گھر کے سربراہ کے اسلام پسند ہونے کے باوجود کوئی گھٹن محسوس نہیں کرتیں۔ پاکستان سے باہر نظر دوڑائیں تو ہمیں ترکی اور مصر نظر آتے ہیں۔ اسلام کے نام پر سختیاں برداشت کرنے اور سیاست کے میدان میں کامیاب ہونے والوں کی بیگمات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔
ضیاء الحق جیسے اسلام پسند کی بیگم ہر موقع پر ان کے ساتھ ہوتی تھیں جبکہ ایوب خان جیسے لبرل سیکولر حکمران کی بیگم گھر کی چار دیواری تک محدود تھیں۔ سید منور حسن کی اہلیہ سیدہ عائشہ منور کے راستے میں اسلامی پردے نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ یہ وہ تصاویر ہیں جو نظر کچھ اور آتی ہیں اور ہیں کچھ اور۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ جو شخص نماز روزے کا پابند ہے، داڑھی رکھی ہوئی ہے، اسلام پر شرمندہ اور معذرت خواہ نہیں۔ اس کے گھر کی خاتون گھر پر کھانے پکانے اور بچے پالنے تک محدود ہو گی۔ یہ غلط فہمی بھی ہے کہ ماڈرن، اپ ٹو ڈیٹ، ایڈوانس اور سیکولر کہلانے والی پارٹی کا رہنما خوشحال و پڑھا لکھا ہے اور اقتدار کی غلام گردشوں کے درمیان گردش کرتا ہے، اس کے گھر کی خواتین کسی انٹرویو میں، کسی ٹاک شو میں اس کے ساتھ ہوں گی، ایسا کوئی ضروری نہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں جو سمجھا جاتا ہے وہ ویسے ہی ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی اور مولانا فضل الرحمن ایسی پارٹیوں کے رہنما ہیں جو دائیں بازو کی کہلاتی ہیں اور اسلام پسند سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے گھر کی خواتین میڈیا پر نظر نہیں آتیں۔۔ آپ سمجھ لیں کہ ان کے وزیر اعظم بننے پر ''خاتون اول'' کی سرکاری تقریب یا خواتین کی کسی تنظیم کے افتتاح کے لیے دستیاب نہیں ہوں گی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے پاس ایسے لوگ اور ایسی مثالیں ہیں کہ یہ جیسے کہلاتے ہیں ویسے نظر بھی آتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دور میں فرسٹ لیڈی کی کمی محسوس نہ کی گئی۔
فاروق ستار اور حیدر عباس رضوی کئی مرتبہ بیگمات کے ساتھ انٹرویو دیتے نظر آئے ہیں۔ ولی خان کی اسیری کے دوران بیگم نسیم ولی کا سماعت میں حصہ لینا واحد مثال ہے۔ اے این پی کے تمام رہنماؤں کے گھر کی خواتین پردہ کرتی ہیں یا انھیں کم از کم میڈیا پر نہیں دیکھا گیا۔ اعتزاز احسن اور مرحوم اقبال حیدر کو اپنی بیگمات کے سامنے میڈیا پر آنے میں کوئی دشواری نہ تھی۔ کھیلوں کی دنیا میں وسیم اکرم، وقار یونس اپنی بیگمات کے ساتھ اسٹیڈیم میں میچ دیکھتے نظر آ رہے ہیں جبکہ آفریدی، عمر گل اور رزاق کے انٹرویو ان کے بھائیوں یا گھر کے چھوٹے بچوں کے ساتھ لیے جاتے ہیں۔
سیاستدان اور کھلاڑی پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں، ہم نے نہایت احتیاط سے ان کے گھر کی خواتین کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات ہر لحاظ سے ماڈرن شخص اندر سے قدامت پرست اور پرانے خیالات کا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف صورتحال اس وقت دلچسپی پیدا کر جاتی ہے جب نظر آتا ہے کہ کنزرویٹو، روایت پرست اور اسلام پسند شخص کتنا ماڈرن اور بڑے دل کا ہے۔ یہ کالم ان این جی اوز کے لیے ہے جو خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں۔
وہ عورت کی تعلیم، شعور اور آزادی کا نعرہ لے کر اٹھی ہیں۔ وہ اس کالم پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ عورت کو کہیں کُرتے و ٹوپی نے کس قدر وسعت عطا کی ہے اور کہیں سوٹ و ٹائی نے اسے کس قدر جکڑ لیا ہے۔ حقوق نسواں کی علمبرداروں کو ضرور نظر دوڑانی چاہیے۔ اس خاتون کی جانب جو پردے میں بھی کشادگی محسوس کرتی ہے اور وہاں بھی جو ماڈرن ہوتے ہوئے بھی گھٹن محسوس کرتی ہے، خصوصاً ان عورتوں کی طرف جو سیکولر اور اسلام پسندوں کے گھروں کی عورتیں ہیں۔
ایک تصویر ضرور ان لوگوں نے دیکھی ہو گی جو یہ کالم پڑھ رہے ہیں، بی اماں کی تصویر۔ آج سے تقریباً ایک صدی قبل کی تصویر۔ یہ وہ دور تھا جب تحریک خلافت زوروں پر تھی۔ ''بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلاف پہ دے دو۔'' یہ شعر مولانا محمد علی جوہر کو مولانا کہلانے داڑھی ہونے اور اسلام پسند ہونے کے باوجود اپنی صاحب فراست ماں کو گھر تک محدود ہونے کا نہیں کہتا۔ ممکن ہے والدہ بزرگی کو چھو گئی ہوں اور مولانا نے والدہ کو تحریک میں دیکھا ہو۔ اب ہم دوسری تصویر کو کہاں لے جائیں گے؟ بیگم محمد علی کی تصویر جو تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم اور دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان مسلم لیگی رہنماؤں کے گھروں کی خواتین تھیں۔ وہ لیگی جو دائیں بازو کے اور اسلام پسند کہلاتے ہیں۔ ممکن ہے ''سرخ سویرا'' کا نعرہ لگانے والے دوست اسے ابتدائی دور کی بات کہیں اور یہ دعویٰ کریں تحریک پاکستان کے رہنما بڑے اعلیٰ ظرف تھے۔ ہمارے یہ دوست بیگم کلثوم نواز کے بارے میں کیا کہیں گے؟ بات اس وقت واضح ہو گی جب پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم جیسی لبرل پارٹیوں کے ان رہنماؤں کی بات کی جائے گی، جن کی خواتین پردہ کرتی ہیں یا کم ازکم میڈیا کے سامنے نہیں آتیں۔
فیصل صالح حیات، گورنر عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال کا تعلق لبرل کہلانے والی پارٹیوں سے ہے۔ ہینڈسم، اسمارٹ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سوٹ بوٹ میں رہنے والے ان لوگوں سے بڑا قدامت پسند کوئی نہیں ہو سکتا۔ تعلق تو ان کا سیکولر پارٹی سے ہے، یہ خود بھی دنیا بھر میں گھومتے رہتے ہیں، لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے گھر کی خواتین میڈیا کے سامنے آئیں۔ اب بتائیں کہ لبرل نواز شریف ہوئے یا فیصل صالح حیات، سیکولر مولانا محمد علی جوہر ہوئے یا مصطفی کمال؟ یہ وہ لوگ ہیں جو وہ نظر نہیں آتے وہ سمجھے جاتے ہیں۔ آئیے! آج کے دور کے کچھ اور رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں، جن کے گھر کی خواتین ٹی وی کی اسکرین اور اسمبلی کے فلور پر نظر آتی ہیں۔ کہلانے کو تو ان سے بڑا اسلام پسند کوئی نہیں، لیکن دیکھیں کہ عورت کی آزادی پر قدغن کون لگاتا ہے اور کس کے ذہن میں وسعت ہے؟
قاضی حسین احمد کی صاحبزادی سمیعہ راحیل قاضی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب کتاب خاتون ہیں۔ پردہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ ایک اسلامی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود بھی نہ ان کی تعلیم میں رکاوٹ ڈالی گئی نہ میڈیا میں آنے پر، اور نہ گاڑی چلانے کے راستے روکے گئے، اوریا مقبول جان جیسے بیوروکریٹ دانشور کی اہلیہ اور صاحبزادیاں اپنے گھر کے سربراہ کے اسلام پسند ہونے کے باوجود کوئی گھٹن محسوس نہیں کرتیں۔ پاکستان سے باہر نظر دوڑائیں تو ہمیں ترکی اور مصر نظر آتے ہیں۔ اسلام کے نام پر سختیاں برداشت کرنے اور سیاست کے میدان میں کامیاب ہونے والوں کی بیگمات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔
ضیاء الحق جیسے اسلام پسند کی بیگم ہر موقع پر ان کے ساتھ ہوتی تھیں جبکہ ایوب خان جیسے لبرل سیکولر حکمران کی بیگم گھر کی چار دیواری تک محدود تھیں۔ سید منور حسن کی اہلیہ سیدہ عائشہ منور کے راستے میں اسلامی پردے نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ یہ وہ تصاویر ہیں جو نظر کچھ اور آتی ہیں اور ہیں کچھ اور۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ جو شخص نماز روزے کا پابند ہے، داڑھی رکھی ہوئی ہے، اسلام پر شرمندہ اور معذرت خواہ نہیں۔ اس کے گھر کی خاتون گھر پر کھانے پکانے اور بچے پالنے تک محدود ہو گی۔ یہ غلط فہمی بھی ہے کہ ماڈرن، اپ ٹو ڈیٹ، ایڈوانس اور سیکولر کہلانے والی پارٹی کا رہنما خوشحال و پڑھا لکھا ہے اور اقتدار کی غلام گردشوں کے درمیان گردش کرتا ہے، اس کے گھر کی خواتین کسی انٹرویو میں، کسی ٹاک شو میں اس کے ساتھ ہوں گی، ایسا کوئی ضروری نہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں جو سمجھا جاتا ہے وہ ویسے ہی ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی اور مولانا فضل الرحمن ایسی پارٹیوں کے رہنما ہیں جو دائیں بازو کی کہلاتی ہیں اور اسلام پسند سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے گھر کی خواتین میڈیا پر نظر نہیں آتیں۔۔ آپ سمجھ لیں کہ ان کے وزیر اعظم بننے پر ''خاتون اول'' کی سرکاری تقریب یا خواتین کی کسی تنظیم کے افتتاح کے لیے دستیاب نہیں ہوں گی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے پاس ایسے لوگ اور ایسی مثالیں ہیں کہ یہ جیسے کہلاتے ہیں ویسے نظر بھی آتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دور میں فرسٹ لیڈی کی کمی محسوس نہ کی گئی۔
فاروق ستار اور حیدر عباس رضوی کئی مرتبہ بیگمات کے ساتھ انٹرویو دیتے نظر آئے ہیں۔ ولی خان کی اسیری کے دوران بیگم نسیم ولی کا سماعت میں حصہ لینا واحد مثال ہے۔ اے این پی کے تمام رہنماؤں کے گھر کی خواتین پردہ کرتی ہیں یا انھیں کم از کم میڈیا پر نہیں دیکھا گیا۔ اعتزاز احسن اور مرحوم اقبال حیدر کو اپنی بیگمات کے سامنے میڈیا پر آنے میں کوئی دشواری نہ تھی۔ کھیلوں کی دنیا میں وسیم اکرم، وقار یونس اپنی بیگمات کے ساتھ اسٹیڈیم میں میچ دیکھتے نظر آ رہے ہیں جبکہ آفریدی، عمر گل اور رزاق کے انٹرویو ان کے بھائیوں یا گھر کے چھوٹے بچوں کے ساتھ لیے جاتے ہیں۔
سیاستدان اور کھلاڑی پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں، ہم نے نہایت احتیاط سے ان کے گھر کی خواتین کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات ہر لحاظ سے ماڈرن شخص اندر سے قدامت پرست اور پرانے خیالات کا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف صورتحال اس وقت دلچسپی پیدا کر جاتی ہے جب نظر آتا ہے کہ کنزرویٹو، روایت پرست اور اسلام پسند شخص کتنا ماڈرن اور بڑے دل کا ہے۔ یہ کالم ان این جی اوز کے لیے ہے جو خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں۔
وہ عورت کی تعلیم، شعور اور آزادی کا نعرہ لے کر اٹھی ہیں۔ وہ اس کالم پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ عورت کو کہیں کُرتے و ٹوپی نے کس قدر وسعت عطا کی ہے اور کہیں سوٹ و ٹائی نے اسے کس قدر جکڑ لیا ہے۔ حقوق نسواں کی علمبرداروں کو ضرور نظر دوڑانی چاہیے۔ اس خاتون کی جانب جو پردے میں بھی کشادگی محسوس کرتی ہے اور وہاں بھی جو ماڈرن ہوتے ہوئے بھی گھٹن محسوس کرتی ہے، خصوصاً ان عورتوں کی طرف جو سیکولر اور اسلام پسندوں کے گھروں کی عورتیں ہیں۔