عمر کا سچ ماننے میں حرج کیا

جب زمانہ ترقی کے رنگ میں رنگتا ہے تو ترقی کے افسوں کا شکار ہو کر وہ قوانین قدرت کو بھی مات دینے پر تل جاتا ہے

اسٹیج پر بوڑھی ہیروئن رقص کر رہی تھی، موسیقی کی دھن، اسٹیج کا سحر انگیز ماحول، روشنیوں کی رنگینیاں اور ان رنگینیوں میں محو رقص بوڑھی ہیروئن کے تھرکتے پیر اور فن کے ناپ تول سے لہراتا بل کھاتا بدن حاضرین کو یقینا محظوظ کر رہا تھا اور شاید حیران بھی۔ بوڑھی ہیروئن اب ایک ماہر رقاصہ کے روپ میں تھی، جوانی کا جوالہ مکھی سرد ہو چکا تھا اور اعضاء کی یہ شاعری محض قافیہ ردیف کے تال میل کا ایک نمونہ معلوم ہو رہی تھی، پھیکی اور بے تاثیر، جب اپنا ہی جوار بھاٹا بیٹھ چکا ہو تو اوروں کے دل میں ابال کیسے آئے؟ مگر بوڑھی ہیروئن کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ میں ایک خاص ضد تھی کہ دیکھو ''میں آج بھی میں ہوں'' زندگی کی رونق سے بھرپور یہ منظر چشم تماشا کے لیے بہرحال عبرت انگیز نظارہ تھا، زمانے کی ترقی کے رنگ فنی مہارت، فیشن اور کاسمیٹکس انڈسٹری اور میک اپ آرٹ کی صورت میں فطرت کے قانون کے سامنے ہاتھ باندھے اور گھٹنے ٹیکے کھڑے تھے۔

جب زمانہ ترقی کے رنگ میں رنگتا ہے تو ترقی کے افسوں کا شکار ہو کر وہ قوانین قدرت کو بھی مات دینے پر تل جاتا ہے، انسانی عمر کا بھی کچھ ایسا ہی افسانہ ہے، اس خاک کے پتلے کو قانون قدرت کی رو سے ہر عارضی اور مختصر شے سے کچھ فطری لگاؤ اور رغبت سی ہوتی ہے۔ لگاوٹ کے اس تعلق میں بعض صورتوں میں اس قدر تناؤ آ جاتا ہے کہ اس اصول کو جانتے ہوئے بھی وہ اسے قبول کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔

اپنی عمر کے معاملے میں انسان اتنا حساس واقع ہوا ہے کہ عمر کی کمی بیشی پر کسی قسم کا اختیار نہ رکھنے کے باوجود وہ ترقی اور جدت کے ہتھیاروں کی مدد سے عمر کے اثرات سے بھاگنے کی تدابیر ضرور کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اگرچہ ترقی کے یہ فیض عام پہنچ سے دور ہیں اور المیہ یہ ہے کہ عام سے ملک کے عامی لوگوں تک ترقی کے اثرات بھی مفسدات کی صورت میں پہنچتے ہیں لیکن اپنی افتاد طبع کے مقدور ہاتھ پیر تو یہاں بھی مارے جاتے ہیں اور سب سے دلچسپ معرکہ تو زبان کے میدان میں بپا ہوتا ہے مگر ہائے:

عذر تراشو کہ خدوخال

چہرہ عمر کی علامت ہے

عمر کے مختلف ادوار کی تقسیم اختلاف رائے سے پاک ہے اس میں انسان کا بچپن ہوتا ہے، لڑکپن ہوتا ہے، جوانی، ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپا، انسان اپنی شخصیت اور سراپے کے لحاظ سے مذکورہ کسی خانے میں ہی فٹ بیٹھتا ہے لیکن اپنی تسلی خاطر کے لیے سالوں کے جوڑ توڑ کو دھوکہ دہی اور جھوٹ جیسی برائیوں کے برابر تو کیا ان کے اریب قریب بھی نہیں گردانتا جبکہ یہ کھیل وہ خود اصل میں اپنے آپ کے ساتھ ہی کھیل رہا ہوتا ہے۔ لیکن کیا ہو؟ جب تسلیم کی سعادت ہی نصیب نہیں تو بے اعتدالیاں تو مقدر بنیں گی۔ قدرت کے منتخب کردہ وقت پیدائش کو رد کر کے حسب منشاء سال پیدائش کا انتخاب کا جھوٹ شناختی کارڈ کی صورت میں حکومت پاکستان سے باقاعدہ تصدیق شدہ بھی ہو سکتا ہے۔

حسن اور تناسب لازم و ملزوم ہیں بلکہ اگر حسن کو تناسب کا دوسرا نام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا لہٰذا بوڑھے چہرے پر جوان آنکھیں احترام کے ذوق کو بدمزہ کر دیتی ہیں۔ انسانی وجود پر نمودار ہوتی سلوٹیں، جھریاں اور سفید بال عمر کی وہ سندیں ہیں جو زندگی اپنے تجربات کے عوض عطا کرتی ہے، مگر انسان کی کج فہمی یہ ہے کہ وہ وقت کے آئینے میں اپنا سامنا کرنے سے کتراتا ہے اور اس سب کے لیے اس کے پاس کوئی جواز نہیں ہوتا ماسوائے وہ عادت سے مجبور ہوتا ہے۔


ستم یہ ہے کہ انسانی رویے کی اس کمزوری کا کاروباری دماغ نے خوب خوب ہی فائدہ اٹھایا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ حسن کا تعلق عمر سے جوڑ دیا گیا جس نے نفس پرست انسان کو مزید باؤلا اور ہونق بنا دیا۔ بیوپاری نعرہ لگاتا ہے کہ ''خوب صورت نظر آنا انسان کی فطری خواہش ہے'' جبکہ قدرت دعویٰ کرتی ہے کہ ''ہم نے انسان کو بہترین صناعی سے پیدا کیا'' دونوں جملوں میں لفظوں کی ترتیب صرف جملے اور اس کے مفہوم کو ہی تبدیل نہیں کرتی بلکہ دو مختلف نظریے بھی تخلیق کرتی ہے۔ ثانی الذکر میں تسلیم کی عبادت تسکین کی نعمت عطا کرتی ہے جبکہ اول الذکر فطرت میں دبی چنگاری کو ہوا دے کر پورے وجود کو ہی الاؤ بنا ڈالتی ہے۔ جب عمر کا تذکرہ ہو تو خواتین کا ذکر بالخصوص واجب ہے۔ اقبال نے کہا:

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

یہاں لفظ ''وجود'' عورت کے اعتراف کی دلیل کے طور پر کام کرتا ہے اور کائنات کے رنگ سے تشبیہہ گویا نسائی عظمت اور اس کے فطری حسن کا استعارہ ہے مگر ہمارے ماحول کی عام عورت عام طور پر اقبال کے اس یقین کا بھرم سہارنے میں کمزور دکھائی دیتی ہے۔ اس عورت کے لیے زندگی کی یہ سچائی وقت کی سفاکی کا نسائی المیہ ہے۔ پیر میں بندھے گھنگھرو کی آواز سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ مگر یہ عورت اپنی زندگی کا قیمتی وقت ایک بے معنی خوف اور لاحاصل خود فریبی کی مد میں گزارتی ہے۔

عورت جب سماجی اعتبار اور عمر کے لحاظ سے پختہ دور میں داخل ہوتی ہے تو اس کا کردار اس سے وقار، متانت اور بردباری کا تقاضہ کرتا ہے مگر یہ عورت فطرت کی اس پکار کو رد کر کے نفس کی جولانیوں میں بہنے کو ترجیح دیتی ہے، یہ عورت باجی، بھابی، آنٹی جیسے لاحقوں کی دو دھاری تلوار لیے اپنی عمر کے دفاع میں مصروف رہتی ہے، ان لاحقوں کے مختلف ناموں کے ساتھ ٹانکنے سے ایک جانب وہ خود کو نسبتاً چھوٹا ظاہر کرتی ہے جبکہ دوسری طرف وہ دوسری عورت کی دکھتی رگ پر چٹکیاں بھی بھرتی رہتی ہے حالانکہ بالغ افراد کی طرح ایک دوسرے کو نام سے مخاطب کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر یہ زبردستی یک طرفہ ان عمری رشتوں کو تراشتی رہتی ہے۔

اس عورت کے کان کی لویں تک سرخ ہو کر تپتپانے لگتی ہیں جب اس کے کم عمر یا غیر شادی شدہ دکھائی دینے کی ''تعریف'' کی جاتی ہے، اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں اور وفور جذبات سے یہ گلابو بن جاتی ہے اگر اسے اس کے بچوں کی بڑی بہن سمجھ لیا جائے، عمر کی پیمائش سالوں میں کرنے والی اس بیمار ذہن عورت سے آئینہ بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتا ہے اور اس کے خد وخال اس کا اپنا سراپا اس کے خلاف صف آراء نظر آنے لگتا ہے جبکہ آج کی ہی عورت کی ایک تصویر یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی اصل عمر اور اس عمر کے گراں مایہ تجربے کے ساتھ موجود ہے۔

ہمارے ماحول میں تو عورت کے لیے رشتوں کے بندھن کی صورت میں تحفظ کا ایسا زبردست حصار موجود ہے جس میں اسے عمر کے خوف تو کیا خیال سے بھی بے نیاز ہونا چاہیے۔ رشتوں کا یہ حصار نہ صرف اسے زمانے کی آوارہ گردیوں اور آوارہ گردوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اس منظر میں عورت ایک مضبوط اور مستحکم حیثیت پر متمکن نظر آتی ہے اور عمر کی فطری بڑھوتری اس کی نسائی عظمت اور وقار میں شاندار اضافہ کرتی نظر آتی ہے۔

باوقار مرد و خواتین دونوں ہی عمر کے اضافے کے نظام کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی کشادہ ذہنی سے قبول کر لیتے ہیں کہ اس سے مفر تو کسی کو کسی صورت ممکن ہی نہیں اور اپنی ذات کا سچ مان لینے میں آخر قباحت بھی کیا ہے؟
Load Next Story