نفرتیں ہی ملتی ہیں نفرتیں بڑھانے سے

ہندوستان میں ان دنوں نفرت کا کاروبار شدت اختیارکرتا جا رہا ہے


یونس ہمدم October 15, 2016
[email protected]

لاہور: ہندوستان میں ان دنوں نفرت کا کاروبار شدت اختیارکرتا جا رہا ہے، ہندو قوم کا ایک چھوٹا سا طبقہ جس کو ہندوستان کے موجودہ متعصب ترین وزیراعظم نریندر مودی کی آشیرواد حاصل ہے وہ ان دنوں ہندوستان میں خوب گرج رہا ہے، برس رہا ہے اور صد حیف کہ ہندوستان کی فوج بھی آج کل اسی طبقے کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے اور ہندوستان میں جدی پشتی مسلمان فنکاروں کے پتلے بھی جلائے جارہے ہیں۔

آج مودی حکومت کے ساتھ ہندوستانی فوج کے سربراہان بھی اپنے ہوش و حواس کھو چکے ہیں۔ آج ہندوستان میں سیکولر سوچ رکھنے والے کروڑوں افراد خوف کا شکار ہیں اور ہندوستان کے بانی سیاسی گھرانے کے افراد بھی مودی حکومت سے پریشان ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ نامور مسلمان فنکاروں کو بھی اپنی زندگیوں کا تحفظ حاصل نہیں ہے، جب کہ کسی بھی ملک کے فنکار سیاست سے ہر ملک میں بالاتر ہوتے ہیں، وہ تو صرف محبت اور پیار کے پیامبر ہوتے ہیں۔

آج کی حکومت مسلمان فنکاروں کو بھی سیاست کی آگ میں دھکیل رہی ہے جب کہ ہندو فنکار بھی موجودہ حکومت اور اس کی نفرت انگیز پالیسی سے نہ صرف دل برداشتہ ہیں بلکہ بہت ہی بدظن ہیں، ہندوستان سے تمام وہ فنکار جن کا پاکستان سے تعلق ہے وہ نفرت سے گھبرا کر واپس اپنے وطن آچکے ہیں۔ آج مودی سرکار کی وجہ سے ہندوستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، اگر ہندوستان کی یہی روش برقرار رہی تو کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ عالمی برادری میں تنہا نہ کردیا جائے۔

آج کے ہندوستان کو دیکھ کر کوئی ملک یہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ وہی ہندوستان ہے جو مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا عبدالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس اور رابندر ناتھ ٹیگور کا ہندوستان ہے۔ ہندوستان کی عظیم ثقافت کو جن فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں نے پروان چڑھایا ان میں ہندو اور مسلمانوں دونوں قوموں کی کاوشوں کا دخل رہا ہے۔

ہندوستان کی ثقافت کو سب نے مل کر اپنے خون جگر سے سینچا ہے اور مسلمان فنکار کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ پھر ہندوستان میں بسنے والے جتنے بھی مسلمان ہیں ہندوستان کی سرزمین ان کی اور ان کے آباؤ اجداد کی بھی ہے جہاں ہندوؤں کے شمشان گھاٹ صدیوں پرانے ہیں اس طرح وہاں مسلمانوں کے قبرستان بھی صدیوں پرانے ہی ہیں۔

ہندوستان ہمیشہ سے دو مذاہب کی آماجگاہ رہا ہے ہندوستان کی سرزمین صرف ہندوؤں کی جاگیر نہیں ہے یہ سرزمین مسلمانوں کے آباؤ اجداد کی بھی جنم بھومی ہے آج جو متعصب طبقہ ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود پر دشنام درازی پر اتر آیا ہے وہ خود ہندوستان کے لیے ایک گالی ہے۔

آج جو طبقہ مسلمانوں اور مسلمان فنکاروں کو ہندوستان کی سرزمین سے جدا سمجھتا ہے وہ طبقہ اپنی جگہ خود ہندوستان کے معاشرے پر ایک بوجھ ہے جو لوگ آج ہندوستان میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں وہ نفرت کے سوداگر ہیں اور نفرت کا سودا کبھی بھی کسی قوم کے لیے نفع بخش نہیں ہوتا۔ نفرت کی بنیاد پر برطانیہ نے ہندوستان میں جو کچھ کیا آج وہ اسی نفرت کے کارن محدود تر ہوتا چلا گیا ہے جو لوگ بھی مذہب کو بنیاد بناکر ہندوستان میں نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں وہ اپنی آیندہ نسلوں کے لیے ایک وبال کو جنم دے رہے ہیں۔

اپنے وجود کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں نفرت پھیلانے والے کم ظرف لوگ ہندوستان کے دوست نہیں بلکہ ہندوستان کے اصل دشمن ہیں جو ہندوستان کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں اور پھر ہندوستان میں مسلمان فنکاروں سے نفرت چہ معنی دارد؟ فنکار تو کسی بھی ملک مین مذہب و زبان سے ہٹ کر اس ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اس ملک کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔

وہ تو لوگوں میں پیار بانٹتے ہیں، آج کی ہندوستانی ثقافت صدیوں کا ثمر ہے اور یہ ثقافت ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی مشترکہ کاوشوں کا نچوڑ ہے اور پھر مذہب تو کوئی بھی ہو اس کی تعلیم صرف اور صرف محبت ہے نفرت نہیں، نفرت کے علم بردار ہر دور میں اپنے مفاد کی تلوار لے کر ابھرتے ضرور ہیں مگر پھر وہ اپنی ہی نفرت کے سمندر میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ پھر ان کا کہیں وجود ہی نظر نہیں آتا۔

اگر ہندوستان دنیا میں ایک سیکولر اسٹیٹ کے طور پر اپنی شناخت لے کر آگے بڑھ رہا ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والے آج نہیں توکل اپنی موت خود مر جائیں گے یہ متعصب ٹولہ آج ہندوستان میں جو کچھ کر رہا ہے وہ ایک سازش کے تحت ہی کررہا ہے اور اس ٹولے کے اس مذموم طرز عمل سے ہندوستان آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف جانا شروع ہوجائے گا۔

آج ہندوستان میں بھی علیحدگی کی بہت سی تحریکیں جنم لے چکی ہیں اگر متعصب ٹولہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو پھر مستقبل میں ہندوستان کو مزید ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

ابھی تو ہندوستان کے بطن سے ایک پاکستان نے جنم لیا ہے پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہندوستان میں موجود کئی علیحدگی کی تحریکوں کو بھی راستے ملتے چلے جائیں اور کئی اور ملک بنتے چلے جائیں اس وقت سب سے زیادہ سلگتی ہوئی تحریک آزادی کشمیر کی ہے لاکھوں کشمیریوں کے دلوں میں روشن ہے اور پھر سکھ قوم کو بھی مسلمانوں کے ساتھ آج تقسیم ہند کے دوران کیے گئے اپنے رویے پر شدید ندامت بھی ہے اور افسوس بھی ۔ اچھوت قوم کا مسئلہ بھی ہندوستان کے چہرے کا داغ بنا ہوا ہے۔

اگر ہندوستان کا یہ متعصب مختصر ٹولہ اپنی موجودہ روش اور نازیبا حرکتوں سے باز نہ آیا تو پھر یہی ٹولہ ہندوستان کی سالمیت کے لیے ناسور بنے گا اور پھر معاملہ آگے بڑھتا چلا جائے گا۔

کشمیر کی حتمی آزادی کے ساتھ ساتھ خالصتان کی آزادی کے خوابوں کی تعبیر کو جنم دے گا اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی مظلوم قوم کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہیں، جب کوئی قوم نفرت کی دلدل میں ڈوبتی چلی جاتی ہے تو پھر اس کی ترقی کے سارے راستے مسدود ہوتے چلے جاتے ہیں تو پھر نئے سرے سے زمین کے بٹوارے شروع ہوجاتے ہیں پھر کہیں ایسا یقینی نہ ہوجائے کہ آج کی یہ نفرت کل ہندوستان کی تقسیم در تقسیم کے سلسلے کی کڑی بن جائے کیونکہ ہندوستان صدیوں سے ہندو اور مسلم دونوں قومیتوں کا ہے۔

ہندوستان پر بے شمار حکمران آئے، ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی اور ہندوستان آج بھی دونوں قوموں کی دھرتی ہے۔ اگر ہندوستان کی پہچان منشی پریم چند، کرشن چندر، مہندر سنگھ بیدی، روی شنکر اور راج کپور خاندان ہے تو اس ہندوستان کی شناخت جوش ملیح آبادی، جان نثار اختر، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، نوشاد، بسم اﷲ خان شہنائی نواز، سارنگی نواز استاد بندو خان اور دلیپ کمار جیسا عظیم فنکار جو ہندوستانی سینما کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور فلم انڈسٹری کی ایک تاریخ ہے دلیپ کمار کے ساتھ تمام مسلمان فنکاروں کی شخصیتیں ایک جگمگاتی کہکشاں کی طرح ہیں اور یہ ہندوستان کے کروڑوں عوام کے دلوں میں بستے ہیں ۔ ہندوستان کی مٹی سے جنم لینے والے یہ مسلمان فنکار ہندوستان کی سرزمین کا فخر ہیں اگر ہندوستان سرکار اور فوج کو اپنے ہندوستان کی عزت اور سالمیت عزیز ہے تو ہندوستان کے متعصب ٹولے کو لگام دینی ہوگی ورنہ اس حقیقت کو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا:

نفرتیں ہی ملتی ہیں نفرتیں بڑھانے سے
ہاتھ کچھ نہیں آتا تہمتیں لگانے سے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔