عالمی ماحولیاتی کانفرنس اور کم مہلت

گرین ہاؤس گیسوں کے تیزرفتار اخراج کے باعث موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں

لاہور:
نیچر جرنل میں شایع ہونے والی تازہ ترین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ طاقتورگرین ہاؤس گیس میتھین کا فضا میں اخراج لگائے گئے اندازوں کے مقابلے میں 20 سے 60 فیصد زیادہ ہے۔ جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے اہداف شدید متاثر ہوسکتے ہیں۔

نئی تحقیق میں جدید ترین ڈیٹابیس کمپیوٹرزاستعمال کیے گئے ہیں جو پہلے استعمال کیے گئے ڈیٹا بیس کمپیوٹر سے 100 گنا بڑے ہیں۔ حالیہ تحقیق میں جو طریقہ کاراستعما ل کیا گیا ہے، اس میں ماضی کی طرح متنازع مفروضات سے بھی اجتناب کیا گیا ہے۔

تحقیق کے مرکزی مصنف اورامریکی ادارے نیشنل اوشیانک ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اسٹیفن شیواسٹک کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کی فہرست اور موسمیاتی تحقیق میں میتھین کے بارے میں اب تک غلط اندازے لگائے گئے۔ انھوں نے کہا کہ صنعتوں اور قدرتی زمینی ذرایع سے ہونے والے میتھین کے اخراج کا عمل لگائے گئے موجودہ اندازوں کے مقابلے میں 60 سے 110 فیصد زیادہ ہے۔

تحقیق میں شامل یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے پروفیسرگرانٹ ایلن کا کہنا ہے کہ''تحقیق کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی مدد سے طے کیے گئے موسمیاتی اہداف سوچے گئے اندازوں سے زیادہ مشکل ہوجائیں گے''رپورٹ کے مطابق میتھین گیس کے اخراج کا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں جن میں قدرتی ذرایع آبگاہیں، جنگلات کی آگ، لائیواسٹاک جب کہ زمینی ذرایع میں فوسل فیول کی پیداوار، مویشی، کوڑا پھینکنے اورچاول کی کاشت شامل ہیں۔

گرین ہاؤس گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بعد میتھین گیس دوسری اہم ترین مہلک گیس ہے۔ 2007 سے اس کے اخراج میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ میتھین گیس کے اخراج میں ہونے والے اضافے سے عالمی درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگا۔یاد رہے کہ میتھین قدرتی گیس کا ایک اہم جز ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 20 گناہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سن 1901 ء سے 2010ء کے درمیان سمندروں کی سطح میں تقریباً 19 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا جب کہ گرین ہاؤس گیسوں کے پھیلاؤ اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹروآکسائیڈ گزشتہ 8 لاکھ سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ 21 ویں صدی میں بھی گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوتا رہے گاجب کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو فوری طور پر روک بھی دیا جائے تو بھی ایک صدی تک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات جاری رہیں گے۔

برطانوی موسمیات کے تحقیقاتی ادارے کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے تیزرفتار اخراج کے باعث موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ،جس کے نتیجے میں ناصرف طوفان آرہے ہیں بلکہ گرمی کی شدت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے آنے والے برسوں میں درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگا۔


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بحرالکاہل کے علاقوں میں طوفان بادوباراں، سمندری سائیکلون اورآندھیوں کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ موسمیات کی عالمی تنظیم کے مطابق ہر سال فضا میں تقریباً 23 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہورہا ہے دوسرے لفظوں میں ہر سیکنڈ میں 700 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہورہی ہے۔

ریکارڈ کیے گئے پچھلے 14 برس 21 ویں صدی کے گرم ترین سال شمار کیے گئے ہیں جب کہ رواں سال 2016ء میں بھی اب تک درجہ حرارت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق 1980ء میں موجود سمندری برف کا برطانیہ سے 10 گنا بڑا حصہ ختم ہوچکا ہے جب کہ برف کے پگھلنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں کے حالیہ اخراج کی وجہ سے کرئہ ارض 2100 تک صنعتی دورکے مقابلے میں 2.7 ڈگری تک گرم ہوجائے گا۔

گزشتہ سال پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی سربراہی کانفرنس میں ماحولیاتی تحفظ کا تاریخی معاہدہ طے پایا تھا، جس پر دنیا کے 191 ملکوں نے دستخط کیے تھے اس معاہدے کا نفاذ اب سے چند ہفتے بعد یعنی 4 نومبرکو ہونے جارہا ہے جس کے فوراً بعد 7 نومبر سے مراکش میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز ہوجائے گا، یہ عالمی کانفرنس 18 نومبر تک جاری رہے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے غریب اور ترقی پذیری ممالک جو فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے کم سے کم حصے دار ہیں نے ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ کوششیں کی تھیں۔ اس معاہدے کے مطابق عالمی درجہ حرارت کو زیادہ سے زیادہ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے گا۔

معاہدے کے نفاذ سے قبل نیویارک میں48 کم ترقی یافتہ ملکوں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے نفاذ کا خیر مقدم توکرتے ہیں لیکن امریکا، چین اور یورپی یونین کی صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والے 50 برسوں میں عالمی درجہ حرارت میں مزید 3 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے گا جس کے باعث متعدد غریب ملک کسی بھی طرح کی زندگی کے لیے ناقابل برداشت ہوجائیں گے۔

دوسری جانب ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اقوام متحدہ نے بھی امیر اقوام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسموں کی شدت اور سمندروں کی سطح کو قابو میں رکھنے کے لیے ان ملکوں نے ابھی تک ضروری رقم مختص نہیں کی ہے۔ یاد رہے کہ امیر ملکوں نے اس ضمن میں ہر سال 100 ارب ڈالر جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے زیادہ رقم گرین کلائمیٹ فنڈ کی مد میں جمع کی جانی تھی۔تاحال اس فنڈ میں 10 ارب ڈالر جمع ہوپائیں ہیں۔

7 نومبر سے شروع ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے قبل ''بین الاقوامی ادارہ برائے ماحولیاتی ترقی'' کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 48 غریب ملکوں کو ماحولیاتی معاہدوں پر عمل در آمد کرنے کے لیے تقریباً 93 ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہوگی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ملکوں کو 2050ء تک موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے 500 ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ اعدادو شمار گزشتہ تخمینے سے 4سے 5 گنا زیادہ ہیں۔

عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے قبل جاری ہونے والی ان رپورٹوں کے علاوہ بھی اس ضمن میں متعدد عالمی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں۔ زہریلی گیسوں کے اخراج کے حوالے سے جاری کی جانے والی نئی رپورٹ کے علاوہ ترقی یافتہ اقوام کی جانب سے کیے گئے 100 ارب ڈالر کا وعدہ بھی کانفرنس میں بحث کا موضوع ہوگا۔ ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدہ کے نافذ العمل ہونے کے بعد اس کو کامیاب بنانے کے لیے دنیا کی صنعتی طور پر ترقی یافتہ اقوام کی ذمے داری ہوگی کہ وہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کی جانے والی عالمی جدوجہد کی مہلت کم ہوتی جارہی ہے۔

حالیہ تباہ کن سمندری طوفان میتھیو ہو یا گلیشیر کا پگھلنا، گرمی کی شدت میں اضافہ ہو یا تباہ کن بارشیں یا سمندروں کی سطح میں تیزی سے ہونے والا اضافہ یہ سب مظاہر اس جانب واضح اشارہ کررہے ہیں کہ کرئہ ارض کے موسموں کے بدلتے تیور دنیا کی امیر اقوام کی سست روی کا انتظار نہیں کریں اور اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا ہوگا۔
Load Next Story