’میرا نام ہے گوہر جان‘
محترم سعد اللہ جان برق ہمارے ان کالم نگاروں میں سے ہیں جو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں
محترم سعد اللہ جان برق ہمارے ان کالم نگاروں میں سے ہیں جو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جن کے قلم کی کاٹ کا جواب نہیں۔ ان کا تازہ کالم 'بھولی بسری آوازیں' کیا کچھ یاد دلا گیا۔ انھوں نے خاص طور سے گوہر کلکتے والی کا ذکر کیا ہے۔ اس نام پر نگاہ پڑی تو کئی برس پرانی بات یاد آئی۔ میں دلی گئی ہوئی تھی، وہاں جب معلوم ہوا کہ گوہر جان پر کوئی کتاب چھپی ہے تو میں تڑپ گئی۔
اس کا ذکر میں نے اپنے گھر میں بچپن سے سنا تھا۔ وہ گوہر جسے اپنے ہونے پر اصرار تھا، اس کے ریکارڈ جب کاٹے گئے تو اس کے اختتام پر وہ ایک ادا سے کہتی 'میرا نام گوہر جان کلکتے والی'۔ یہ نام اور یہ آواز ایک زمانے میں کلکتے سے کنیا کماری اور کراچی سے کابل تک حکومت کرتی تھی۔
اپنی دوستوں کی عنایت سے یہ کتاب میرے ہاتھ آئی جو ان دنوں آؤٹ آف پرنٹ تھی۔ مجھے ملی تو میں نے سوچا کہ اس پر ضرور کالم لکھوں گی اور پھر یہ کتابوں کے ڈھیر میں کہیں گم ہو گئی۔ سعد اللہ جان صاحب نے اس کی یاد لا دی۔
سوا تین سو صفحوں کی یہ کتاب جو انگریزی میں ہے، ایک نوجوان وکرم سمپتھ نے یوں ڈوب کر لکھی کہ تحقیق اور تخلیق دونوں کا حق ادا کر دیا۔ کتاب میں نے کراچی پہنچتے ہی چند دنوں کے اندر پڑھ کر ختم کی اور یہی سوچتی رہ گئی کہ وکرم کو اپنی ثقافتی تہذیبی تاریخ سے اور فنکار سے کتنا لگاؤ ہو گا کہ اس نے یہ کتاب لکھی۔ وہ میسور کے شاہی خاندان کی 600 سالہ تاریخ پر کتاب لکھنے گیا تھا۔ وہیں اس کی نظر ایک باکس فائل پر پڑی جس پر جلی حروف میں ''گوہر جان'' لکھا تھا۔ یہ نام اس نے سنا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ ایک زمانے میں اس نام کی ایک دھوم تھی۔
وکرم کا کہنا ہے کہ میں ایک ناستک ہوں لیکن جلد ہی مجھے محسوس ہونے لگا کہ 'گوہر جان' کی روح مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے۔ وکرم کو ہندوستانی موسیقی اور موسیقاروں سے عشق ہے اور وہ عشق کی اسی ڈور میں بندھا کھنچا چلا گیا اور اس نے ''میرا نام ہے گوہرجان'' لکھی۔ یوں اس عورت کو نئی زندگی دی جسے برصغیر کے باشندوں نے تقریباً بھلا ہی دیا تھا۔
یہ انمول فن کار ایک ایسے متوسط ہندو اور مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئی جس کی سربراہ کا نام رکمنی تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر سے شادی کی خاطر وہ عیسائی ہوئی۔ اس کی دو بیٹیاں ہوئیں، ان میں سے بڑی وکٹوریہ ہیمنگز اور چھوٹی بیلا کہلاتی تھی۔ ان کا باپ ہارڈی ہیمنگز اپنی دونوں بیٹیوں پر جان دیتا تھا۔ ہارڈی کی اچانک موت ان ماں بیٹیوں پر بجلی بن کر گری اور انھوں نے برسوں نہایت محنت و مشقت کے ساتھ شرافت اور غربت کی زندگی گزاری۔ اچانک اس خاندان کی زندگی میں ایک ارمنی نوجوان رابرٹ ولیم موسم بہار کی طرح آیا۔
1872ء میں ولیم 20 برس کا تھا اور وکٹوریہ 15 برس کی۔ ہولی ٹرنیٹی الہ آباد میں ان دونوں کی شادی ہوئی۔ 1873ء میں اعظم گڑھ میں ان کے یہاں ایک نہایت خوبصورت بچی ایلین اینجلینا پیدا ہوئی۔ تقدیرکا تیر شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس نے وکٹوریہ اوراینجلینا کو بھی شکار کیا۔ رابرٹ نے چہیتی بیوی اور بیٹی سے منہ موڑا، یہیں سے وہ کہانی شروع ہوتی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ایک شریف اورگھریلو عورت اپنی مرتی ہوئی بچی اینجلینا کو بچانے کے لیے کس طرح وہ راستہ اختیارکرنے پر مجبور ہو جاتی ہے جو اسے بالا خانے تک لے جاتا ہے۔
وکٹوریہ کی ماں رکمنی ایک مسیحی سے شادی کرنے کے لیے ہندو سے عیسائی ہوئی تھی اور اب ایک مسلمان صاحبزادہ خورشید اس کی مرتی ہوئی بچی کے علاج پر خرچ کرنے کی قیمت اس کے حسن سے وصول کرتا ہے۔ یہ لوگ 1879ء میں اعظم گڑھ سے بنارس کا رخ کرتے ہیں۔ یہیں وکٹوریہ مسلمان ہو جاتی ہے، اس کا خریدار اس کا نام ملکہ رکھتا ہے اور اس کی بیٹی اینجلینا پہلے گوہر اور پھر 'گوہر جان' ہو جاتی ہے۔ وہ گوہر جان جو ہندوستان بھر میں اپنی آواز اور اپنے حسن سے تہلکہ مچانے والی ہے۔
وکٹوریہ جس نے زندگی کا آغاز ایک مسیحی شریف زادی کے طور پرکیا تھا، وہ کس طرح طوائف گلی میں نکل گئی۔ 'ملکہ' سے 'ملکہ جان' اور پھر 'ملکہ جان بڑی' ہوئی۔ یہ ایک طویل اور الم ناک کہانی ہے۔ اسے کم عمر ی سے ہی اردو پڑھنے اور اس میں شعر کہنے کا شوق تھا۔
بنارس پہنچی تو اس کے 'سرپرست' نے اس کے لیے فارسی اور اردوکے استاد مقرر کیے۔ وہ رقص و موسیقی میں طاق کی گئی اور جلد ہی اس کے شعر بنارس سے لکھنؤ تک پہنچنے لگے اور اس کے ساتھ ہی بہ طور ایک 'بائی' اس کے خواستگاروں کا حلقہ بھی پھیلنے لگا۔ یہ بنارس اورارد گرد کے شہروں کے اشراف تھے جو فن کے قدر دان تھے اور جن کی گرہ میں مال بھی تھا۔
وکرم سمپتھ نے گوہرجان کے بارے میں جو کتاب لکھی ہے اس کا آغاز گوہر کی والدہ ملکہ جان بڑی کے ان اشعار سے کیا ہے:
بخشے گا ہر گناہ وہ' عصیاں شعار کا
بے حد ہے رحم بندوں پہ پروردگار کا
تردامنی سے اپنی نہیں غم مجھے ذرا
بحرِ کرم ہے جوش پر آموز گار کا
بنارس میں شعر و ادب اور رقص و موسیقی کی تربیت لے کر اور ناز و انداز کے فن میں صیقل ہو کر دونوں ماں بیٹی کلکتہ پہنچیں جہاں معزول شاہ اودھ کا دربار لگتا تھا۔ اس دربار میں ملکہ جان بڑی نے بار پایا، نوخیز بیٹی گوہر جان کا ستارہ اوج پر پہنچا۔ اسی دور ان ملکہ جان بڑی کو اس بات کا شوق ہوا کہ وہ اپنا دیوان مرتب کریں اور پھر اسے شایع کرائیں۔
22 اکتوبر 1886ء کو رپن پریس، کلکتہ سے 'مخزن الفت ملکہ' شایع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ادبی محفلوں میں ملکہ جان بڑی کا سکہ بیٹھ گیا۔ ان کے گھر پر ادبی نشستیں اور مشاعرے ہوتے جن میں داغ دہلوی اور اکبر الہ آبادی ایسے جید شعراء شریک ہوتے۔ 'ملکہ جان بڑی' کے اس دیوان کا ذکر قرۃالعین حیدر نے اپنے ناول 'گردشِ رنگ چمن' میں کیا ہے اور اس کے سرورق کا عکس بھی دیا ہے۔ بنارس سے کلکتہ پہنچنے کے بعد ملکہ جان بڑی کا مذہبی رجحان گہرا ہوتا چلا گیا، دولت نے ملکہ کے گھر کے پھیرے ڈالے تو اس کے ساتھ ہی ملکہ کی داد و دہش میں بھی اضافہ ہوا۔
ملکہ کے گھر سے کلکتے کی مشہور زمانہ ناخدا مسجد اور دھرم تلہ مسجد کو گراں قدر عطیات بھیجے جانے لگے۔ کئی مدرسے جہاں مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کرتے تھے، انھیں بھی ملکہ کی طرف سے وظیفہ ملنے لگا۔ بہت سے وہ لوگ جوگانے والیوں، ناچنے والیوں اور طوائفوں کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک کرتے تھے، وہ ملکہ جان بڑی کے شرمندئہ احسان ہوئے۔ گناہ و ثواب کے تمام معاملات ان کے پروردگار کے اور خود ان کے درمیان تھے۔ ملکہ جان بڑی نے آخری سانس کلکتہ میں لی اور باگھ ماری قبرستان میں دفن ہوئیں۔
یہاں سے گوہر جان کا قصہ شروع ہوتا ہے جو اپنی ماں کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی اور جو اس تلخ حقیقت سے بھی آگاہ تھی کہ جب وہ بچی تھی اور آخری سانسیں لے رہی تھی تو یہ اس کی ماں تھی جس نے بیٹی کی جان بچانے کے لیے وہ راہ اختیار کی تھی جوکبھی اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں آئی تھی۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ وکرم سمپتھ کو اردو اور فارسی نہیں آتی۔ وہ ان زبانوں سے ناواقفیت کا اعتراف کرتے ہوئے، اس بات پر دکھ کا اظہار کرتا ہے کہ اسے یہ زبانیں کیوں نہیں آتیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے ایک اردو داں دوست کی مدد سے اپنی تحریر میں ایسے برجستہ اور برمحل اشعار ٹانکتا چلا جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہ جب اگست 1928ء میں میسورکے دلکشا کاٹج میں ہماری پہلی ملاقات گوہر جان سے کراتا ہے، تو گوہر جان عمر کے 50 برس گزار چکی ہیں اور زیر لب کہتی ہیں 'یا اللہ' تو غفورالرحیم ہے۔ بس اب یہ میرا آخری ٹھکانہ ہو، میں تھک چکی ہوں، آرام کرنا چاہتی ہوں۔
گوہر کی زندگی، کسی کہانی کی طرح اس کی نگاہوں کے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ وکرم کو اس موقعے پر ایک شعر یاد آتا ہے:
لطف ہے کون سی کہانی میں
آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی؟
(جاری ہے)