کولمبس اوہائیو کنیکٹیکٹ اور شکاگو

جغرافیے کی بھول بھلیوں کے باوجود اتنا اشارہ تھا کہ یہ شہر نیویارک کے اردگرد ہی کہیں واقع ہے


Amjad Islam Amjad October 16, 2016
[email protected]

ڈیٹرائٹ کے بعد ہمارا اگلا سہ روزہ اور مسلسل مصروفیت کا زمانہ 23، 24 اور 25 ستمبر کو بالترتیب کولمبس اوہائیو، کنیکٹی کٹ اور شکاگو میں تھا جہاں ہمارے مقامی میزبان اسی ترتیب سے مجاہد صاحب، ہمایوں کبیر، ناصر چیمہ اور مشتاق سلیمی، نعیم اقبال صاحبان تھے۔

فنڈ ریزنگ اور مشاعرہ دونوں کے حوالے سے کولمبس اوہائیو منتظمین کے لیے اصلی والے کولمبس جیسا ہی تھا کہ جس کی مہم جوئی اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں پہنچا ہے اور اب آگے کیا پیش آنے والا ہے لیکن یہ سنسنی اور تذبذب بہت جلد دم توڑ گئے کہ وقت مقررہ پر نہ صرف ہال بھر گیا بلکہ لوگوں کی گرم جوشی بھی دیدنی تھی۔

سو برادرم ڈاکٹر اشتیاق گوندل کی دلچسپ ابتدائی تقریر، حافظ امجد سعید صاحب کی خطابت اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی تعارفی ڈاکیومنٹری سب ہی بہت کامیاب رہے اور مجھے اور انور مسعود کو بھی اپنے معمول کے کوٹے سے زیادہ کلام سنانا پڑا کہ حاضرین ''ہل من مزید'' کی منہ بولتی تصویر بنے بیٹھے تھے۔

اگلا پڑاؤ کنیکٹی کٹ تھا جس کا نام انور مسعود کی زبان پر چڑھ نہیں رہا تھا اور آخر تک وہ اسے طرح طرح کے ناموں سے یاد کرتے رہے۔ اس پر ایک بچپن کا بھولا ہوا مزاحیہ شعر بہت یاد آیا کہ

پہلے اس نے مُس کہا پھر تَق کہا پھر بِِل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے

جغرافیے کی بھول بھلیوں کے باوجود اتنا اشارہ تھا کہ یہ شہر نیویارک کے اردگرد ہی کہیں واقع ہے کہ ہم اس سے پہلے دو بار نیویارک سے یہاں تک کا سفر بذریعہ کار کر چکے تھے اور دونوں بار ہمارے میزبان مرحوم ڈاکٹر صفوت علی صفوت تھے جن کا شعبہ تو سائنس تھا مگر اوڑھنا بچھونا شاعری تھی۔ سید ضمیر جعفری مرحوم نے انھیں سائنس اور شاعری کے اشتراک سے ایک سائنسی مثنوی لکھنے کی تحریک دی جو ہمارے ادب میں غالباً اپنی نوعیت کی واحد چیز ہے۔ ان سے آخری ملاقات حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں ہوئی تھی۔ اس شہر میں ان کی یادیں ہمہ وقت ساتھ ہیں۔

شکاگو امریکا کا وہ شہر ہے جہاں میں سب سے زیادہ مرتبہ گیا ہوں اور تقریباً ہر بار قیام برادرِ عزیز عرفان صوفی کی طرف ہی رہا ہے کہ میرے لیے یہ شہر اس کے نام کا استعارہ ہے حالانکہ عملی طور پر اس کی دونوں رہائش گاہیں شکاگو شہر کے بجائے اس کے دو مضافاتی شہروں یا علاقوں جولیٹ اور نیپرول میں رہی ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ماہر نفسیات ہے اور نسلی اعتبار سے اس کا تعلق مشہور صنعتی ادارے صوفی انڈسٹریز سے ہے۔

اس کو شروع کرنے والے اس کے چاروں ماموں تو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن اس خاندان کے صوفی بچوں طارق، خالد، تنویر، ظہیر، نعمان اور سلمان و دیگر سے ایک الفت کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا ہے کہ ہم سب کا بچپن فلیمنگ روڈ اور رام گلیوں کے نواح میں گزرا ہے۔ فلیمانگ روڈ (جس کا نام اب آقا بیدار بخت روڈ ہے) کو یہ اختصاص حاصل رہا ہے کہ اس چھوٹی سی سڑک سے پاکستان کے دو اہم برانڈز صوفی سوپ اور نرالا سویٹس کا آغاز ہوا تھا۔

عرفان کی تین اہم ترین خصوصیات اس کا ذوق موسیقی، سینس آف ہیومر اور بے لوث اور بے مثال دوستی ہیں۔ امریکا کا معروف ترین اور کاروباری زندگی میں بھی دوستوں کی آمد پر دن رات ان کے نام کر دینا ایک انہونی سی بات ہے مگر عرفان نے 1984ء سے لے کر اب تک کی تیرہ شکاگو یاتراؤں میں اس ناممکن کو ممکن کر کے دکھایا ہے۔

پروین شاکر مرحومہ نے اسے میرے دوستوں میں پہلا نمبر دے رکھا تھا۔ مجھے اس کے جولیٹ والے گھر کی رات کبھی نہیں بھولتی جب عرفان اس کی مرحومہ بیگم کم اور محبوبہ زیادہ، سعیدہ بھابی اور پروین نے گھنٹوں مل کر پرانے گیت گائے تھے۔ اس وقت اس کا بیٹا اسد چھ سات برس کا تھا اور بیٹی شروش ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اب وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کے ہو چکے ہیں اور وہ خود نیپرول شہر کی کانن ڈائل روڈ کے مکان نمبر 1316 میں شمیم بھابی کے ساتھ خوشگوار بڑھاپے کا عملی مظہر بن کر زندگی گزار رہا ہے۔

غزالی ٹرسٹ کے ڈائریکٹر برادرم عامر جعفری نے ہمیں شکاگو میں جائن کیا اور ان کی خواہش تھی کہ ہم ورجینیا کے سفر میں ان کے ساتھ چلیں مگر ہماری یہ دلیل کام کر گئی کہ اس پورے سفر میں صرف یہی تین دن فارغ ہیں سو آپ ہمیں یہ وقت احباب کے ساتھ گزارنے دیں چنانچہ طے پایا کہ وہ اور اشتیاق گوندل ہمیں اگلی منزل یعنی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں ملیں گے۔

قیصرہ علوی کی بیٹی عزیزہ سائرہ علوی نے اس بار بھی عرفان سے مل کر اپنے گھر پر ایک محفل کا اہتمام کر رکھا تھا جہاں اس کے ساؤتھ افریقن شوہر کے علاوہ ڈاکٹر بشارت جذبی، رضیہ فصیح احمد، غلام مصطفیٰ انجم، قونصل جنرل فیصل نیاز اور سابق سفیر کرامت غوری سمیت بہت سے احباب سے ملاقات رہی۔

کوکب افضل کو تقریباً 40 برس بعد دیکھا تو پہچاننے میں کچھ وقت لگا اور ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ وقت کتنی ظالم چیز ہے۔ اگلے روز عرفان نے ہمارے بلڈ ٹیسٹس کے لیے اپنی دوست ڈاکٹر میمونہ کی لیبارٹری میں انتظام کر رکھا تھا جہاں ہمیں خالی پیٹ جانا تھا سو اس بہانے بعد میں ایک ایسی جگہ بھرپور ناشتہ کیا گیا جہاں سارا دن صرف ناشتہ ہی چلتا رہتا ہے۔

برادرم فہیم بھارت کے چار روزہ طوفانی دورے کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ ان سے مختصر ملاقات اس وعدے کے ساتھ رہی کہ یکم اکتوبر کو ''اپنا'' کے مشاعرے کے لیے جب دوبارہ آئیں گے تو پھر تسلی سے بیٹھیں گے۔ فہیم سے پہلی ملاقات ہیوسٹن میں مقیم عزیز دوست نوجوت عرف زویا کی معرفت ہوئی تھی۔ زویا کو ان ہی دنوں اپنی بھابی یا بھتیجی کی شادی میں شرکت کے لیے بھارت جانا تھا۔ اس سے ملاقات تو نہ ہو سکی مگر فہیم سے ملاقات کے دوران اس کا تذکرہ اسی طرح ہوتا رہا جیسے وہ بھی شریک محفل ہو۔

''ڈیوان'' کا علاقہ لندن کے ساؤتھ ہال کا ہی ایک روپ ہے کہ یہاں ہر طرف اپنے لوگوں کا راج ہے۔ اردو، ہندی اور بنگالی لوگ اور سائن بورڈ قدم قدم پر نظر آتے ہیں۔ برادرم غلام مصطفیٰ انجم نے شکاگو کے پاکستانی قونصلیٹ میں قونصلر ہیں، وہاں کے سیرینا نامی ریستوران میں ایک پرلطف ڈنر کا اہتمام کیا جو اس دورے کا واحد ڈنر تھا جس کے بعد مشاعرہ نہیں ہوا حالانکہ میزبان بذاتِ خود ایک معقول اور باقاعدہ شاعر تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔