زرافہ اور لمبی لڑکی…اور زنجیریں

’’زرافہ اور لمبی لڑکی اوردوسرے افسانے‘‘ اجمل اعجاز کے افسانوں کا مجموعہ ہے


Naseem Anjum October 16, 2016
[email protected]

''زرافہ اور لمبی لڑکی اوردوسرے افسانے'' اجمل اعجاز کے افسانوں کا مجموعہ ہے جوکچھ عرصہ قبل شایع ہوا ہے اس کی تقریب تعارف بھی پریس کلب میں ہوچکی ہے۔

اجمل اعجاز قابل ذکر افسانہ نگار ہیں، وہ معاشرتی سچائیوں کو بڑی دلکشی کے ساتھ افسانے کے قالب میں ڈھالتے ہیں، بیانی رنگ میں رنگی ہوئی کہانیاں قاری کو متاثرکیے بنا نہیں رہتی ہیں، اجمل اعجاز 8کتابوں کے مصنف ہیں، تین افسانوں کے مجموعے بعنوان ''بے لباس موسم '' دوسرا ''جہنم'' اور تیسرا یہ جس پر میں خامہ فرسائی کر رہی ہوں، اسی طرح ڈراما نویسی کے حوالے سے بھی ان کی تین کتابیں دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شایع ہوکر قارئین سے داد وتحسین حاصل کرچکی ہیں۔

اجمل اعجاز کے یہ ڈرامے ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے بادل اور زمین، آس کا پنچھی اور درد کا چاند جیسی کتابیں منصہ شہود پرآئیں، انھوں نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں اور ناول لکھا ہے۔ ان کا ناول ''اصلی خزانہ'' 1991 میں شایع ہوا،'' ایک محقق تین ادیب'' مذکورہ کتاب منتخب افسانوں پر مشتمل ہے۔ ''زرافہ اور لمبی لڑکی...'' میں21 افسانے شامل ہیں۔ ڈاکٹر حسن منظر، محمد حمید شاہد اور نصیراحمد ناصر کی آرا سے یہ مجموعہ مرصع ہے۔

حمید شاہد اجمل اعجاز کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''اجمل اعجازکو اپنے مزاج کے اعتبار سے کہانی کی سادہ ترتیب مرغوب ہے۔ اس میں واقعاتی اکھاڑ پچھاڑ نہیں کرتے الجھاؤ نہیں ڈالتے اور لطف یہ کہ اسی ماجرائی ترتیب سے معنویت بھی تراش لیتے ہیں وہ اپنے کرداروں کے من میں اترنے کا ہنر جانتے ہیں، رشتوں کی نزاکت کو جانچ سکتے ہیں اور بدلتے وقت کی چاپ سن لیتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر تنویرانورخان کی کتاب زنجیریں شایع ہوکر قارئین اور ناقدین کے ہاتھوں میں آئی ہے۔

میں ڈاکٹر تنویرکے نام سے واقف ہوں اور نہ کام سے، لیکن ان کے افسانوں کے مطالعے نے مجھے ان کی ذات، ان کی شخصیت اور خیالات سے آشنا کیا ہے۔ کسی بھی قلمکارکی تحریریں اس کے افکار کا آئینہ ہوتی ہیں، اس کے رہن سہن، سوچ اور بصیرت سے متعارف کراتی ہیں کہ اس نے زمانے کو کس نگاہ سے دیکھا۔ لوگوں کے مثبت اور منفی رویوں نے اس کی فکر میں کیا تبدیلیاں رونما کیں اور زمانے کے حوادث و تجربات کواس نے اپنی تحریروں میں کس طرح برتا وغیرہ وغیرہ۔

میں نے ڈاکٹر تنویرکے افسانے نہایت توجہ اورخلوص کے ساتھ پڑھے۔ پڑھنے کے بعد مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر تنویر،کہانیاں لکھنے کا فن جانتی ہیں اور قصوں وکہانیوں کو افسانوں کے قالب میں ڈھالنے کے گر سے واقف ہیں۔ان کا مشاہدہ گہرا ہے، ان کے افسانوں کا خمیر معاشرے کے تلخ و شیریں حقائق کا مرہون منت ہے، یہی وجہ ہے کہ قاری کو افسانے پڑھتے ہوئے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس بات کا احساس شدت اختیارکرلیتا ہے کہ ان کہانیوں کا تو میں خود بھی ضامن ہوں، چونکہ ان کے کردار ہمارے ارد گرد بسنے اور زندگی گزارنے والوں کے غم و زیست سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ انھی حقائق کی بنا پر ان کے تمام افسانے قابل مطالعہ ہوگئے ہیں۔

یہ افسانے غور و فکر کی بھی دعوت دیتے ہیں اور قاری کچھ دیر تک کے لیے ضرور سوچتا ہے کہ اس شخص کے ساتھ یہ ظلم اور ناانصافی کیونکر ہوئی، یا اس کی قسمت نے اس کے ساتھ سنگین مذاق کیوں کیا پھر یہ سوچ کر اسے اطمینان ہوجاتا ہے کہ قسمت کے فیصلے اٹل ہیں۔

ڈاکٹر تنویر انورکی تحریروں کو پڑھ کر اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوں نے سالہا سال قبل یہ افسانے لکھے تھے جب تنخواہیں اور چیزوں کی قیمتیں بہت کم تھیں اور مہنگائی کا جن پالنے میں تھا اور ٹی بی کی بیماری کی روک تھام اور علاج کا معقول انتظام نہ تھا۔ اسی وجہ سے آڈیٹوریم آباد تھے۔ ''سنگ سمیٹ لو'' اس افسانے میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ محبت اور بیماری قدم ملاکر ساتھ چل رہے ہیں، اتفاق سے دونوں ہی کو مات ہوجاتی ہے۔

تانیہ کو صحت وتندرستی کے سرسبز پودے خوش آمدید کہتے ہیں اور جسے چاہا تھا اس سے جدائی ہوجاتی ہے اور سنجوگ اس شخص سے ہوتا ہے جسے پانے کی تمنا نہیں تھی۔ بہرحال یہ تو مقدرکے کھیل ہیں۔ افسانہ اپنی بُنت کے اعتبار سے کامیاب ہے۔ قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے اورتجسس کی فضا پروان چڑھتی ہے۔افسانہ بعنوان ''چاندنی'' بھی اپنے اسلوب بیان کے اعتبار سے قابل مطالعہ ہے۔ قاری دوران مطالعہ حیرت و استعجاب کے سمندر سے گزرتا ہوا افسانے کے اختتام تک پہنچتا ہے اور کہانی کے پیچ و خم اس کے لیے دلچسپی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

یہی ایک کامیاب افسانے کی دلیل بھی ہے کہ اکتاہٹ یا بے زاری کا عنصر غالب نہ آسکے، مذکورہ افسانہ خانہ بدوشوں کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ مصنفہ نے اس حقیقت کو بھی اجاگرکرنے کی کوشش کی ہے کہ برے کام کا برا انجام ہوتا ہے، جیساکہ چاندنی کے شوہرکے ساتھ ہوا ہے کہ اسے اپنی بیوی بچوں سے بے وفائی کرنے کی سزا مل گئی ہے۔سماج کی تلخیوں اور بہاروخزاں کے موسموں کی شدت نے ڈاکٹر تنویرکے تخلیق کردہ افسانوں کو حرارت بخش دی ہے۔میں ڈاکٹر صاحبہ کواس دعا کے ساتھ مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ اللہ کرے نقشِ ثانی، نقشِ اول سے زیادہ پرکشش ہو۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں