حیرانگی تو بجا ہے

مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے

shehla_ajaz@yahoo.com

مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، اسلامی تعلیمات جن کا براہ راست تعلق انسانی اخلاقیات اور معاشرتی رویوں سے ہے، اس قدر خوبصورت اور پوری نوع انسانی کے لیے کسی شک و شبے کے بغیر آسان اور کامیاب کہ جس کے باعث انسانی ذہن خودبخود سوچنے سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایسا کیوں کرے؟

یہ ایک ایسا سیلاب ہے کہ جس پر بند باندھنے والے خودبخود اسی سیلاب کے ریلے میں شامل ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلامی شعائر اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے دشواریوں کو بڑا سوچ سمجھ کر قوانین میں ترتیب دیا جاتا رہا ہے، اسی طرح مساجد کی تعمیر میں بھی ایسے ممالک میں خاصے مسائل درپیش ہیں، اول تو اجازت کا مسئلہ پھر اس کی سیکیورٹی اور نمازیوں کے حوالے سے درپیش مسائل۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔

ابھی کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک عزیز ڈاکٹر کا کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کے تحت بیروت میں ورکشاپ اور سیمینارز وغیرہ میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ڈاکٹرز کے ایک گروپ پر مبنی چھوٹا سا قافلہ تھا، جسے سیمینارز اور ورکشاپ کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات کی تفریح کا بھی پروگرام تھا، بیروت میں ڈاکٹرز کے اس قافلے کو ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا، سیمینار بھی اس ہوٹل میں منعقد کیے گئے تھے، اس کے بعد اس گروپ کو تفریح کے لیے بیروت کے مختلف مقامات میں گھمایا گیا، یہ سب ایک طے شدہ شیڈول کے مطابق انجام دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ان کے گائیڈ نے ان کو بتایا کہ یہاں 65 فیصد مسلمان آباد ہیں، جب کہ 35 فیصد غیر مسلم ہیں۔ گویا زیادہ مسلمان اکثریت والا ملک ہے لیکن اس اکثریتی مسلمان ملک لبنان کے دارالخلافہ بیروت میں جہاں انھوں نے تقریباً دس روز تک قیام کیا، عام مسلمان ممالک کی طرح فجر یا مغرب اور دوسری نمازوں کے اوقات میں ایک بھی دن اذان کی آواز سنائی نہ دی، ایک مسلمان کے لیے یہ بڑی حیرت انگیز بات تھی، جب اس سلسلے میں انھوں نے اپنے گائیڈ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ نماز کے تو اپنے اوقات ہوتے ہیں، آپ ان اوقات میں کہیں بھی نماز پڑھ لیں۔

ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے گرد و پیش میں اسی اعتبار سے اعلیٰ طرز کی تعمیرات بھی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک طویل بلڈنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گائیڈ صاحبہ نے بتایا کہ اس عمارت کے پیچھے ایک مسجد ہے، ان کی سیاحتی بس کئی مرتبہ ادھر ادھر سڑکوں پر دوڑی پھری لیکن ان کی بے تاب نظروں کو مسجد کا مینار نظر نہ آیا۔


ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال تھا کہ شاید یہ پوش علاقہ ہے اسی لیے یہاں مسجد کی تعمیر سے احتراز برتا گیا ہے لیکن جب ان کی سیاحتی بس ایک دور افتادہ علاقے میں پہنچی جسے آپ چھوٹا سا گاؤں بھی کہہ سکتے ہیں، خدا جانے اس کا نام کیا تھا جو ذہن سے نکل گیا، لیکن یہاں بھی مسجد کا نام و نشان نہ تھا، وہاں کے مقامی بھی شہری لوگوں کی مانند مغربی طرز کے کپڑوں میں نظر آئے۔

بیروت تاریخی اور اسلامی لحاظ سے خاصا مشہور ہے یہاں مغربی ممالک کے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں، لبنان میں سیاحت کے حوالے سے خاصی آسانیاں فراہم کی گئی ہیں جو ان کے لیے کمائی کا بڑا ذریعہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ہم اس قافلے کے ساتھ دبئی اور پھر عمرے کی سعادت کو بھی حاصل کرنے گئے۔ مشرق وسطیٰ کے ان ممالک میں جو فرق انھیں لبنان کے ساتھ نظر آیا وہ ان کے لیے ایک تکلیف دہ تجربہ تھا۔

اگر آپ تاریخ کی کتابیں کھنگالیں تو آپ کو لبنان یا بیروت کے نام کا کوئی شہر یا ملک نہیں ملے گا، لبنان دراصل طویل عرصہ شام کا ایک صوبہ تھا، مسلمانوں کے عہد زریں کے بعد جس پستی نے ان علاقوں کو چاٹا اس کے باعث عرب مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا، یہ غلامی کے دور کے آخری برسوں کی نشانی ہے، جب فرانس اور برطانیہ نے دنیا بھر میں اپنی فتوحات اور سلسلہ جاری رکھا تھا اور لاتعداد کالونیاں ان کے نام سے دنیا کے خطے پر آباد تھیں لیکن پہلی جنگ عظیم نے 1915-1916 کے درمیان فرانس اور تاج برطانیہ کو ایک معاہدے پر مجبور کردیا۔

اس خفیہ معاہدے کے تحت عرب خطے کے ایک حصے جس میں عراق، کویت اور اردن شامل تھے، تاج برطانیہ کے کنٹرول میں تھے، جب کہ دوسرے حصے جس میں ماڈرن شام، لبنان اور جنوبی ترکی کے علاقے شامل تھے، اس کے علاوہ بھی عرب کے کچھ حصوں پر ان کے عظیم جھنڈے تلے مختلف عرب حکمران حکومت کر رہے تھے، جب کہ دوسرے حصے پر فرانس کی حکمرانی تھی۔

خلافت کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ کے وہ حصے جو جنگی صورتحال سے زیادہ متاثر تھے۔ جنگ کے بعد ان علاقوں میں قدیم عربی تہذیب کے بجائے مغربی رنگ چڑھتا گیا۔ ترکی اس کی ایک مثال تھا لیکن اب بھی لبنان میں مغربی تہذیب کا رنگ نمایاں ہے۔ آج وہاں مسلمان آبادی اکثریت میں ہے۔ لبنان ایک مسلمان ملک کہلاتا ہے لیکن کہلانے اور ہونے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ تاریخی اور اسلامی لحاظ سے یہ ملک اس فرق کو محسوس کرے تاکہ کوئی اجنبی مسلمان جب اس سرزمین پر قدم رکھے تو اسے اپنا آپ اس سرزمین میں ڈھونڈنے میں حیرت نہ ہو۔
Load Next Story