شریک حیات کوکھودینے کا غم
میاں بیوی پر ایک دوسرے سے جدائی پر جو کچھ گزرتی ہے اس کی شدت اس سے کہیں مختلف ہے
اس دفعہ ہم نے اپنے کالم کے لیے جو موضوع چنا ہے وہ خاصا سنجیدہ ہے جسے کسی اعتبار سے بھی مزاحیہ بلکہ نیم مزاحیہ بھی نہیں قرار دیا جاسکتا، یعنی شریک حیات کو کھودینے کا دکھ کتنا شدید ہوسکتا ہے۔ اس صدمے سے زندگی میں کتنا خلا پیدا ہوتا ہے اور اسے کس طرح پُرکیا جاسکتا ہے۔ سچی بات ہے ہم خود ابھی اس سانحے سے نہیں گزرے ، ہاں ہم نے دوسروں کو ضرور زندگی کے اس ناگزیر موڑ کا سامنا کرتے دیکھا ہے۔
اس سلسلے میں ہوا یہ ہے کہ اس موضوع پر ایک خاتون جین ای بروڈی کا انگریزی زبان میں تحریر کردہ مضمون ہمیں پڑھنے کا اتفاق ہوا اور ہم نے محسوس کیا کہ اس کے مندرجات اس قابل ہیں کہ انھیں اپنے قارئین تک پہنچایا جائے خاص طور پر ایسے لوگوں کے استفادے کے لیے جو اپنے شوہر یا بیگم کو کھودینے کے غم اور صدمے سے دوچار ہوئے ہیں اس مضمون کا ترجمہ ہم تقریباً من وعن پیش کررہے ہیں۔
اپنے محبوب شریک حیات کو عمر کے کسی بھی مرحلے میں کھودینا اس کے حالات خواہ کیسے بھی ہوں آسان نہیں ہے ۔ یہ واقعہ بالکل غیر متوقع اور اچانک بھی ہوسکتا ہے جیسے دل کا شدید دورہ پڑ جائے، ٹریفک کا مہلک حادثہ ہوجائے یا سیلاب، طوفان یا زلزلے کی صورت میں کوئی قدرتی آفت سرپر آن پڑے۔ دوسری صورت میں یہ آہستہ آہستہ شدت اختیارکرنے والی بیماری کی شکل میں طویل اورصبرآزما بھی ہوسکتا ہے جس میں زندہ بچنے والے جیون ساتھی کو اس حتمی اور ناگزیر انجام کے لیے خود کو تیارکرنے اور ایڈجسٹ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا طویل عرصے سے یہ خیال رہا ہے کہ شدید صدمے کا مختصر سا دورگزارنے کے بعد سرواؤ کرنے والی غمزدہ شرکا، حیات کی اکثریت خود کو اچھی طرح ایڈجسٹ کرلیتی ہے اپنے پچھلے کام روزمرہ کے معمولات کی طرف اور چند ماہ سے لے کر ایک سال تک کی مدت میں پہلے والے سکون واطمینان کی طرف لوٹ آتی ہے اور اسے اس جھٹکے سے جسے RESILIENCE کا نام دیا جاتا ہے نجات مل جاتی ہے۔
اس سلسلے میں کولمبیا یونی ورسٹی کے جارج اے بونانو اور ان کے ساتھیوں نے جو اسٹیڈیزکی ہیں اور جو دوسری ریسرچ کی گئی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شریک حیات کو کھودینے والے ساٹھ فی صد مطمئن اور لچک دار (RESILIENT) ثبت ہوئے اور کسی قسم کے ڈیپریشن کا شکار نہیں ہوئے۔تاہم نئی ریسرچ میں ایسے خصوصی اور موثر اقدامات کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے جن کے ذریعے اس صدمے سے گزرنے والوں کو ان کی خوش وخرم رہنے والی پرانی کیفیت بحال کرنے میں مدد کی جاسکتی ہے۔ہوسکتا ہے بظاہر نظر آنے والے ایسے لوگ مطمئن سماجی زندگی نہ گزار رہے ہوں جہاں وہ کام کرتے ہیں وہاں ان کی پرفارمنس متاثر ہوئی ہو اور انھیں یہ پتا ہی نہ ہو کہ مصیبت کے وقت میں کون ان کے کام آسکتا ہے۔
مثلاً یہودی مذہب میں ایسے غمزدہ لوگوں کی سپورٹ کا ایک طریقہ وضع کیا گیا ہے وہاں سوگ کی مدت مقررکی گئی ایک ہفتے یا اس سے زیادہ لوگ متاثرہ شریک حیات کا غم غلط کرنے اس کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اس VISITمیں جو شیوا کہلاتا ہے متاثرہ شخص سے تعزیت کی جاتی ہے اور مرنیوالے کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔
یہ ریسرچ ایریزونا اسٹیٹ یونی ورسٹی ٹمپے میں کام کرنے والے فرینک جے انفورنا اور سونیا ایس لوتھر نے کی تھی جن کو خوش قسمتی سے وہ منفرد اعداد وشمار (ڈیٹا سیٹ) حاصل ہوگئے تھے جو آسٹریلیا میں 13 برسوں تک سال بسال جمع کیے گئے تھے۔ اس اسٹڈی کے دوران جسے ہاؤس ہولڈ انکم اینڈ لیبر ڈائنامکس آسٹریلیا کا نام دیا گیا تھا۔ 15 سال سے بڑے شہریوں سے براہ راست گفتگو یا ٹیلی فون انٹرویو کے ذریعے حساس موضوعات پر سوالنامے پر کرواکے ان کے دلی جذبات وکیفیات معلوم کی گئی تھیں۔
اسٹڈی کے دوران 421 شرکا اپنے جیون ساتھی کھو بیٹھے جن سے ماہرین نے پانچ خصوصی پہلوؤں پر یہ بات معلوم کی کہ ''سانحے'' سے پہلے کے پانچ سالوں اور بعد کے پانچ سالوں میں انھوں نے اپنی زندگیاں کیسے گزاریں۔ ان میں سے 65 فی صد تو ایک سال کے اندر اس صدمے سے پہلے کی ''لائف سیٹفیکشن'' کی سطح پر پہنچ گئے تاہم 34 فی صد اپنے ساتھی کی موت کے بعد رفتہ رفتہ انحطاط کا شکار ہوتے گئے اور پانچ سال گزرنے کے باوجود اپنی پچھلی سطح پر واپس نہیں آسکے تھے۔
اس سلسلے میں جب اس قسم کے سوالوں کے جوابات معلوم کیے گئے کیا آپ خود کو زندگی سے بھرپور محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ کا سکون و اطمینان لوٹ آیا ہے؟کیا آپ میں اب بھی ٹھیک ٹھاک توانائی ہے؟ صرف 26 فی صد نے یہ اچھی خبر دی ہے کہ وہ اپنے پچھلے مقام پر لوٹ آئے ہیں جب کہ 74 فی صد جنھوں نے صدمے سے پہلے اسٹارٹ ہی خراب انداز میں کیا تھا موت کے وقت مزید غم و الم میں ڈوب گئے اورکبھی پوری طرح واپس نہیں لوٹ سکے۔
جہاں تک منفی جذبات کا تعلق ہے مثلاً یہ کہ آپ کیا نروس شخص رہے ہیں؟ کیا آپ صدمے سے اتنے نیچے چلے گئے کہ کوئی چیز بھی آپ کو ''چیئر اپ'' نہیں کرسکی؟ کیا آپ خود کو مکمل طور پر تھکا ماندہ محسوس کرتے ہیں؟ صرف 19 فی صد کے بارے میں معلوم ہوا کہ انھوں نے لچک دکھائی ہے اور مزاحمت کرتے ہوئے واپس لوٹ گئے ہیں۔
شرکا نے اپنی عام صحت کی رپورٹ بھی دی اور یہ بتایاکہ کیا انھیں روز مرہ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے گھر کا سودا سلف لاتے، سیڑھیاں چڑھتے فاصلہ طے کرتے نہاتے اورکپڑے بدلتے ہوئے پریشانی ہوتی ہے، 37 فی صد اپنی صحت بچانے میں کامیاب ہوگئے مگر 63 فی صد کی صحت متاثر ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ گرتی چلی گئی۔ 55 فی صد کی جسمانی سرگرمیاں بھی انحطاط کا شکار ہوئیں صرف 29 فی صد نے ابھرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔پورے گروپ میں غمزدہ افراد میں صرف آٹھ فی صد ایسے تھے جو سنبھلنے کی پانچوں نشانیاں سامنے رکھتے ہوئے ٹھیک ٹھاک رہے جب کہ بیس فی صد کسی اعتبار سے بھی بہتری کی طرف نہیں پلٹ سکے۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ جائزے میں شریک 92 فی صد افراد اپنے کام کرنے کے ایک یا زیادہ حصوں میں انحطاط کا شکار ہوئے تحقیق کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نتائج کے محدود سیٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ درحقیقت جیسا کہ ان کا مزید کہنا ہے وہ لوگ جنھوں نے اپنے جیون ساتھی کو کھویا ہے، ہوسکتا ہے اس اسٹڈی میں تشخیص کردہ دشواریوں سے زیادہ مشکلات سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں۔ مثلاً انھیں ملازمت کرنے میں مسائل پیش آرہے ہوں یا وہ تنہائی پر قابو نہ کرپارہے ہوں سب کچھ کہنے سننے کے بعد بھی تحقیق کے نتائج ظاہرکرتے ہیں۔
میاں بیوی پر ایک دوسرے سے جدائی پر جو کچھ گزرتی ہے اس کی شدت اس سے کہیں مختلف ہے جیساکہ عام طور پر سمجھا اور یقین کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر الفورنا نے ایک انٹرویو میں کہاکہ صدمے سے ابھرنے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے جیون ساتھی کو کھودینے والے اپنے آپ کوکتنا کمزور اورکتنا محفوظ محسوس کررہے ہیں اور وہ اپنا روز مرہ زندگی کا کردارکتنا اچھا یا کتنا برا نبھارہے ہیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے اور ڈاکٹر لتھر نے ایسے تین عناصر گنائے ہیں جو صدمے سے ابھرنے کی مجموعی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ (1)قابل بھروسہ آرام سکون اور تسکین۔ یعنی کوئی ایسا شخص آس پاس موجود ہے جس سے وہ دل کی بات کہہ سکیں یا جس پر مصیبت کے وقت تکیہ کرسکیں اور اس قابل ہوں کہ انھیں ضرورت کے وقت دوسروں سے مدد مل سکے۔ (2) سماجی رابطے سے استفادہ۔ کیا ان کی جسمانی صحت یر جذباتی مسائل سماجی سرگرمیوں مثلاً دوستوں، رشتے داروں سے ملنے جلنے اور پڑوسیوں یا گروپس سے انٹر ایکٹ کرنے میں رکاوٹ تو نہیں بنتے۔ (3)روز مرہ کے کام کاج کیا سماجی مسائل مثلاً ڈیپریشن یا طبیعت کے اضطراب اور بے چینی کی وجہ سے انھیں اپنی نارمل سرگرمیاں جاری رکھنے میں تو مشکل پیش نہیں آتی۔اپنے اعدادوشمارکو بنیاد بناکر محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میاں یا بیوی کو اس صدمے کی کیفیت سے نکلنے میں دو تین سال یا کچھ زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں جیسا کہ انھیں اندازہ ہوا کہ سب سے زیادہ مدد اس بات سے ملتی ہے کہ آپ سماجی طور پر رابطے SOCIALLY CONNECTED ہیں اور روز مرہ زندگی کی معمول کی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ مصروف رہیں اور آپ کو اچھی طرح پتا ہو کہ مدد کے لیے آپ کو کس سے رجوع کرنا ہے کون آپ کو کمفرٹ دے سکتا ہے اور مصیبت کے وقت کون آپ کے کام آسکتا ہے۔
اس سلسلے میں ہوا یہ ہے کہ اس موضوع پر ایک خاتون جین ای بروڈی کا انگریزی زبان میں تحریر کردہ مضمون ہمیں پڑھنے کا اتفاق ہوا اور ہم نے محسوس کیا کہ اس کے مندرجات اس قابل ہیں کہ انھیں اپنے قارئین تک پہنچایا جائے خاص طور پر ایسے لوگوں کے استفادے کے لیے جو اپنے شوہر یا بیگم کو کھودینے کے غم اور صدمے سے دوچار ہوئے ہیں اس مضمون کا ترجمہ ہم تقریباً من وعن پیش کررہے ہیں۔
اپنے محبوب شریک حیات کو عمر کے کسی بھی مرحلے میں کھودینا اس کے حالات خواہ کیسے بھی ہوں آسان نہیں ہے ۔ یہ واقعہ بالکل غیر متوقع اور اچانک بھی ہوسکتا ہے جیسے دل کا شدید دورہ پڑ جائے، ٹریفک کا مہلک حادثہ ہوجائے یا سیلاب، طوفان یا زلزلے کی صورت میں کوئی قدرتی آفت سرپر آن پڑے۔ دوسری صورت میں یہ آہستہ آہستہ شدت اختیارکرنے والی بیماری کی شکل میں طویل اورصبرآزما بھی ہوسکتا ہے جس میں زندہ بچنے والے جیون ساتھی کو اس حتمی اور ناگزیر انجام کے لیے خود کو تیارکرنے اور ایڈجسٹ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا طویل عرصے سے یہ خیال رہا ہے کہ شدید صدمے کا مختصر سا دورگزارنے کے بعد سرواؤ کرنے والی غمزدہ شرکا، حیات کی اکثریت خود کو اچھی طرح ایڈجسٹ کرلیتی ہے اپنے پچھلے کام روزمرہ کے معمولات کی طرف اور چند ماہ سے لے کر ایک سال تک کی مدت میں پہلے والے سکون واطمینان کی طرف لوٹ آتی ہے اور اسے اس جھٹکے سے جسے RESILIENCE کا نام دیا جاتا ہے نجات مل جاتی ہے۔
اس سلسلے میں کولمبیا یونی ورسٹی کے جارج اے بونانو اور ان کے ساتھیوں نے جو اسٹیڈیزکی ہیں اور جو دوسری ریسرچ کی گئی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شریک حیات کو کھودینے والے ساٹھ فی صد مطمئن اور لچک دار (RESILIENT) ثبت ہوئے اور کسی قسم کے ڈیپریشن کا شکار نہیں ہوئے۔تاہم نئی ریسرچ میں ایسے خصوصی اور موثر اقدامات کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے جن کے ذریعے اس صدمے سے گزرنے والوں کو ان کی خوش وخرم رہنے والی پرانی کیفیت بحال کرنے میں مدد کی جاسکتی ہے۔ہوسکتا ہے بظاہر نظر آنے والے ایسے لوگ مطمئن سماجی زندگی نہ گزار رہے ہوں جہاں وہ کام کرتے ہیں وہاں ان کی پرفارمنس متاثر ہوئی ہو اور انھیں یہ پتا ہی نہ ہو کہ مصیبت کے وقت میں کون ان کے کام آسکتا ہے۔
مثلاً یہودی مذہب میں ایسے غمزدہ لوگوں کی سپورٹ کا ایک طریقہ وضع کیا گیا ہے وہاں سوگ کی مدت مقررکی گئی ایک ہفتے یا اس سے زیادہ لوگ متاثرہ شریک حیات کا غم غلط کرنے اس کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اس VISITمیں جو شیوا کہلاتا ہے متاثرہ شخص سے تعزیت کی جاتی ہے اور مرنیوالے کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔
یہ ریسرچ ایریزونا اسٹیٹ یونی ورسٹی ٹمپے میں کام کرنے والے فرینک جے انفورنا اور سونیا ایس لوتھر نے کی تھی جن کو خوش قسمتی سے وہ منفرد اعداد وشمار (ڈیٹا سیٹ) حاصل ہوگئے تھے جو آسٹریلیا میں 13 برسوں تک سال بسال جمع کیے گئے تھے۔ اس اسٹڈی کے دوران جسے ہاؤس ہولڈ انکم اینڈ لیبر ڈائنامکس آسٹریلیا کا نام دیا گیا تھا۔ 15 سال سے بڑے شہریوں سے براہ راست گفتگو یا ٹیلی فون انٹرویو کے ذریعے حساس موضوعات پر سوالنامے پر کرواکے ان کے دلی جذبات وکیفیات معلوم کی گئی تھیں۔
اسٹڈی کے دوران 421 شرکا اپنے جیون ساتھی کھو بیٹھے جن سے ماہرین نے پانچ خصوصی پہلوؤں پر یہ بات معلوم کی کہ ''سانحے'' سے پہلے کے پانچ سالوں اور بعد کے پانچ سالوں میں انھوں نے اپنی زندگیاں کیسے گزاریں۔ ان میں سے 65 فی صد تو ایک سال کے اندر اس صدمے سے پہلے کی ''لائف سیٹفیکشن'' کی سطح پر پہنچ گئے تاہم 34 فی صد اپنے ساتھی کی موت کے بعد رفتہ رفتہ انحطاط کا شکار ہوتے گئے اور پانچ سال گزرنے کے باوجود اپنی پچھلی سطح پر واپس نہیں آسکے تھے۔
اس سلسلے میں جب اس قسم کے سوالوں کے جوابات معلوم کیے گئے کیا آپ خود کو زندگی سے بھرپور محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ کا سکون و اطمینان لوٹ آیا ہے؟کیا آپ میں اب بھی ٹھیک ٹھاک توانائی ہے؟ صرف 26 فی صد نے یہ اچھی خبر دی ہے کہ وہ اپنے پچھلے مقام پر لوٹ آئے ہیں جب کہ 74 فی صد جنھوں نے صدمے سے پہلے اسٹارٹ ہی خراب انداز میں کیا تھا موت کے وقت مزید غم و الم میں ڈوب گئے اورکبھی پوری طرح واپس نہیں لوٹ سکے۔
جہاں تک منفی جذبات کا تعلق ہے مثلاً یہ کہ آپ کیا نروس شخص رہے ہیں؟ کیا آپ صدمے سے اتنے نیچے چلے گئے کہ کوئی چیز بھی آپ کو ''چیئر اپ'' نہیں کرسکی؟ کیا آپ خود کو مکمل طور پر تھکا ماندہ محسوس کرتے ہیں؟ صرف 19 فی صد کے بارے میں معلوم ہوا کہ انھوں نے لچک دکھائی ہے اور مزاحمت کرتے ہوئے واپس لوٹ گئے ہیں۔
شرکا نے اپنی عام صحت کی رپورٹ بھی دی اور یہ بتایاکہ کیا انھیں روز مرہ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے گھر کا سودا سلف لاتے، سیڑھیاں چڑھتے فاصلہ طے کرتے نہاتے اورکپڑے بدلتے ہوئے پریشانی ہوتی ہے، 37 فی صد اپنی صحت بچانے میں کامیاب ہوگئے مگر 63 فی صد کی صحت متاثر ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ گرتی چلی گئی۔ 55 فی صد کی جسمانی سرگرمیاں بھی انحطاط کا شکار ہوئیں صرف 29 فی صد نے ابھرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔پورے گروپ میں غمزدہ افراد میں صرف آٹھ فی صد ایسے تھے جو سنبھلنے کی پانچوں نشانیاں سامنے رکھتے ہوئے ٹھیک ٹھاک رہے جب کہ بیس فی صد کسی اعتبار سے بھی بہتری کی طرف نہیں پلٹ سکے۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ جائزے میں شریک 92 فی صد افراد اپنے کام کرنے کے ایک یا زیادہ حصوں میں انحطاط کا شکار ہوئے تحقیق کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نتائج کے محدود سیٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ درحقیقت جیسا کہ ان کا مزید کہنا ہے وہ لوگ جنھوں نے اپنے جیون ساتھی کو کھویا ہے، ہوسکتا ہے اس اسٹڈی میں تشخیص کردہ دشواریوں سے زیادہ مشکلات سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں۔ مثلاً انھیں ملازمت کرنے میں مسائل پیش آرہے ہوں یا وہ تنہائی پر قابو نہ کرپارہے ہوں سب کچھ کہنے سننے کے بعد بھی تحقیق کے نتائج ظاہرکرتے ہیں۔
میاں بیوی پر ایک دوسرے سے جدائی پر جو کچھ گزرتی ہے اس کی شدت اس سے کہیں مختلف ہے جیساکہ عام طور پر سمجھا اور یقین کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر الفورنا نے ایک انٹرویو میں کہاکہ صدمے سے ابھرنے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے جیون ساتھی کو کھودینے والے اپنے آپ کوکتنا کمزور اورکتنا محفوظ محسوس کررہے ہیں اور وہ اپنا روز مرہ زندگی کا کردارکتنا اچھا یا کتنا برا نبھارہے ہیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے اور ڈاکٹر لتھر نے ایسے تین عناصر گنائے ہیں جو صدمے سے ابھرنے کی مجموعی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ (1)قابل بھروسہ آرام سکون اور تسکین۔ یعنی کوئی ایسا شخص آس پاس موجود ہے جس سے وہ دل کی بات کہہ سکیں یا جس پر مصیبت کے وقت تکیہ کرسکیں اور اس قابل ہوں کہ انھیں ضرورت کے وقت دوسروں سے مدد مل سکے۔ (2) سماجی رابطے سے استفادہ۔ کیا ان کی جسمانی صحت یر جذباتی مسائل سماجی سرگرمیوں مثلاً دوستوں، رشتے داروں سے ملنے جلنے اور پڑوسیوں یا گروپس سے انٹر ایکٹ کرنے میں رکاوٹ تو نہیں بنتے۔ (3)روز مرہ کے کام کاج کیا سماجی مسائل مثلاً ڈیپریشن یا طبیعت کے اضطراب اور بے چینی کی وجہ سے انھیں اپنی نارمل سرگرمیاں جاری رکھنے میں تو مشکل پیش نہیں آتی۔اپنے اعدادوشمارکو بنیاد بناکر محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میاں یا بیوی کو اس صدمے کی کیفیت سے نکلنے میں دو تین سال یا کچھ زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں جیسا کہ انھیں اندازہ ہوا کہ سب سے زیادہ مدد اس بات سے ملتی ہے کہ آپ سماجی طور پر رابطے SOCIALLY CONNECTED ہیں اور روز مرہ زندگی کی معمول کی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ مصروف رہیں اور آپ کو اچھی طرح پتا ہو کہ مدد کے لیے آپ کو کس سے رجوع کرنا ہے کون آپ کو کمفرٹ دے سکتا ہے اور مصیبت کے وقت کون آپ کے کام آسکتا ہے۔