بدگمانی اور خوش گمانی

لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم نے بہت سی پیشانیوں پر غور و فکر کی لکیریں ڈال دی تھیں۔


Abbas Athar December 13, 2012
لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم نے بہت سی پیشانیوں پر غور و فکر کی لکیریں ڈال دی تھیں۔

لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم نے بہت سی پیشانیوں پر غور و فکر کی لکیریں ڈال دی تھیں۔ اس غور و فکر میں حیرانی از خود شامل تھی۔

اب پشاور ہائیکورٹ کا یہ استفسار سامنے آ گیا ہے کہ فوج کو کس قانون کے تحت فاٹا میں آپریشن کی اجازت دی گئی۔ پشاور ہائیکورٹ نے تمام لاپتہ افراد کو 7 دن میں بازیاب کرنے کا حکم دیا (اس کالم کی اشاعت تک یہ مدت 6 روز کی رہ جائے گی) اور کہا کہ اس مہلت میں لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو ایجنسیوں کے ''حراستی مراکز'' بند کر دیے جائیں گے۔ عدلیہ نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد ان مراکز میں ہیں جو ایجنسیوں نے فاٹا وغیرہ میں قائم کر رکھے ہیں۔ لال مسجد کا مسئلہ زیادہ خطرناک ہے تو فاٹا آپریشن پر سوال اٹھانا بھی کم خطرناک نہیں۔ ایک فرق البتہ دونوں معاملات میں ہے وہ یہ کہ لال مسجد کا آپریشن سابقہ آمر پرویزمشرف نے کیا تھا وہ بیرون ملک ہیں اور اس آپریشن کے زیادہ تر ذمے دار بھی ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ فاٹا آپریشن موجودہ قیادت کر رہی ہے۔ فاٹا وفاق کے براہ راست کنٹرول میں ہے اور اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ صدر اور صوبے کے گورنر کی ماتحتی میں ہے۔

ان علاقوں میں فوجی آپریشن کس کی اجازت سے ہو سکتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں اس لیے کہ وفاق کے براہ راست کنٹرول میں ہونے کے ناطے یہاں آپریشن کی اجازت صدر یا گورنر کا اختیار بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ علاقہ چونکہ مملکت پاکستان کا حصہ ہے اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپریشن کی منظوری وفاقی کابینہ ہی کو دینی چاہیے۔ بہرحال، یہ قانونی مسئلہ ہے اور قانون کو باریکی سے سمجھنے والے ماہرین ہی کوئی صحیح رائے دے سکتے ہیں لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں آپریشن حکومت سے بالا بالا ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ ان آپریشنز کو حکومت کی تائید حاصل ہو گی لیکن یہ جس فیصلے کے تحت ہو رہے ہیں، وہ حکومت نے نہیں کیا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اب یہ چوتھا بڑا ایشو ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کے دو اہم اداروں میں ایک تضاد کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ تصادم کا لفظ ذرا سخت ہے، اس لیے اس کے استعمال سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔

پہلے تین معاملوں میں لاپتہ افراد کا، بلوچستان کی بدامنی کا کیس اور لال مسجد کا کیس شامل ہیں۔ ان میں سے اول الذکر دو کیس خاصے عرصے سے چل رہے ہیں اور ان میں سول حکومت کے ساتھ ساتھ حساس اداروں کے افسروں کی بھی عدالت میں پیشی ہو چکی ہے اور پاکستانی روایت کے برعکس ان افسروں کو پیشی کے دوران خاصے سخت ریمارکس بلکہ بعض اوقات ڈانٹ بھی سننی پڑی۔ یہ جمہوریت کے استحکام کی نشانی سمجھ لیجیے یا عدلیہ کی بڑھتی ہوئی طاقت، کہ وہ حضرات بھی پیشیاں بھگتتے نظر آئے جن کو بلانے کا پہلے کوئی عدالت تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ان چار معاملات سے الگ اسلم بیگ کیس بھی اہم ہے لیکن اسے میں نے اس لیے خطرناک معاملات میں شامل نہیں کیا کہ ایک تو وہ بہت پرانے ماجرے سے متعلق ہے، دوسرے یہ کہ اس کیس میں سے کچھ برآمد ہونے والا نہیں اور تیسرے یہ کہ اس کیس سے جو تلخی برآمد ہوئی تھی وہ عارضی دھول اڑا کر دب گئی یہ کیس ''تضاد'' کو ابھارنے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر سکتا۔کوئی چاہے تو تضاد کو اپنے رسک پر ''تصادم'' پڑھ سکتا ہے۔

پاکستان میں صحیح معنوں میں جمہوریت پہلی بار آئی ہے اُس میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو جمہوریتوں میںہمیشہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک تبدیلی جو بظاہر جمہوریت کے بہت زیادہ فائدے میں ہے۔ لیکن امکانی طور پر خطرناک بھی، وہ عدلیہ اور فوج کے درمیان پیدا ہونے والا یہی تضاد ہے۔

ماضی میں ''سول رول'' کے خلاف فوج اور عدلیہ ایک ہی صف میں ہوتے تھے۔ اب لوگ حیرت سے دیکھ رہے ہیں کہ ''فورسز'' عدلیہ کے فیصلوں پر سوال اٹھا رہی ہے۔ بین الاقوامی حالات کہیے یا اندرونی معاملات، فوج فوری طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ براہ راست اقتدار پر قبضہ کر سکے اور اس وجہ سے جہاں میڈیا میں فوج کے معاملات قدرے ''بے باکی'' سے زیر بحث آئے وہاں ''آزادعدلیہ'' کی جرات بھی بڑھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاپتہ افراد کے کیس میں عدالتی ریمارکس اور طلبیوں سے فوج میں ایک قسم کی پریشانی پائی گئی۔ لال مسجد کیس سے یہ خاص قسم کی پریشانی بڑھی۔ بے شک اس آپریشن کا ذمے دار پرویز مشرف تھا لیکن آپریشن میں شریک کچھ اور بڑے لوگ اب بھی سروس میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل کیانی نے لال مسجد آپریشن کی مخالفت کی تھی لیکن یہ بات اور کئی افراد کے بارے میں نہیں کی جا سکتی۔

اگر عدالتی آزادی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو لال مسجد کا معاملہ آگے بڑھے گا اور کئی ایسے افراد کی حاضری عدالت میں متوقع ہے جو اب تک لوگوں کو حاضر یا غائب کرتے رہنے پر قادر تھے لیکن خود حاضر ہونے کے قائل نہیں تھے اور اب بات لال مسجد سے بھی آگے بڑھ کر فاٹا آپریشن تک پہنچ چکی ہے۔ لال مسجد کی طرح فاٹا آپریشن کا تعلق بھی امریکا اور عالمی جنگ برائے انسداد دہشت گردی سے ہے۔ اس جنگ میں عام طور پر انسانی حقوق قابل اعتماد نہیں سمجھے جاتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فاٹا آپریشن پر رائے منقسم ہے۔ ایک طبقہ اسے ہماری جنگ سمجھ کر حمایت کرتا ہے، دوسرا اسے امریکی جنگ سمجھ کر اسکی مذمت کرتا ہے۔ عدالتی ریمارکس سے اس دوسرے طبقے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

یہ معاملہ جتنا حساس ہے اتنا ہی پیچیدہ اور تفصیل طلب بھی لیکن میرا ''کنسرن'' صرف اس کے ''کنسرن'' والے پہلو سے ہے اور ''کنسرن'' یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ تضاد بڑھتے بڑھتے کہیں ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ دو اداروں کے تصادم کاخدشہ پیدا ہو جائے۔ مزے کی بات اس ''کنسرن'' میں یہ ہے کہ تصادم ہوا تو یہ دونوں ادارے اپنی اپنی جگہ بچ جائیں گے لیکن جمہوریت کا کچومر نکل جائے گا۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ فوج بھی تھی اور عدلیہ بھی(چاہے پی سی او کا روپ بدل کر) لیکن جمہوریت نہیں تھی جس تصادم کا خطرہ نظر آ رہا ہے اس کے بعد بھی فوج اور عدلیہ دونوں رہیں گے۔ فوج جوں کی توں، عدلیہ روپ بدل کر اور جمہوریت کو لوگ ڈھونڈتے پھریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ محض ''بدگمانی'' ہو۔ قارئین کے لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ خوش گمانی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں