قتل تھا کہ مملکت پہ وار۔۔۔
’قائد ملت‘ کے بعد قوم کی نیّا بھنور میں پھنستی چلی گئی!
سیاست کی وادیِ پُرخار ہو، اور کوئی تنقید نہ ہو، ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ البتہ تاریخ ساز راہ نماؤں پر اس تنقید کا دائرہ کافی محدود ہوتا ہے۔ بانی پاکستان کے دست راست اور ملک کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے لیے بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے۔
ناقدین قرارداد مقاصد کو قائد اعظم کی فکر سے انحراف قرار دیتے ہیں، تاہم یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ لیاقت علی خان 4 اپریل 1948ء کو قائداعظم کی زندگی میں ہی دستور کی بنیاد قرآن اور شریعت پر کھنے کا اعلان کر چکے تھے۔
ملک کے پہلے عام انتخابات کے التوا پر تنقید کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ لیاقت علی خان کو داخلی اور خارجی محاذوں پر بہ یک وقت کئی مشکلات کا سامنا تھا، جن میں ناکافی وسائل، مہاجرین کی آبادکاری، کشمیر اور مختلف سرحدی تنازعات وغیرہ شامل ہیں۔ لیاقت علی نے اس ملک کے لیے عملاً اپنا سب کچھ وار دیا۔ 10 اگست 1949ء کو مظفر نگر (یوپی) میں ان کی زرعی اور شہری جائیداد بھی بھارتی حکومت نے ضبط کرلی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد عوام کی امیدوں کا محور لیاقت علی خان ہی تھے۔
عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے 1950ء میں انہوں نے امریکا کا دورہ کیا، اسی برس انہوں نے نئی دلی میں بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو سے مذاکرات کے بعد 'لیاقت نہرو معاہدہ' کیا، لیکن اس کے بعد بھی بھارت سے کشیدگی رہی، اسی دوران 27 جولائی 1951ء کو انہوں نے ایک عوامی اجتماع میں مُکا لہرایا، جو ایک تاریخی علامت بن گیا۔ 1951ء ہی وہ سال تھا، جب حکومت کے خلاف 'پنڈی سازش' کا انکشاف ہوا۔
قائد کی وفات کے تین برس بعد لیاقت علی خان کو بھی پراسرار طریقے سے منظر سے ہٹا دیا گیا۔ لیاقت علی کے قتل کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم بنایا گیا، جب کہ گورنرجنرل کی مسند پر بیوروکریٹ ملک غلام محمد براجمان ہوئے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے لیاقت علی کے قتل کی تفتیش انسپکٹر جنرل پولیس اعتزاز الدین کے سپرد کی۔
26 اگست 1952ء کو اعتزازالدین مقدمے کی تحقیقات کے لیے پاک فضائیہ کے طیارے میں پشاور جا رہے تھے کہ جہلم کے قریب ان کے طیارے کو حادثہ پیش آگیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔ اس کے ساتھ لیاقت علی خاں کے قتل کے مقدمے سے متعلق اہم کاغذات بھی ضایع ہوگئے۔ دوسری طرف لیاقت علی خاں کے قاتل سید اکبر کو جائے واردات پر سرکاری پستول سے ہلاک کرنے والے انسپکٹر محمد شاہ ضلع گجرات میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہوئے۔
انسپکٹر محمد شاہ کے قتل کی خبر میں سید اکبر پر گولی چلانے کا تناظر بیان کرنے پر مبینہ طور پر اعلیٰ سرکاری افسروں نے 'ڈان' کے مدیر الطاف حسین کو دھمکیاں دیں۔ یکم مارچ 1958ء کو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لیاقت علی کی فائل گم ہو گئی ہے، یوں ملک کے پہلے وزیراعظم کے قاتلوں کے نام صیغۂ راز میں ہی رہ گئے، ساتھ ہی ملک شدید عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔
خواجہ ناظم الدین کے بعد وزارت عظمیٰ محمد علی بوگرہ کو ملی۔ 12 اگست 1955ء کو ان کی جگہ چوہدری محمد علی کو لایا گیا۔ 13 ماہ بعد حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنایا گیا۔ ایک سال بعد1957ء میں ان کی جگہ آئی آئی چندریگر نے لی، دو ماہ بعد وہ بھی مستعفی ہو گئے، تو ملک فیروزخان نون نے وزارت عظمیٰ سنبھالی، ان کا عرصہ لگ بھگ دس ماہ بنتا ہے، جس کے بعد فوجی حکومت قائم ہوگئی۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بعد قومی منظرنامے پر جس تیزی سے بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے انتظامی امور کس خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے تھے اور ساتھ ہی وہ افسر شاہی کے عزائم میں کس قدر مضبوطی سے حائل تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد چند برسوں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، پوری ریاست پر اس کے دور رَس اور منفی اثرات پڑے اور شاید ان کا اثر آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لسانی اور مذہبی مسائل سے سیاسی عدم استحکام تک، محرومیوں اور استحصال سے آمرانہ طرزحکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بے جا مداخلت تک۔۔۔ تمام ہی مسائل کی جڑیں اسی عرصے میں گہری ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ذیل میں مختصراً ان واقعات کا احوال پیش کیا جاتا ہے۔
بنگلا زبان کی تحریک1952ء
یوں تو قیام پاکستان کے چھے ماہ بعد ہی مشرقی پاکستان میں بنگلا کو قومی زبان بنانے کا معاملہ اٹھ چکا تھا، لیکن قائداعظم کے دوٹوک موقف کے بعد یہ آواز پس منظر میں چلی گئی۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے فقط چار ماہ بعد مشرقی پاکستان میں ایک بار پھر بنگلا زبان کے حق میں پرزور مطالبہ سامنے آیا۔ 21 فروری 1952ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبا کے ایک مظاہرے پر سرکاری اہل کاروں نے گولی چلا دی، چار طلبا جان سے گئے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار لسانی تنازع لہو رنگ ہوگیا۔ ملک کے پہلے دونوں دساتیر میں اگرچہ اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی قومی زبان قرار دیا گیا، لیکن اس واقعے کے بعد ملک کے دونوں حصوں میں فاصلے پھیلتے ہی چلے گئے۔ 1999ء میں اس واقعے کی ہی یاد میں 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
لاہور کا مارشل لا1953ء
فروری 1953ء میں لاہور میں مذہبی فسادات پھوٹ پڑے، جس میں بے شمار جانیں تلف ہوئیں۔ حالات پر قابو پانے کے لیے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے چھے مارچ 1953ء کو لفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی سرکردی میں لاہور میں مارشل لا لگا دیا، جس کی مدت تین ماہ تھی۔ خراب حالات کو جواز بناتے ہوئے غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا اور امریکا میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا۔ تاریخی طور پر کارزار سیاست میں افسر شاہی کی مداخلت کے تناظر میں اس واقعے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جو لیاقت علی کے قتل کے ایک سال بعد پیش آیا اور مبینہ طور پر اسے خواجہ ناظم الدین کو برخاست کرنے کے لیے بپا کیا گیا۔
فوج کی حکومت میں شمولیت1954ء
کاروبار مملکت میں افسر شاہی کے کُل پرزوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے بعد فوج کو باقاعدہ انتظامی امور میں ملوث کرنے کا واقعہ پیش آیا اور 1954ء میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے پہلی بار فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع کی صورت میں کابینہ میں شامل کر لیا۔ جنرل ایوب خان 16 جنوری 1951ء کو پاک فوج کے دوسرے کمانڈر انچیف ڈوگلس گریسی (Douglas Gracey) کی سبک دوشی کے بعد کمانڈرانچیف بنے تھے۔
دستور ساز اسمبلی کی برخاستگی1954ء
دستور سازی کی تاریخ میں 24 اکتوبر 1954ء کو ایک سیاہ ترین دن کی حیثیت حاصل ہے، جب گورنرجنرل ملک غلام محمد نے آمرانہ اقدام کرتے ہوئے ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی تحلیل کر ڈالی۔ اس جمہوریت شکن فعل سے دستور سازی کی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، کیوں کہ اس اسمبلی میں تحریک پاکستان کے ارکان موجود تھے، جو زیادہ بہتر طریقے سے نئے ملک کا ایک بہتر دستور بنا سکتے تھے۔
ون یونٹ کا قیام 1955ء
'ون یونٹ' کے حوالے سے اہم امر یہ ہے کہ یہ تجویز سب سے پہلے لیاقت علی خان کی زندگی میں 2 مارچ 1949ء کو فیروز خان نون نے پیش کی تھی۔ جس کے تحت پورا ملک دو صوبوں پر مشتمل ہونا تھا، پہلا مغربی پاکستان، دوسرا مشرقی پاکستان۔ بہ ظاہر اسے 'برابری' کا اصول قرار دیا گیا، لیکن دراصل یہ مشرقی پاکستان کے حقوق پر ایک کاری وار تھا، کیوں کہ اس کی آبادی 60 فی صد سے زاید تھی۔ لیاقت علی خان کی زندگی میں اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا، لیکن لیاقت علی کے منظر سے ہٹائے جانے کے بعد 14 اکتوبر 1955ء کو اس پر عمل کردیا گیا، جو 1970ء تک قائم رہا۔ 'ون یونٹ' منصوبے کو بھی سقوط ڈھاکا ایک اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔
1956ء کا دستور اور پہلی فوجی حکومت
پہلی دستور ساز اسمبلی کے تحلیل کیے جانے کے بعد نئی دستور ساز اسمبلی نے 1956ء میں ملک کا پہلا دستور تیار کیا، جس کے بعد اسکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر کے عہدے پر منتقل ہوئے، لیکن یہ دستور بھی ملک کو سیاسی استحکام نہ دے سکا۔ نتیجتاً 7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کر دیا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی سرکردی میں مارشل لا نافذ کردیا۔ 20 دن بعد ایوب خان، اسکندر مرزا کو رخصت کر کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے، ان کا اقتدار گیارہ برس تک جاری رہا۔ ان کے بعد سیاسی اور فوجی حکومتوں کی آنکھ مچولی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اب تک مزید تین جرنیل زمام اقتدار سنبھال چکے ہیں۔
نئے دارالحکومت کا قیام1958ء
جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرتے ہی شاید یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کریں گے، تب ہی 1958ء میں مارشل لا کے فوراً بعد اس کا اعلان کردیا گیا، اس کام کی جلدی کا عالَم یہ تھا کہ عارضی طور پر حکومتی دفاتر راول پنڈی میں قائم کیے گئے اور ایک مسائل میں گھری بے دستور اور نوآموز مملکت پر ایک نئے شہر 'اسلام آباد' کی تعمیر کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ دارالحکومت کی منتقلی کو جہاں کراچی کے عوام نے ناپسند کیا، وہیں یہ فیصلہ مشرقی پاکستان میں بھی کافی بے چینی کا باعث بنا۔ انہیں ایسا لگا کہ ان کے صوبے کو نظرانداز کرکے اُن کا پیسہ یہاں کھپایا جا رہا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ بھی کہا گیا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے (بنگال کے) پٹ سن کی خوش بو آتی ہے!
ناقدین قرارداد مقاصد کو قائد اعظم کی فکر سے انحراف قرار دیتے ہیں، تاہم یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ لیاقت علی خان 4 اپریل 1948ء کو قائداعظم کی زندگی میں ہی دستور کی بنیاد قرآن اور شریعت پر کھنے کا اعلان کر چکے تھے۔
ملک کے پہلے عام انتخابات کے التوا پر تنقید کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ لیاقت علی خان کو داخلی اور خارجی محاذوں پر بہ یک وقت کئی مشکلات کا سامنا تھا، جن میں ناکافی وسائل، مہاجرین کی آبادکاری، کشمیر اور مختلف سرحدی تنازعات وغیرہ شامل ہیں۔ لیاقت علی نے اس ملک کے لیے عملاً اپنا سب کچھ وار دیا۔ 10 اگست 1949ء کو مظفر نگر (یوپی) میں ان کی زرعی اور شہری جائیداد بھی بھارتی حکومت نے ضبط کرلی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد عوام کی امیدوں کا محور لیاقت علی خان ہی تھے۔
عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے 1950ء میں انہوں نے امریکا کا دورہ کیا، اسی برس انہوں نے نئی دلی میں بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو سے مذاکرات کے بعد 'لیاقت نہرو معاہدہ' کیا، لیکن اس کے بعد بھی بھارت سے کشیدگی رہی، اسی دوران 27 جولائی 1951ء کو انہوں نے ایک عوامی اجتماع میں مُکا لہرایا، جو ایک تاریخی علامت بن گیا۔ 1951ء ہی وہ سال تھا، جب حکومت کے خلاف 'پنڈی سازش' کا انکشاف ہوا۔
قائد کی وفات کے تین برس بعد لیاقت علی خان کو بھی پراسرار طریقے سے منظر سے ہٹا دیا گیا۔ لیاقت علی کے قتل کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم بنایا گیا، جب کہ گورنرجنرل کی مسند پر بیوروکریٹ ملک غلام محمد براجمان ہوئے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے لیاقت علی کے قتل کی تفتیش انسپکٹر جنرل پولیس اعتزاز الدین کے سپرد کی۔
26 اگست 1952ء کو اعتزازالدین مقدمے کی تحقیقات کے لیے پاک فضائیہ کے طیارے میں پشاور جا رہے تھے کہ جہلم کے قریب ان کے طیارے کو حادثہ پیش آگیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔ اس کے ساتھ لیاقت علی خاں کے قتل کے مقدمے سے متعلق اہم کاغذات بھی ضایع ہوگئے۔ دوسری طرف لیاقت علی خاں کے قاتل سید اکبر کو جائے واردات پر سرکاری پستول سے ہلاک کرنے والے انسپکٹر محمد شاہ ضلع گجرات میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہوئے۔
انسپکٹر محمد شاہ کے قتل کی خبر میں سید اکبر پر گولی چلانے کا تناظر بیان کرنے پر مبینہ طور پر اعلیٰ سرکاری افسروں نے 'ڈان' کے مدیر الطاف حسین کو دھمکیاں دیں۔ یکم مارچ 1958ء کو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لیاقت علی کی فائل گم ہو گئی ہے، یوں ملک کے پہلے وزیراعظم کے قاتلوں کے نام صیغۂ راز میں ہی رہ گئے، ساتھ ہی ملک شدید عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔
خواجہ ناظم الدین کے بعد وزارت عظمیٰ محمد علی بوگرہ کو ملی۔ 12 اگست 1955ء کو ان کی جگہ چوہدری محمد علی کو لایا گیا۔ 13 ماہ بعد حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنایا گیا۔ ایک سال بعد1957ء میں ان کی جگہ آئی آئی چندریگر نے لی، دو ماہ بعد وہ بھی مستعفی ہو گئے، تو ملک فیروزخان نون نے وزارت عظمیٰ سنبھالی، ان کا عرصہ لگ بھگ دس ماہ بنتا ہے، جس کے بعد فوجی حکومت قائم ہوگئی۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بعد قومی منظرنامے پر جس تیزی سے بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے انتظامی امور کس خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے تھے اور ساتھ ہی وہ افسر شاہی کے عزائم میں کس قدر مضبوطی سے حائل تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد چند برسوں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، پوری ریاست پر اس کے دور رَس اور منفی اثرات پڑے اور شاید ان کا اثر آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لسانی اور مذہبی مسائل سے سیاسی عدم استحکام تک، محرومیوں اور استحصال سے آمرانہ طرزحکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بے جا مداخلت تک۔۔۔ تمام ہی مسائل کی جڑیں اسی عرصے میں گہری ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ذیل میں مختصراً ان واقعات کا احوال پیش کیا جاتا ہے۔
بنگلا زبان کی تحریک1952ء
یوں تو قیام پاکستان کے چھے ماہ بعد ہی مشرقی پاکستان میں بنگلا کو قومی زبان بنانے کا معاملہ اٹھ چکا تھا، لیکن قائداعظم کے دوٹوک موقف کے بعد یہ آواز پس منظر میں چلی گئی۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے فقط چار ماہ بعد مشرقی پاکستان میں ایک بار پھر بنگلا زبان کے حق میں پرزور مطالبہ سامنے آیا۔ 21 فروری 1952ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبا کے ایک مظاہرے پر سرکاری اہل کاروں نے گولی چلا دی، چار طلبا جان سے گئے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار لسانی تنازع لہو رنگ ہوگیا۔ ملک کے پہلے دونوں دساتیر میں اگرچہ اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی قومی زبان قرار دیا گیا، لیکن اس واقعے کے بعد ملک کے دونوں حصوں میں فاصلے پھیلتے ہی چلے گئے۔ 1999ء میں اس واقعے کی ہی یاد میں 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
لاہور کا مارشل لا1953ء
فروری 1953ء میں لاہور میں مذہبی فسادات پھوٹ پڑے، جس میں بے شمار جانیں تلف ہوئیں۔ حالات پر قابو پانے کے لیے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے چھے مارچ 1953ء کو لفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی سرکردی میں لاہور میں مارشل لا لگا دیا، جس کی مدت تین ماہ تھی۔ خراب حالات کو جواز بناتے ہوئے غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا اور امریکا میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم بنایا گیا۔ تاریخی طور پر کارزار سیاست میں افسر شاہی کی مداخلت کے تناظر میں اس واقعے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جو لیاقت علی کے قتل کے ایک سال بعد پیش آیا اور مبینہ طور پر اسے خواجہ ناظم الدین کو برخاست کرنے کے لیے بپا کیا گیا۔
فوج کی حکومت میں شمولیت1954ء
کاروبار مملکت میں افسر شاہی کے کُل پرزوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے بعد فوج کو باقاعدہ انتظامی امور میں ملوث کرنے کا واقعہ پیش آیا اور 1954ء میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے پہلی بار فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع کی صورت میں کابینہ میں شامل کر لیا۔ جنرل ایوب خان 16 جنوری 1951ء کو پاک فوج کے دوسرے کمانڈر انچیف ڈوگلس گریسی (Douglas Gracey) کی سبک دوشی کے بعد کمانڈرانچیف بنے تھے۔
دستور ساز اسمبلی کی برخاستگی1954ء
دستور سازی کی تاریخ میں 24 اکتوبر 1954ء کو ایک سیاہ ترین دن کی حیثیت حاصل ہے، جب گورنرجنرل ملک غلام محمد نے آمرانہ اقدام کرتے ہوئے ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی تحلیل کر ڈالی۔ اس جمہوریت شکن فعل سے دستور سازی کی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، کیوں کہ اس اسمبلی میں تحریک پاکستان کے ارکان موجود تھے، جو زیادہ بہتر طریقے سے نئے ملک کا ایک بہتر دستور بنا سکتے تھے۔
ون یونٹ کا قیام 1955ء
'ون یونٹ' کے حوالے سے اہم امر یہ ہے کہ یہ تجویز سب سے پہلے لیاقت علی خان کی زندگی میں 2 مارچ 1949ء کو فیروز خان نون نے پیش کی تھی۔ جس کے تحت پورا ملک دو صوبوں پر مشتمل ہونا تھا، پہلا مغربی پاکستان، دوسرا مشرقی پاکستان۔ بہ ظاہر اسے 'برابری' کا اصول قرار دیا گیا، لیکن دراصل یہ مشرقی پاکستان کے حقوق پر ایک کاری وار تھا، کیوں کہ اس کی آبادی 60 فی صد سے زاید تھی۔ لیاقت علی خان کی زندگی میں اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا، لیکن لیاقت علی کے منظر سے ہٹائے جانے کے بعد 14 اکتوبر 1955ء کو اس پر عمل کردیا گیا، جو 1970ء تک قائم رہا۔ 'ون یونٹ' منصوبے کو بھی سقوط ڈھاکا ایک اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔
1956ء کا دستور اور پہلی فوجی حکومت
پہلی دستور ساز اسمبلی کے تحلیل کیے جانے کے بعد نئی دستور ساز اسمبلی نے 1956ء میں ملک کا پہلا دستور تیار کیا، جس کے بعد اسکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر کے عہدے پر منتقل ہوئے، لیکن یہ دستور بھی ملک کو سیاسی استحکام نہ دے سکا۔ نتیجتاً 7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کر دیا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی سرکردی میں مارشل لا نافذ کردیا۔ 20 دن بعد ایوب خان، اسکندر مرزا کو رخصت کر کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے، ان کا اقتدار گیارہ برس تک جاری رہا۔ ان کے بعد سیاسی اور فوجی حکومتوں کی آنکھ مچولی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اب تک مزید تین جرنیل زمام اقتدار سنبھال چکے ہیں۔
نئے دارالحکومت کا قیام1958ء
جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرتے ہی شاید یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کریں گے، تب ہی 1958ء میں مارشل لا کے فوراً بعد اس کا اعلان کردیا گیا، اس کام کی جلدی کا عالَم یہ تھا کہ عارضی طور پر حکومتی دفاتر راول پنڈی میں قائم کیے گئے اور ایک مسائل میں گھری بے دستور اور نوآموز مملکت پر ایک نئے شہر 'اسلام آباد' کی تعمیر کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ دارالحکومت کی منتقلی کو جہاں کراچی کے عوام نے ناپسند کیا، وہیں یہ فیصلہ مشرقی پاکستان میں بھی کافی بے چینی کا باعث بنا۔ انہیں ایسا لگا کہ ان کے صوبے کو نظرانداز کرکے اُن کا پیسہ یہاں کھپایا جا رہا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ بھی کہا گیا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے (بنگال کے) پٹ سن کی خوش بو آتی ہے!