خواتین کے حقوق کے لیے مسودۂ قانون منظور
پاکستان کی تاریخ میں چند ہی سنہری دن ہیں جن پر ہم بحیثیت قوم فخر کر سکتے ہیں
www.facebook.com/shah Naqvi
پاکستان کی تاریخ میں چند ہی سنہری دن ہیں جن پر ہم بحیثیت قوم فخر کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک دن 6 اکتوبر 2016ء ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ یہ وہ دن ہے جب سینیٹ اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خواتین کے تحفظ کے دو بل متفقہ طور پر منظور کیے گئے جن کے ذریعے ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ خواتین حقوق کے تحفظ کے لیے کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہی تھیں۔
اس راہ میں بڑے سخت مقام بھی آئے لیکن جدوجہد کرنے والوں نے ہمت نہ ہاری۔ آخرکار یہ بل پاکستان کے قیام کے تقریبا ستر سال بعد منظور ہو گئے، ان کی منظوری کا سہرا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے سینیٹرز اور اراکین اسمبلی کے سر ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں بل پیپلزپارٹی کے قانون سازوں نے تیار کیے اور انھیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس سلسلے میں دو نام قابل ذکر ہیں جس میں پہلا نام سابق سینیٹر صغریٰ امام کا ہے، اس کے بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر ہیں جنہوں نے اس کا چھوڑا ہوا کام پایہ تکمیل کو پہنچایا۔
یہ دو بل جو منظور کیے گئے ہیں ان کے نام خواتین کے ساتھ زیادتی اور غیرت کے بل ہیں۔ یہ بل کیا ہیں، ضروری ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے کیونکہ پاکستان کی بیشتر آبادی ناخواندہ اور نیم خواندہ افراد پر مشتمل ہے۔
اس بل کی منظوری کے بعد غیرت کے نام پر قتل اور ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے ان دونوں جرائم کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا ہے جب کہ غیرت کے نام پر قتل کرنیوالے کو معافی کی صورت میں بھی عمر قید کی سزا ہو گی۔ زیادتی کیس میں متاثرہ شخص اور ملزم دونوں کا ٹیسٹ لازمی ہو گا۔
اس بل میں انتہائی قابل تعریف بات یہ ہے کہ بچوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہو گی نیز عمر قید کی سزا کم نہیں کی جا سکے گی اور اس کے ساتھ ہی تھانے کی حدود میں کسی خاتون کے ریپ پر دوہری سزا دی جائے گی جب کہ ریپ کے متعلق کیس کا فیصلہ 90 روز میں سنایا جائے گا۔ اس بل میں بھی غیرت کے نام پر قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے۔ صلح نامہ بھی ہو سکے گا تاہم قصاص کے حق کے باوجود عمر قید کی سزا ہو گی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں اب پہلے کی طرح صلح نہیں ہو سکے گی۔
ریپ کی روک تھام کا قانون متاثرہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے ہو گا اور ریپ کے مقدمے میں درست تفتیش نہ کرنے والے پولیس اہلکار یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو 3 برس قید کی سزا ہو گی۔ بچوں اور ذہنی وجسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کی سزا موت ہو گی جب کہ جیل میں کسی عورت کے ساتھ ہونے والے ریپ کے مجرم کو بھی پھانسی اور جسمانی تشدد پر عمر قید کی سزا ہو گی۔ اس بل کے تحت زیادتی سے متاثرہ افراد کا طبی معائنہ لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
پولیس متاثرہ فرد کو قانونی حق اور تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔ متاثرہ فرد اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ ہو گا۔ پارلیمنٹ نے یہ دونوں بل پاس کر کے موجودہ قانون کی اس خامی کو دور کر دیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو اس کے رشتے دار معاف کر دیا کرتے تھے۔ اب اسے کم ازکم 25 سال جیل میں گزارنا پڑیں گے۔ اسی طرح ڈی این اے کے استعمال سے کوئی شخص چاہے سات پردوں کے پیچھے ہو، سزا سے نہیں بچ سکتا۔
ہزاروں سال پہلے جب تہذیب کی ابتداء ہوئی تو دنیا میں مادرسری نظام قائم ہوا جس میں گھر اور قبیلے کی سربراہ عورت ہوتی تھی۔ جیسے جیسے انسان کو وسائل پیداوار کا استعمال آتا گیا، گھر قبیلے اور معاشرے پر مرد کی بالادستی قائم ہوتی گئی۔ اسی بالادستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کی حثیت رفتہ رفتہ جانور کی سطح سے بھی نیچے گر گئی۔ یہاں تک کہ عورت قابل فروخت جنس بن گئی جس کے کوئی حقوق نہ تھے۔ مردوں کے ایک طاقتور گروہ نے جنھیں وسائل پیداوار پر تصرف حاصل ہوا، انسانی معاشرے کے تمام مردوں کو اپنا غلام بنا لیا۔
اس سوچ کا ردعمل یہ ہوا کہ غلام مرد نے گھر میں بیٹھی عورت کو غلام بنا لیا۔ اس طرح عورت دوہری غلامی کا شکار ہو گئی۔ ہزاروں سال قدیم اس سوچ نے پختہ تر ہوتے ہوئے ذہنوں میں اس طرح جگہ بنا لی کہ اس کو مذہبی سوچ کا حصہ بنا لیا گیا۔ دین اسلام نے اس سوچ میں تبدیلی پیدا کی۔ عورتوں اور غلاموں کو انسان سمجھتے ہوئے ان کے حقوق پر زور دیا گیا۔ اسلام کے آغاز پر جب انسانی معاشرے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، عورتوں اور غلاموں کو انسان سمجھنا اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنا ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی تھی۔
سوال یہ ہے کہ ہم اٹھتے بیٹھتے عورتوں کے حقوق کی چرچا تو کرتے ہیں لیکن ان حقوق کو دلوانا کس کی ذمے داری ہے۔ یقیناً اس کی سب سے بڑی ذمے داری تو ریاست اور عوام کے منتخب نمایندوں کی بنتی ہے۔ خواتین کو گھر کی چاردیواری میں ہولناک ظلم وتشدد کا نشانہ بناتے ہوئے زندہ جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، تیزاب ڈال کر زندگی بھر کے لیے اچھوت بنا دیا جاتا ہے۔ گھر اور گھر سے باہر ان سے زیادتی ہوتی ہے، قتل کر دی جاتی ہیں، اغوا ہوتی ہیں ، فروخت کر دی جاتی ہیں۔ چند دن پیشتر ٹی وی پر کسی عالم دین کی گفتگو سن رہا تھا۔
فرما رہے تھے کہ ہم لڑکیوں کو باہر جانے سے اس لیے نہیں روکتے کہ ہمیں ان کے کردار پر کوئی شک ہے۔ ہم صرف اس لیے روکتے ہیں کہ باہر معاشرہ اس قابل نہیں۔ تو حضور معاشرے کو اس قابل کون بنائے گا کہ کوئی لڑکی یا عورت بلاخوف وخطر گھر سے باہر جا سکے۔ معاشرہ اس لیے نہیں بدلتا کہ ہم اپنی سوچ بدلنے کو تیار نہیں۔ ہمارے نزدیک اس کا آسان حل یہی ہے کہ عورت گھر میں ہی رہیکہ ان کے مطابق عورت کا تحفظ اسی صورت میں ہی ممکن ہے۔
ضروری ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں عوام کو باخبر کرنے کے لیے اس بل کی بڑے پیمانے پر تشہیر کریں تاکہ اس بل پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو سکے۔ اخبارات میں افسوس ناک خبر شایع ہوئی ہے کہ رحیم یار خان میں 9 افراد نے 7 سال کی کمسن بچی سے زیادتی کی۔ بچی اسپتال میں دم توڑ گئی۔ حکومت سے التماس ہے کہ اس سانحہ کا فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے مظلوم خاندان کی مدد کی جائے اور واقعے کی انصاف کے اصولوں کے مطابق انکوائری کرائی جائے تاکہ ملزموں کو ان کے کیے کی سزا مل سکے۔
18 اکتوبر سے 22 اکتوبر کے درمیان ''موسم'' میں تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997۔