جنگ کی تیاری

شکم زرخیزی کی اصل پریشانی جنگ کے اندر چھپے ہوئے چند خدشات کے بارے میں تھی

raomanzarhayat@gmail.com

شکم زرخیزی صاحب کو جب یہ معلوم ہوا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے تو اَزحد پریشان ہو گیا۔ پریشانی اس درجہ زیادہ تھی کہ دیکھی نہ جاتی تھی۔ لہذا سب سب اہل محلہ انھیں دیکھ دیکھ باہم پوچھتے تھے کہ اللہ خیر کریگا، آپ اس حد غمگین کیوں ہیں۔ فکر نہ کریں۔ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو خیر سے دونوں ملکوں میں ایک بھی شخص زندہ نہیں رہ پائیگا۔ لہذا بے غم ہو جائیں۔

شکم زرخیزی کی اصل پریشانی جنگ کے اندر چھپے ہوئے چند خدشات کے بارے میں تھی۔ ان کے قریبی دوست دائم کریلوی نے انھیں اطلاع دی تھی کہ جنگ کی صورت میں یہ المیہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہاری، ہریسہ اور سری پائے پکانے والی دکانیں بند ہو جائیں۔ دائم کریلوی نے بات جنگ کے تجربہ کی بنیاد پر کی تھی۔ تجربہ اس درجہ لامحدود تھا کہ محلے میں خواتین کی لڑائیوں کے علاوہ کوئی جنگ نہ دیکھی تھی۔ خبر تو زرخیزی کے لیے قیامت سے بھی بڑھ کر تھی۔ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے شہر میں ایک ایسا دن آئیگا جس روز مرغن کھانے کی ساری دکانیں بند ہو جائینگی۔

زرخیزی کے لیے یہ قیامت کا وقفہ تھا۔ اس دورانیہ میں اگر جنگ ہو گئی تو پھر کیا ہو گا۔ اس نے صحیح پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ نائی کو ایک طرف لے گئے پھر دوسری طرف لے گئے۔ دونوں طرف اندھیرا تھا۔ چند ہزار روپے جلد کام کرنے کے لیے رشوت یا اسپیڈمنی دی اور دیگیں فوری تیار کرنے کی استدعا کی۔ نائی بھی کائیاں تھا۔ اس نے توتین چار دن پہلے ایک شادی کی تقریب سے چند دیگیں بچا کر رکھی ہوئی تھیں۔ ہمارے ملک میں ہر طرف صرف ایمانداری ہی ایمانداری ہے۔ لہذا نائی نے انتہائی ایمانداری سے باسی کھانے کی دیگیں رکشہ پر رکھ کر شکم زرخیزی کے گھر بھجوا دیں۔ یہ تمام کھانا فوری طور پر نئے فریزروں میں منتقل کر دیا گیا۔ ممکنہ جنگ کے مقابلے کے لیے یہ شکم زرخیزی کی پہلی تیاری تھی۔

مگربھرپورتیاری باقی تھی۔اصل میں زرخیزی صاحب انتہائی ذہین انسان تھا۔اسے اپنے ملک کانظام سمجھ آ چکا تھا۔ سارا دن دائم کریلوی کوایمان داری پرنصیحتیں کرتارہتاتھا مگر جہاں موقع ملتاتھا،کسی طرح کاہاتھ مارنے سے قطعاًنہیں چوکتا تھا۔ دائم اس کی حرکتوں سے بہت محظوظ ہوتاتھاکیونکہ اسے علم تھاکہ زرخیزی بے ایمانی کے بازارمیں بھی مکمل طور پر بے ایمان ہے۔دوسرامرحلہ تھاکہ ذاتی قرضوں کے متعلق کیا لائحہ عمل اختیارکیاجائے۔زرخیزی صاحب نے فوراً اپنے قریبی دوستوں کوبلایا۔انکوگرم پانی پلا کر پوچھاکہ جنگ کافی نزدیک ہے لہٰذاپیسوں کے لین دین کوکیسے مکمل کیا جائے۔

دوستوں میں صرف دو دوست قریبی تھے باقی سارے کافی دوررہتے تھے۔دائم کریلوی اور محلہ کے نائی پر یہ طویل فہرست ختم ہوجاتی تھی۔خیر موضوع تھا کہ پیسے کے لین دین اور قرضوں کے متعلق کیالائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ نائی نے سب سے پہلے کہاکہ وہ اس مجلس کا سب سے زیادہ سنجیدہ انسان ہے لہٰذااس کی بات سنی جائے اور پھر مانی جائے۔ اس کے مطابق ہم سب سوفیصدپاکستانی ہیں لہٰذا قرضوں کودوحصوں میں تقسیم کیاجائے۔ایک اہم ترین حصہ جس میں لوگوں سے رقم وصول کرنی ہے اوردوسراحصہ جس میں لوگوں کے پیسے دینے ہیں۔اس کے مطابق روایتی طور پر پاکستان کی ساٹھ برس سے قائم ودائم حکومتوں نے کبھی بھی قرضے واپس نہیں کیے لہٰذاحکومتی پالیسی کے عین مطابق شکم کو کسی سے لیے گئے قرضے واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔ اتنی مناسب بات سنکرزرخیزی دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔ بتایاکہ اس نے اپنے محب الوطن پاکستانی ہونے کامکمل ثبوت دیدیاہے۔

اس نے ہمیشہ لوگوں سے پیسے لے کرآج تک واپس نہیں کیے۔دائم کریلوی کے مطابق گفتگو کا دوسرا حصہ بھی اہم تھا۔جب کھاتوں پرنظرڈالی تو معلوم ہواکہ گزشتہ چالیس برس میں شکم زرخیزی نے کبھی کسی حقدار شخص کو پائی تک نہیں دی۔اس ہنگامی بنیادوں پربلائی گئی نشست کااختتام اس اہم فیصلے پرہواکہ وصول کیے گئے قرض اوررقومات نہیں لوٹانی چاہیے کیونکہ ملک حالت جنگ میں ہے لیکن ابھی کئی اہم ترین فیصلے باقی تھے۔شکم زرخیزی کو یاد آیاکہ مقامی تھانیداراورمحلہ کے عظیم بے باک سیاستدان کے ساتھ ملکر اس نے دس مرلہ کے دوپلاٹوں پرقبضہ کرنا تھا۔ یہ کام تاخیر کا شکارصرف اس لیے ہوگیاکہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ پلاٹ پرقبضہ کے بعدپیسوں کی تقسیم کس طرح کرنی ہے۔

تھانیدار کہتا تھاکہ اس کے سینئرافسرکے خاندان نے گرمی کی چھٹیاں گزارنے کے لیے امریکا جاناہے لہذا پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔انتہائی سینئراورباریش افسرکاحکم ٹالا نہیں جاسکتا تھا۔بزنس کلاس کے پانچ ٹکٹ اورنیویارک میں اچھے ہوٹل کے دومہینے کے اخراجات پورے کرناملکی مفاد کاحصہ تھا۔ لہٰذا تھانیدار مُصر تھا کہ قبضہ شدہ پلاٹ سے ملنے والے پیسوں کااصل حقدارصرف اورصرف وہ ہے مگر محلہ کے نڈرسیاستدان کے خیالات بالکل مختلف تھے۔ انتہائی عاجزی سے کہتا تھا کہ پتہ نہیں الیکشن کب ہو جائیں لہٰذا اسے پارٹی فنڈ میں خطیررقم جمع کروانی ہے۔تمام پیسے پارٹی کے لیڈر مرضی سے اپنے خاندان پرخرچیں گے مگر اسکو قومی مفاد کا نام دیا جائیگا۔بے باک سیاستدان کے مطابق اگر پارٹی فنڈ میں پیسے جمع نہ کروائے تواسے الیکشن کے ٹکٹ کے بجائے بس کاٹکٹ دیدیاجائیگا۔یہ دراصل اس کے مستقبل کا سوال ہے۔


لہٰذارقم کاحقدارصرف وہ ہے۔شکم زرخیزی کا خیال تھاکہ کیونکہ جنگ ہونے والی ہے اوریہ ملک کے لیے ایک نازک لمحہ ہے لہٰذا انھیں آپس میں الجھنا نہیں چاہیے۔ تھانیدار اور بے باک سیاستدان کوصرف ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ اگران کے پاس اپنے ناخن نہ ہوں توبازارسے پلاسٹک کے ناخن خرید کر گزارا کرنا چاہیے۔ اس نازک صورتحال کاصرف ایک حل ہے کہ پلاٹوں پرفو ری قبضہ کیا جائے اورتمام رقم اس کے حوالے کردی جائے کیونکہ غذائی قلت کی صورت میں یہ رقم کھانے پینے کے کام آئیگی۔شکم کہتا تھا کہ یہ بھی قومی مفادہے کہ انسان صرف اپنے مفادکاخیال رکھے۔

اہم ترین مجلس جوکہ محلہ کی نکڑپرایک چائے کے کھوکھے کے باہر ہورہی تھی، میں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ تھانیدار کاخیال تھاکہ کیونکہ صرف دس بارہ سال سے تمام اہم لوگوں نے چائے اور بسکٹ کے واجبات ادا نہیں کیے لہذا کھوکھے کامالک چائے میں کوئی ایساعنصرضرورملاتاہے جس سے لوگوں میں لڑائی جھگڑے کے رجحانات بڑھ جاتے ہیں۔ دکاندارکی بار بار چھترول کے باوجودہراہم میٹنگ کا نتیجہ ہمیشہ صفرہی نکلا۔ کھوکھے کامالک تواب اتنا سمجھدار ہو چکا تھا کہ ہرمہینے کی پہلی تاریخ کوچائے کابل وصول کرنے کے بجائے خودبخود تھانے حاضرہوجاتاتھا۔کونے میں گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا اور بیس چھترکھانے کے بعدانتہائی باعزت طریقے سے واپس کھوکھے پراطمینان سے بیٹھ جاتا ہے۔

اپنی عزت کی پاسداری کااتناخیال تھاکہ اپنے کھوکھے کا نام ہی بے عزت ٹی اسٹال رکھ ڈالاتھا۔ اپنے تعلقات پر انتہائی تفاخر سے کام لیتا تھا۔اس نے ملک کاعظیم شہری ہونے کا بھرپور ثبوت دیا ہوا تھا۔چائے کی لیے کبھی بھی اصل دودھ نہیں خریدتاتھا۔بلکہ ایک ڈیری فارم سے جعلی دودھ لے کر آتا تھا۔ کیمیکل ملایہ سفیدرنگ کاملغوبہ چائے میں دودھ کاکام کرتا تھا۔پتی بھی نہیں بدلتاتھا۔بلکہ دو چمچ پتی سے سیکڑوں کپ چائے کے تیارکردیتاتھا۔اس کی دکان کے باہر لکھا ہوا تھا کہ ایمانداری اس کے پیشہ کابنیادی اصول ہے مگروہ اپنی ذاتی روش کوخودہی ایمانداری کانام دے دیتاتھا۔

شکم زرخیزی کوچین نہیں آرہاتھا۔دن میں جاگتے جاگتے گھنٹوں کے لیے سو جاتا تھا اور رات کو سوتے سوتے گھنٹوں کے لیے دوبارہ سوجاتاتھا۔ڈیپ فریزرمیں ھریسہ، حلیم اور سری پائے لبالب بھردیے تھے مگراسے گمان تھا کہ ابھی اس کی تیاری مکمل نہیں ہوئی۔اس نے اپنے بچوں کو بلایا۔ درمیانی صوفے پرلیٹ کرنصیحت کی کہ جنگ ہونے والی ہے اور اس نے تمام تیاری تقریباًمکمل کرلی ہے۔

اب وقت ہے کہ اپنے تمام تجربات انتہائی دیانتداری سے اولاد کو منتقل کر دے۔ پہلی نصیحت یہ تھی کہ کیونکہ ملکی حالات گزشتہ ساٹھ سال سے دگرگوں ہیں لہٰذاانکی قطعاًفکرنہیں کرنی چاہیے بلکہ صرف اور صرف اپنی ذاتی دولت اور منفعت کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ دوسری نصیحت تھی کہ اگر کوئی مسئلہ پڑ جائے یاکوئی ایشو ہو، تو ہمیشہ طاقتور فریق کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ کمزور فریق کواپنے آپ سے تین یاپانچ کلو میٹر دور رکھنا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ طاقتور فریق بیوقوفی سے ہارجائے توسب سے پہلے کمزور انسان کے گھرمٹھائی کاڈبہ بلکہ کئی ڈبے پہنچانے چاہیے اور ضرور بتاناچاہیے کہ ضعف کے باوجود صرف اور صرف آپکی کوششوں اوردعاؤں کی بدولت جیتا ہے۔

تیسری نصیحت تھی کہ الیکشن ہمیشہ حکومتی جماعت سے منسلک ہو کر لڑنا چاہیے۔ اگر کسی وجہ سے حکومتی پارٹی ہار جائے توایک لمحہ ضایع کیے بغیرنئی حکومتی پارٹی میں فوراًشامل ہونا چاہیے اوراس کے حق میں پورے محلہ میں بینرسجادینے چاہیں۔ چوتھی نصیحت یہ کہ اپنی کہی ہوئی بات پرکبھی عمل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہی ہماراقومی وتیرہ ہے۔ یہ کسی بھی طریقے سے غلط نہیں کیونکہ اوپرسے نیچے تک سب یہی کچھ کر رہے ہیں۔

نصیحتیں جاری تھی کہ شکم زرخیزی کے کھانے کاوقت ہو گیا۔ اس نے گرم حلیم کی پلیٹ سامنے رکھی اوراہلیہ سے گلہ کیا کہ آج نان قطعاًگرم نہیں ہیں۔بھلاحالتِ جنگ اور نازک حالات میں ٹھنڈے نان کیسے اورکیونکرکھائے جاسکتے ہیں۔ یہ توملکی مفادکے عین خلاف ہے!
Load Next Story