اشرافی سیاست کی تیاریاں
الیکشن میں اب ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے
الیکشن میں اب ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ تحریک انصاف کی تحریکوں سے یہ گمان ہو رہا تھا کہ شاید الیکشن وقت سے پہلے ہو جائیں، لیکن اب اندازہ نہیں یقین ہو رہا ہے کہ الیکشن وقت سے پہلے نہیں اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔
الیکشن کمیشن 2018ء کے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنی صفیں درست کر رہی ہیں، جو جماعتیں دولت اور اختیارات کے ذریعے الیکشن جیتتی رہتی ہیں وہ انتظامیہ میں اپنے بڑے بٹھا رہی ہیں اور انتخابی فنڈز کی ایلوکیشن ہو رہی ہے، الیکشن پر سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کار تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں، انتخابی گھوڑوں کی طاقت اور پھرتی کا اندازہ کر رہے ہیں، تا کہ غلط گھوڑے پر سرمایہ کاری کر کے نقصان نہ اٹھائیں۔ یہ کھیل پاکستان میں 69 برس سے تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے، جس کا عوام کو آج تک کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔
وہ 69 سال پہلے جن مسائل کا شکار تھے ان میں کمی تو نہیں آئی البتہ اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں خصوصاً پاکستان میں عوام کے حقیقی نمایندے نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکے ہیں نہ اقتدار میں آ سکے ہیں۔ وہی گنے چنے خاندان ہیں جو چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آتے ہیں اور اربوں کی لوٹ مار کر کے چلے جاتے ہیں۔ بے چارے عوام اس سارے ڈرامے میں صرف اپنے طبقاتی دشمنوں کو ووٹ دینے کے پابند ہیں اور یہ کام پابندی سے کر رہے ہیں۔
عمران خان پانامہ لیکس کو لے کر بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں کر رہے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ عمران خان 2014ء کی سائیکی سے باہر نہیں نکل سکے۔ 2014ء میں کسی اور حوالے سے ''گو نواز گو'' کے پیچھے بھاگتے رہے، اب 2016ء میں پانامہ لیکس کے حوالے سے ''گو نواز گو'' کی تکرار کر رہے ہیں اور دوسری جمہوریت پسند جماعتیں تو گو نواز گو تک آنے کے لیے اور سرکار دربار کی چوکھٹ سے الگ ہونے کے لیے تیار نہیں، کیوں کہ ان کے منہ موتیوں سے بھر کر ان کی زبان بندی کی جا رہی ہے، اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے بعد وہ ''آمریت سے لولی لنگڑی جمہوریت ہوتی ہے'' کی تان پر آ کر رک جاتے ہیں اور حکومت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو پکے راگ میں جمہوریت جمہوریت گانے لگ جاتے ہیں۔
ہر سیاسی پارٹی بھاری اجرت پر تھنک ٹینک اور تھنکر خریدتی ہے اور چٹ پٹا مصالحہ دار ایسا منشور بنواتی ہیں کہ عوام کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ ملک کے اہم مسائل ان بزرگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، فروعی مسائل کو نمک مرچ لگا کر عوام کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔
یوں جمہوریت کا یہ کھیل کامیابی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ دو مسئلوں کو انتخاب جیتنے کے لیے استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے، ایک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، دوسرے اقتصادی راہداری۔ چونکہ آنے والے الیکشن تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، لہٰذا امید ہے کہ 2018ء تک مکمل نہ سہی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا جائے گا، اگر ایسا ہوا تو برسر اقتدار پارٹی بڑے زور و شور سے اس مسئلے کو انتخابات کی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بنائے گی۔
لیکن اس حوالے سے اصل سوال یہ ہے کہ 1988ء سے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی باری باری سے حکومت کرتی رہی ہیں پھر 28 سال سے ان جماعتوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اس غفلت کی ذمے داری کس پر عائد ہو گی؟ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کہتی ہے کہ یہ مسئلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے، چنانچہ یہ مسئلہ برسر اقتدار آنے والی جماعتوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ اگر 2018ء تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہو گی تو یہ کارنامہ نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہی کہلائے گی، کیوںکہ اس مسئلے کو عشروں پہلے ہی حل ہو جانا چاہیے تھا۔
اشرافیائی جمہوریت میں انتخابی اتحاد بنتے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں بھی انتخابی اتحاد بنیںگے لیکن افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ یہ اتحاد عوامی مسائل حل کرنے پر نہیں بنتے بلکہ سیٹوں کی بندر بانٹ پر بنتے ہیں۔ اس بندر بانٹ میں امیدواروں کی نامزدگی میرٹ پر نہیں بلکہ سرمایہ کاری اور تابعداری پر کی جاتی ہے۔ اس قسم کے اتحاد عملاً حکمران طبقے کی مدد میں کام آتے ہیں، جسے عرفِ عام میں فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا ہے، پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ مدت حکومت مسلم لیگ (ن) کی فرینڈلی اپوزیشن کی کرامت تھی۔
اب تک مشترکہ مفادات رکھنے والی پارٹیوں کے درمیان ہی انتخابی دنگل منعقد ہوا کرتا تھا لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ 2018ء کے الیکشن کی صورت حال کچھ مختلف ہو گی، کیونکہ تحریک انصاف باری باری عیاری میں گلے کی ہڈی بن سکتے ہیں۔
2013ء میں بھی عمران نے کسی حد تک باری باری والوں کے لیے مشکلات پیدا کیے، لیکن 2013ء میں عمران خان میں بہرحال وہ میچوریٹی نہیں تھی، جو اب دیکھی جا رہی ہے لیکن عمران خان کی قسمت یہ ہے کہ انھیں وہ صلاح کار حاصل ہیں، جو پورے انتخابی نظام اور حکمران جماعت کی ''طاقت'' کے تناظر میں ایسی گائیڈ لائن فراہم کرے، جو عوام کے لیے ترغیب ثابت ہو۔ عمران خان جس ''نئے پاکستان'' کے مبہم نعرے کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں۔ یہ نعرہ عوام کو راغب نہیں کر پا رہا ہے، عمران کے پولیٹیکل ایڈوائزروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ نئے پاکستان کی ایسی تشریح و وضاحت پیش کریں جو عوام کو متاثر کر سکے۔
نئے پاکستان کی بات سننے والوں کے ذہن میں منطقی طور پر یہ خیال آتا ہے کہ یہ پاکستان پرانے پاکستان سے مختلف ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیا پاکستان پرانے پاکستان سے مختلف کیسے ہو گا؟ اگر عمران خان اسی طرح ہجوم جمع کرنے میں کامیاب رہے تو یہ بات یقینی ہے کہ تمام پرانے پاپی ایک اتحاد میں بندھ جائیںگے، البتہ پیپلزپارٹی کے لیے سخت امتحان یوں ہو گا کہ اس کے تازہ دم پہلوان بھی وزارت عظمیٰ سے دلچسپی رکھتے ہیں، جس پر عمران خان کی پہلے ہی سے نظر ہے۔
اس صورت حال میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنا سکتی ہے کہ میاں صاحب عمران خان کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ تو ہوئی سیاست جاریہ کی بات، اگر ایماندارانہ اور عوام دوست سیاست کی جائے تو انتخابات کا بنیادی مقصد 69 سالہ کرپٹ اقتدار مافیا سے نجات، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور ایسی انتخابی اصلاحات ہوں جو عوام مزدوروں، کسانوں، و کیلوں، ڈاکٹروں، دانشوروں کو قانون ساز اداروں میں پہنچانے کا وسیلہ بن سکیں۔
الیکشن کمیشن 2018ء کے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنی صفیں درست کر رہی ہیں، جو جماعتیں دولت اور اختیارات کے ذریعے الیکشن جیتتی رہتی ہیں وہ انتظامیہ میں اپنے بڑے بٹھا رہی ہیں اور انتخابی فنڈز کی ایلوکیشن ہو رہی ہے، الیکشن پر سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کار تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں، انتخابی گھوڑوں کی طاقت اور پھرتی کا اندازہ کر رہے ہیں، تا کہ غلط گھوڑے پر سرمایہ کاری کر کے نقصان نہ اٹھائیں۔ یہ کھیل پاکستان میں 69 برس سے تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے، جس کا عوام کو آج تک کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔
وہ 69 سال پہلے جن مسائل کا شکار تھے ان میں کمی تو نہیں آئی البتہ اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں خصوصاً پاکستان میں عوام کے حقیقی نمایندے نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکے ہیں نہ اقتدار میں آ سکے ہیں۔ وہی گنے چنے خاندان ہیں جو چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آتے ہیں اور اربوں کی لوٹ مار کر کے چلے جاتے ہیں۔ بے چارے عوام اس سارے ڈرامے میں صرف اپنے طبقاتی دشمنوں کو ووٹ دینے کے پابند ہیں اور یہ کام پابندی سے کر رہے ہیں۔
عمران خان پانامہ لیکس کو لے کر بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں کر رہے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ عمران خان 2014ء کی سائیکی سے باہر نہیں نکل سکے۔ 2014ء میں کسی اور حوالے سے ''گو نواز گو'' کے پیچھے بھاگتے رہے، اب 2016ء میں پانامہ لیکس کے حوالے سے ''گو نواز گو'' کی تکرار کر رہے ہیں اور دوسری جمہوریت پسند جماعتیں تو گو نواز گو تک آنے کے لیے اور سرکار دربار کی چوکھٹ سے الگ ہونے کے لیے تیار نہیں، کیوں کہ ان کے منہ موتیوں سے بھر کر ان کی زبان بندی کی جا رہی ہے، اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے بعد وہ ''آمریت سے لولی لنگڑی جمہوریت ہوتی ہے'' کی تان پر آ کر رک جاتے ہیں اور حکومت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو پکے راگ میں جمہوریت جمہوریت گانے لگ جاتے ہیں۔
ہر سیاسی پارٹی بھاری اجرت پر تھنک ٹینک اور تھنکر خریدتی ہے اور چٹ پٹا مصالحہ دار ایسا منشور بنواتی ہیں کہ عوام کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ ملک کے اہم مسائل ان بزرگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، فروعی مسائل کو نمک مرچ لگا کر عوام کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔
یوں جمہوریت کا یہ کھیل کامیابی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ دو مسئلوں کو انتخاب جیتنے کے لیے استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے، ایک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، دوسرے اقتصادی راہداری۔ چونکہ آنے والے الیکشن تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، لہٰذا امید ہے کہ 2018ء تک مکمل نہ سہی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا جائے گا، اگر ایسا ہوا تو برسر اقتدار پارٹی بڑے زور و شور سے اس مسئلے کو انتخابات کی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بنائے گی۔
لیکن اس حوالے سے اصل سوال یہ ہے کہ 1988ء سے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی باری باری سے حکومت کرتی رہی ہیں پھر 28 سال سے ان جماعتوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اس غفلت کی ذمے داری کس پر عائد ہو گی؟ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کہتی ہے کہ یہ مسئلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے، چنانچہ یہ مسئلہ برسر اقتدار آنے والی جماعتوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ اگر 2018ء تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہو گی تو یہ کارنامہ نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہی کہلائے گی، کیوںکہ اس مسئلے کو عشروں پہلے ہی حل ہو جانا چاہیے تھا۔
اشرافیائی جمہوریت میں انتخابی اتحاد بنتے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں بھی انتخابی اتحاد بنیںگے لیکن افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ یہ اتحاد عوامی مسائل حل کرنے پر نہیں بنتے بلکہ سیٹوں کی بندر بانٹ پر بنتے ہیں۔ اس بندر بانٹ میں امیدواروں کی نامزدگی میرٹ پر نہیں بلکہ سرمایہ کاری اور تابعداری پر کی جاتی ہے۔ اس قسم کے اتحاد عملاً حکمران طبقے کی مدد میں کام آتے ہیں، جسے عرفِ عام میں فرینڈلی اپوزیشن کہا جاتا ہے، پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ مدت حکومت مسلم لیگ (ن) کی فرینڈلی اپوزیشن کی کرامت تھی۔
اب تک مشترکہ مفادات رکھنے والی پارٹیوں کے درمیان ہی انتخابی دنگل منعقد ہوا کرتا تھا لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ 2018ء کے الیکشن کی صورت حال کچھ مختلف ہو گی، کیونکہ تحریک انصاف باری باری عیاری میں گلے کی ہڈی بن سکتے ہیں۔
2013ء میں بھی عمران نے کسی حد تک باری باری والوں کے لیے مشکلات پیدا کیے، لیکن 2013ء میں عمران خان میں بہرحال وہ میچوریٹی نہیں تھی، جو اب دیکھی جا رہی ہے لیکن عمران خان کی قسمت یہ ہے کہ انھیں وہ صلاح کار حاصل ہیں، جو پورے انتخابی نظام اور حکمران جماعت کی ''طاقت'' کے تناظر میں ایسی گائیڈ لائن فراہم کرے، جو عوام کے لیے ترغیب ثابت ہو۔ عمران خان جس ''نئے پاکستان'' کے مبہم نعرے کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں۔ یہ نعرہ عوام کو راغب نہیں کر پا رہا ہے، عمران کے پولیٹیکل ایڈوائزروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ نئے پاکستان کی ایسی تشریح و وضاحت پیش کریں جو عوام کو متاثر کر سکے۔
نئے پاکستان کی بات سننے والوں کے ذہن میں منطقی طور پر یہ خیال آتا ہے کہ یہ پاکستان پرانے پاکستان سے مختلف ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیا پاکستان پرانے پاکستان سے مختلف کیسے ہو گا؟ اگر عمران خان اسی طرح ہجوم جمع کرنے میں کامیاب رہے تو یہ بات یقینی ہے کہ تمام پرانے پاپی ایک اتحاد میں بندھ جائیںگے، البتہ پیپلزپارٹی کے لیے سخت امتحان یوں ہو گا کہ اس کے تازہ دم پہلوان بھی وزارت عظمیٰ سے دلچسپی رکھتے ہیں، جس پر عمران خان کی پہلے ہی سے نظر ہے۔
اس صورت حال میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد بنا سکتی ہے کہ میاں صاحب عمران خان کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ تو ہوئی سیاست جاریہ کی بات، اگر ایماندارانہ اور عوام دوست سیاست کی جائے تو انتخابات کا بنیادی مقصد 69 سالہ کرپٹ اقتدار مافیا سے نجات، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور ایسی انتخابی اصلاحات ہوں جو عوام مزدوروں، کسانوں، و کیلوں، ڈاکٹروں، دانشوروں کو قانون ساز اداروں میں پہنچانے کا وسیلہ بن سکیں۔