3سال میں دہشت گردی کے 250 مقدمات صرف 29 کا فیصلہ ملزموں کی اکثریت رہا
جی ایچ کیو،واہ فیکٹری،سرجن جنرل اور کامرہ میں فضائیہ کی بس پرخودکش حملوں کے مقدمات میں گرفتارملزم عدم ثبوت پررہا ہوچکے
پاکستان میں شدت پسندی اوربم دھماکوں سے متعلق گزشتہ تین برس میں درج 250 سے زائدمقدمات میں سے صرف 29 مقدمات کافیصلہ سنایاجاسکاہے۔
جبکہ باقی ماندہ مقدمات انسداددہشتگردی اور دیگرعدالتوںمیںزیرسماعت ہیں جن مقدمات کافیصلہ سنایا گیا اس میں30کو خود کش حملہ آوروں کوسہولت فراہم کرنے اوربم تیارکرنے میں سزادی گئی جبکہ گرفتارافرادکی بڑی تعدادکوعدم ثبوت کی بناپربری کردیاگیا ہے،چاروںصوبوںکی پراسیکیوشن برانچ اورپولیس ذرائع سے حاصل اعدادوشمارکے مطابق تین برس میںشدت پسندی،خودکش حملوں اوربم دھماکوں کے سب سے زیادہ مقدمات خیبرپختونخوامیںدرج کیے گئے جن کی تعداد 104 ہے جبکہ بلوچستان میں 85،پنجاب میں 48اورسندھ میں 23 مقدمات درج ہوئے۔
پنجاب میں48 مقدمات میںسے 6 مقدمات کے 13 ملزمان پرجرم ثابت ہونے پر انسداد دہشتگردی کی عدالتوں نے سزائیں سنائیں، 22 مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرسماعت ہیںجبکہ 20 مقدمات کی تفتیش ابھی جاری ہے،انسداددہشتگردی ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات کافیصلہ ایک ماہ کے اندرہوناہوتاہے لیکن مقررہ مدت تک پولیس کی طرف سے تفتیش نامکمل ہونے اوراستغاثہ کی طرف سے شواہدپیش نہ کیے جانا مقدمات کووقت پرنہ نمٹائے جانے کی بڑی وجوہات ہیں،پنجاب میں جی ایچ کیو،واہ آرڈیننس فیکٹری،پاکستانی فوج کے سرجن جنرل اور کامرہ میں فضائیہ کی بس پرخودکش حملوں کے مقدمات میں گرفتار متعدد افرادرہاہوچکے ہیں۔
اسلام آباد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری، اسپیشل برانچ اوراقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے کے دفتر کے باہرحملوں کے مقدمات میں گرفتار افراد بھی عدم ثبوت کی بناپررہائی پاچکے ہیں، ماہرین کاکہناہے کہ مختلف کالعدم تنظیموں کی طرف سے متعدددھماکوں اورخودکش حملوںکی ذمے داری قبول کرنے کے بعدقانون نافذکرنیوالے ادارے ان مقدمات کی تفتیش پراتنی توجہ نہیں دیتے جتنی مقدمے کواپنے انجام تک پہنچانے کیلیے ضروری ہے۔ادھرمالاکنڈڈویژن میں پاکستانی فوج کے کمانڈرمیجرجنرل غلام قمر نے بتایا کہ موجودہ قوانین میں تبدیلی لائے بغیرسوات میںگرفتارشدت پسندوں کیخلاف عدالتوں میں جرم ثابت کرنابہت مشکل ہے۔
جبکہ باقی ماندہ مقدمات انسداددہشتگردی اور دیگرعدالتوںمیںزیرسماعت ہیں جن مقدمات کافیصلہ سنایا گیا اس میں30کو خود کش حملہ آوروں کوسہولت فراہم کرنے اوربم تیارکرنے میں سزادی گئی جبکہ گرفتارافرادکی بڑی تعدادکوعدم ثبوت کی بناپربری کردیاگیا ہے،چاروںصوبوںکی پراسیکیوشن برانچ اورپولیس ذرائع سے حاصل اعدادوشمارکے مطابق تین برس میںشدت پسندی،خودکش حملوں اوربم دھماکوں کے سب سے زیادہ مقدمات خیبرپختونخوامیںدرج کیے گئے جن کی تعداد 104 ہے جبکہ بلوچستان میں 85،پنجاب میں 48اورسندھ میں 23 مقدمات درج ہوئے۔
پنجاب میں48 مقدمات میںسے 6 مقدمات کے 13 ملزمان پرجرم ثابت ہونے پر انسداد دہشتگردی کی عدالتوں نے سزائیں سنائیں، 22 مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرسماعت ہیںجبکہ 20 مقدمات کی تفتیش ابھی جاری ہے،انسداددہشتگردی ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات کافیصلہ ایک ماہ کے اندرہوناہوتاہے لیکن مقررہ مدت تک پولیس کی طرف سے تفتیش نامکمل ہونے اوراستغاثہ کی طرف سے شواہدپیش نہ کیے جانا مقدمات کووقت پرنہ نمٹائے جانے کی بڑی وجوہات ہیں،پنجاب میں جی ایچ کیو،واہ آرڈیننس فیکٹری،پاکستانی فوج کے سرجن جنرل اور کامرہ میں فضائیہ کی بس پرخودکش حملوں کے مقدمات میں گرفتار متعدد افرادرہاہوچکے ہیں۔
اسلام آباد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری، اسپیشل برانچ اوراقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے کے دفتر کے باہرحملوں کے مقدمات میں گرفتار افراد بھی عدم ثبوت کی بناپررہائی پاچکے ہیں، ماہرین کاکہناہے کہ مختلف کالعدم تنظیموں کی طرف سے متعدددھماکوں اورخودکش حملوںکی ذمے داری قبول کرنے کے بعدقانون نافذکرنیوالے ادارے ان مقدمات کی تفتیش پراتنی توجہ نہیں دیتے جتنی مقدمے کواپنے انجام تک پہنچانے کیلیے ضروری ہے۔ادھرمالاکنڈڈویژن میں پاکستانی فوج کے کمانڈرمیجرجنرل غلام قمر نے بتایا کہ موجودہ قوانین میں تبدیلی لائے بغیرسوات میںگرفتارشدت پسندوں کیخلاف عدالتوں میں جرم ثابت کرنابہت مشکل ہے۔