ایک قابل فخر پولیس کمانڈرناصر خان درانی

ایک مصور نے تصویر بنائی اور لکھا کہ اس میں کوئی خامی ہو تو بتائیں تو ساری تصویر خامیوں سے بھر گئی

گذشتہ دنوں صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی کے حوالے سے دو خبروں نے توجہ ان کی جانب مبذول کروائی، ایک خبر یہ تھی کہ موصوف کے بیٹے کی دعوت ولیمہ پشاور میں ہوئی جس میں سیاست دانوں کے علاوہ زندگی کے تمام ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ دعوتی کارڈ کے ساتھ ایک چٹ بھی موصول ہوئی جس میں لکھا گیا تھا کہ دعوت ولیمہ میں کوئی تحفہ لے کر نہ آئیے گا۔

دوسری خبر جس نے مجھے بڑی خوش گوار حیرت میں مبتلا کیا وہ یہ تھی کہ آئی جی پولیس نے تبدیل ہونے والے چیف سیکریٹری کے اعزاز میں عصرانہ دیا اور انھیں پولیس کے ایک چاک و چوبند دستہ نے سلامی پیش کرنے کے بعد باعزت طور پر اس صوبے سے رخصت کیا۔ پہلی خبر پر کیا تبصرہ کیا جائے کہ یہ یقین ہی نہ آیا کہ ناصر خان درانی پولیس والے ہیں اور دوسری خبر پر اس لیے یقین کرنا پڑا کہ ناصر خان درانی نے ایک جنگ جیتی جو بلاشبہ ان کی صلاحیتوں کی عکاس اور صوبے کی بہادر پولیس فورس کی جیت ہے۔

بھلے وہ یہ کہیں کہ انھوں نے اس صوبے کی روایات و اقدار کے مطابق سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے سابق چیف سیکریٹری کو گارڈ آف آنر دیا مگر جن مشکل حالات سے پولیس گزری اور اسے آگے بڑھنے کی راہ میں جن رکاوٹوں کا سامنا رہا وہ بیورو کریسی اور پولیس کے درمیان شدید ترین اختلافات کا ایسا باب ہے جسے کم از کم پولیس کبھی بھولے گی نہیں۔مجھے تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کا شوق رہا ہے۔

وہ تصویر والا واقعہ یادآگیا کہ ایک مصور نے تصویر بنائی اور لکھا کہ اس میں کوئی خامی ہو تو بتائیں تو ساری تصویر خامیوں سے بھر گئی اور جب اس نے نئی تصویر پر یہ لکھا کہ بتائیے اس تصویر کی خامی کس طرح دور کی جائے تو پھر کسی نے کچھ نہ کہا، چنانچہ ہمارے یہاں بھی کہنا تو بظاہر آسان ہے کہ ہر حکومت، ہر ادارہ، ہر انفرادی شخص اور شخصیت خامیوں سے بھری پڑی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ میرے سمیت ہم بہت سے لکھنے والوں کے پاس نیا کچھ کرنے کی تجویز کم ہی ہوتی ہے ،جب یہ کہا گیا کہ خیبر پختون خوا پولیس ملک کی ایک بہترین فورس بن گئی ہے تو شاید سب سے پہلے راقم نے ہی تنقید کی اور کہا کہ خیبر پختون خوا کی پولیس آج نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ملک کی ایک بہترین فورس ہے۔

جب یہ کہا گیا کہ نئے انسپکٹر جنرل پولیس کے چارج لینے کے بعدمتعدد ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے پولیس فورس کی کارکردگی میں نکھار پیدا ہو رہا ہے تو میں نے اس وقت کہا کہ بہت سے اقدامات اس وقت کیے گئے جب اس پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ،لاتعداد قربانیاں دیں، ایڈیشنل آئی جی، ڈپٹی انسپکٹر جنرل، سی سی پی او، ایس ایس پیز، ایس پیز، ڈی ایس پیز،ایس ایچ اوز،کانسٹیبلز اور سپاہیوں نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے دے کر خود کو امر کر دیا اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پولیس اس قسم کی جنگ کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ملک نوید خان، فیاض احمد طورو،اکبر خان ہوتی، احسان غنی قابل فخر پولیس افسر تھے انھوں نے اپنے تئیں اس فورس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

میں نے اس وقت اس مؤقف کی بھی مخالفت کی تھی کہ سابق آئی جیز صاحبان نے پولیس فورس کے لیے کچھ نہیں کیا۔جب یہ دکھائی دیا کہ سینٹرل پولیس آفس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افسر کچھ زیادہ ہیں جس سے مقامی پولیس افسروں میں تحفظات پائے جاتے ہیں اس وقت بھی براہ راست یہ بات آئی جی ناصر خان درانی کے گوش گذار کی۔وہ بھلے مانس انسان ہیں، سنتے سب کی ہے مگر کرتے اپنی ہیں لیکن انھوں نے ہمیشہ مجھے توجہ سے سنا۔شاید یہی وجہ ہے کہ بہت عرصے کے بعد اصلاحات کے حوالے سے پولیس کا ذکر آج کل زیادہ ہے۔


خیبر پختون خوا پولیس کو ملک بھر میں اس وقت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے ہر جلسے اور جلوس میں پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کے دعوے کیے۔اتفاق سے لگ بھگ تین برسوں تک ماسوائے قانون سازی کے، صوبے کی حکمران جماعت کو کچھ بتانے کو نہ تھا کہ انھوں نے کیاکیا اور اگر کچھ بتایا تو وہ پولیس کے حوالے سے تھا جس کی وجہ حکومت یا سیاست دان نہیں بلکہ پولیس چیف ناصر خان درانی تھے۔

انھوں نے اپنے عہدے کا چارج لیتے ہی یہ واضع کر دیا تھا کہ وہ پولیس میں اصلاحات لائیں گے اور سیاسی عمل دخل سے پولیس کو دور رکھیں گے۔یہاں حکومت کی تعریف بھی لازم ہے کہ انھوں نے محاذ آرائی کی بجائے پولیس چیف کو اہمیت دی اور سیاست سے پاک پولیس نے بہتری کی جانب سفر شروع کیا۔میں عملی اقدامات کو اس وقت صحیح مانتا ہوں جب اس کے ثبوت بھی ہمراہ ہوں ۔

اس وقت میرے سامنے خیبر پختون خوا پولیس کے چیف ناصر خان درانی کی کارکردگی سے متعلق دو الگ الگ رپورٹیں موجود ہیں جو کتابوں کی شکل میں ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ بیوروکریسی سے سرد جنگ کے باوجود اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ناصر خان درانی نے پولیسنگ بہتر کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھانے چاہیے تھے وہ ضرور اٹھائے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب پنجاب پولیس کے کرتا دھرتا بھی وہی کرنا چاہتے ہیں جو اس صوبے کی پولیس نے کیے ہیں۔

مسلسل پیشہ ورانہ حکمت عملی کے اقدامات کے عنوان سے کتاب میرے سامنے ہے اور جب آپ کے پاس تحریری شکل میں کوئی ثبوت ہو بھلے آپ اس کی تصدیق کے لیے موقع پر جا بھی سکتے ہیں تو پھر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ناصر خان درانی نے پولیس کا عوام میں تاثر بہتر بنانے کے لیے جو اصلاحات کی ہیں اس کے اثرات اگلے چند برسوں میں دکھائی دیں گے، مثال کے طور انھوں نے پری سروس ٹریننگ، سروس اسپیشلائزڈ اینڈ کیپسٹی بلڈنگ اسکول،پولیس اسکول آف انویسٹی گیشن، پولیس اسکول آف انٹیلی جنس، پولیس اسکول آف ٹیکٹکس، اسکول آف ایکسپلوسیو ہینڈلنگ، اسکول آف پبلک ڈس آرڈر اینڈ ریوٹ منیجمنٹ،اسکول آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر، سروس پروموشن کورسز، بیسک اینڈ اسپیشلائزڈ ٹریننگ فار وومن، کیپسٹی بلڈنگ کے لیے مختلف یونی ورسٹیوں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط، اور اساتذہ کی استعداد کارکو بہتر بنانے کے پروگرام شامل ہیں۔

یہ سب کاوشیں تبھی ممکن ہوتی ہیں جب سیاست دان خود کو پولیس سے اور پولیس خود کو سیاست دانوں سے دور رکھے۔پاکستان میں ایسا ناممکن ہے لیکن ناصر خان درانی خوش قسمت ہیں کہ کم از کم خیبر پختون خوا کی حکمران جماعت دھرنوں میں مصروف رہی اور وہ "چھیڑ چھاڑ "سے دور رہی۔پولیس بدلنے کی تاویلات دینے کے لیے میرے پاس ایک عمدہ مثال موجود ہے کہ نوشہرہ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر واحد محمود نے رشوت لینے کی شکایت پر پہلے ثبوت دیکھے اور پھر اگلے ہی لمحے ایک ناکے پر موجود پولیس کانسٹیبل کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

یہ گرفتار پولیس کانسٹیبل میری موجودگی میں ڈی پی او کے سامنے تھا اور پھر مجھے بے اختیار شہید ملک محمد سعد خان یاد آ گئے ۔کانسٹیبل کو پندرہ دن کے لیے کوارٹرگارڈ میں بند کر دیا گیا اور اس سے پہلے پندرہ کلوگرام وزن اٹھا کر اسے ایک گھنٹہ چکر لگوائے گئے ۔جب معمولی رشوت پر پولیس کانسٹیبل سلاخوں کے پیچھے چلا جائے تو دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں کہ ابھی خیبر پختون خوا پولیس کے وہ افسر زندہ ہیں جن کے نام سے جرائم پیشہ لوگ کانپتے ہیں اور ان پر بلاشبہ فخر کیا جا سکتا ہے، دوسری بات یہ کہ جس پولیس فورس کا قائد ناصر خان درانی جیسا ہو تو فورس ہی نہیں ملک اور قوم بھی ترقی کرتی ہے۔
Load Next Story