لڑکیاں بنیں عہدے دار 11 اکتوبر کو انہیں ایک دن کے لیے اہم ذمہ داریاں دی گئیں
جہاں صنف نازک پرظلم و زیادتی کی تاریخ بہت قدیم ہے، وہیں اسکے عزم و ہمت کی داستان بھی ماضی کے دریچوں سے دکھائی دیتی ہے۔
جہاں صنف نازک پر ظلم و زیادتی کی تاریخ بہت قدیم ہے، وہیں اس کے عزم و ہمت کی داستان بھی ماضی کے دریچوں سے دکھائی دیتی ہے۔ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دینا، بیٹی اور بیٹے میں تفرق، انہیں تعلیم سے دور رکھنا، ان کی چھوٹی عمر میں شادی کر دینا اور دیگر کئی زیادتیاں روا رکھی جاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے لڑکیوں کے حقوق اور لڑکیوں کو درپیش مسائل کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا بین الاقوامی دن قرار دیا گیا۔ اس دن کو لڑکیوں کے نام سے منسوب کرنے کے لیے کینیڈا کی گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ پلین انٹرنیشنلی نامی تنظیم کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ اس تنظیم کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح لڑکیوں میں آگاہی پیدا کی جا سکے گی، ان میں اپنے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار ہوگا، تاکہ لڑکیاں اپنے آپ کو کم زور نہ سمجھیں۔ وہ جو چاہتی ہیں، اسے حاصل کریں اور اس کی جستجو میں لگی رہیں۔ اس دن کو منانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ طور پر قرارداد پیش کی گئی۔
یہ قرارداد کینیڈا کی وزیر رونا ایمبروز (Rona Ambrose) نے جمع کرائی رونا ایمبروز کینیڈا میں خواتین کے حقوق کے لیے کافی متحرک ہیں۔ اس کے لیے کینیڈا کی طرف سے 19 دسمبر 2011ء کوخواتین اور لڑکیوں کا ایک وفد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کمیشن کے سامنے پیش ہوا۔ اس قراداد کو منظور کرنے کے لیے جنرل اسمبلی میں رائے شماری کام یاب ہوئی اور 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کر دیا گیا۔
سب سے پہلے کینیڈا میں ہی لڑکیوں کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار منعقد ہوئے۔ پہلے سال 2012ء میں چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادی کی روک تھام کے لیے تقریب کا اہتمام کیا گیا اورمختلف سماجی شخصیات، گھریلوخواتین، اسکول کی بچیوں اور اساتذہ کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ 2013ء میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے آگاہی کی مہم چلائی گئی۔ 2014ء میں بھی اس دن کو مدِنظر رکھتے ہوئے لڑکیوں پر تشدد کے حوالے سے پرگرام منعقد کیے گئے، جب کہ 2015ء میں آج کی لڑکی 2030ء میں کیسے طاقت وَر بن سکتی ہے؟ اس حوالے سے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔
آہستہ آہستہ دیگر ممالک میں بھی لڑکیوں کے عالمی دن کے لیے تقریبات منعقد کی جانے لگیں۔ ان میں سے زیادہ تر تقریبات اقوامِ متحدہ کی طرف سے ہی منعقد کی جاتی ہیں۔ بھارتی شہر ممبئی میں کنسرٹس کیے جاتے ہیں، آسٹریلیا میں بھی مقامی تنظیمیں اس حوالے سے بہت سی تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں۔ جنوبی افریقا میں لڑکیوں کا فٹ بال میچ کروایا جاتا ہے، جس میں لڑکیوں کو ٹی شرٹس تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جیتنے والی ٹیم کو انعامی رقم بھی دی جاتی ہے۔
اس سال لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر 11 اکتوبر کو دنیا بھر کے 50 ممالک میں صدارتی اور دیگر 200 اہم انتظامی عہدے لڑکیوں نے سنبھالے۔ تھائی لینڈ سے جزیرہ تیمور اور بنگلا دیش سے کینیڈا تک دنیا بھر میں صدر، مختلف شہروں کے میئر، کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران اور ٹی وی میزبانوں کے یہ عہدے لڑکیوں کے سپرد کیے گئے۔ اس مشق کا مقصد انصاف اور مساوات کے لیے ان کی آواز کو بلند آہنگی سے پیش کرنا ہے۔
نیپال کی پہلی خاتون صدر بندیا دیوی بھنڈاری نے ایک ہفتہ قبل ہی اس دن کے لیے منظر نامہ تیار کر لیا، جب کہ ان کی پیروی کرتے ہوئے ان کے بعد دیگر بہت سی معاشی، سماجی اور انتظامی شعبوں سے متعلق اہم مناصب پر تعینات شخصیات بھی لڑکیوں کو ذمہ داریاں دینے کی خاطر اپنے آپ کو ایک دن کے لیے اپنے اپنے منصب سے الگ کر لیا۔
اس طرح لڑکیاں ان مقامات اور مناصب پر کام کرسکیں، جن مقامات اور مناصب پر انھیں شاذ ونادر ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس علامتی اقدام کے ذریعے لڑکیاں دراصل حکومتوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ان رکاوٹوں کو ختم کردیں گی، جو کروڑوں لڑکیوں کو ان کے حقوق دینے میں مزاحم ہیں۔
دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جہاں لڑکیوں کو خاص مقام اور حیثیت حاصل ہو۔ اس اقدام کے ذریعے لڑکیاں دنیا کو ایک خاص پیغام بھی دیں گی کہ وہ کسی بھی معاملے میں لڑکوں سے کم نہیں، بلکہ ان کے شانہ بہ شانہ چل سکتی ہیں۔ اگر انہیں ان اہم عہدوں پر فائز کر دیا جائے، تو وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔ یہ ترکیب پلین انٹرنیشنل تنظیم کی سی ای او Anne-Birgitte Albrectsen نے پیش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے ذریعے سے لڑکیاں اپنے آپ کو دنیا کے سامنے منوا سکتی ہیں اور اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے لڑکیوں کے حقوق اور لڑکیوں کو درپیش مسائل کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا بین الاقوامی دن قرار دیا گیا۔ اس دن کو لڑکیوں کے نام سے منسوب کرنے کے لیے کینیڈا کی گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ پلین انٹرنیشنلی نامی تنظیم کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ اس تنظیم کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح لڑکیوں میں آگاہی پیدا کی جا سکے گی، ان میں اپنے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار ہوگا، تاکہ لڑکیاں اپنے آپ کو کم زور نہ سمجھیں۔ وہ جو چاہتی ہیں، اسے حاصل کریں اور اس کی جستجو میں لگی رہیں۔ اس دن کو منانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ طور پر قرارداد پیش کی گئی۔
یہ قرارداد کینیڈا کی وزیر رونا ایمبروز (Rona Ambrose) نے جمع کرائی رونا ایمبروز کینیڈا میں خواتین کے حقوق کے لیے کافی متحرک ہیں۔ اس کے لیے کینیڈا کی طرف سے 19 دسمبر 2011ء کوخواتین اور لڑکیوں کا ایک وفد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کمیشن کے سامنے پیش ہوا۔ اس قراداد کو منظور کرنے کے لیے جنرل اسمبلی میں رائے شماری کام یاب ہوئی اور 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کر دیا گیا۔
سب سے پہلے کینیڈا میں ہی لڑکیوں کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار منعقد ہوئے۔ پہلے سال 2012ء میں چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادی کی روک تھام کے لیے تقریب کا اہتمام کیا گیا اورمختلف سماجی شخصیات، گھریلوخواتین، اسکول کی بچیوں اور اساتذہ کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ 2013ء میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے آگاہی کی مہم چلائی گئی۔ 2014ء میں بھی اس دن کو مدِنظر رکھتے ہوئے لڑکیوں پر تشدد کے حوالے سے پرگرام منعقد کیے گئے، جب کہ 2015ء میں آج کی لڑکی 2030ء میں کیسے طاقت وَر بن سکتی ہے؟ اس حوالے سے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔
آہستہ آہستہ دیگر ممالک میں بھی لڑکیوں کے عالمی دن کے لیے تقریبات منعقد کی جانے لگیں۔ ان میں سے زیادہ تر تقریبات اقوامِ متحدہ کی طرف سے ہی منعقد کی جاتی ہیں۔ بھارتی شہر ممبئی میں کنسرٹس کیے جاتے ہیں، آسٹریلیا میں بھی مقامی تنظیمیں اس حوالے سے بہت سی تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں۔ جنوبی افریقا میں لڑکیوں کا فٹ بال میچ کروایا جاتا ہے، جس میں لڑکیوں کو ٹی شرٹس تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جیتنے والی ٹیم کو انعامی رقم بھی دی جاتی ہے۔
اس سال لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر 11 اکتوبر کو دنیا بھر کے 50 ممالک میں صدارتی اور دیگر 200 اہم انتظامی عہدے لڑکیوں نے سنبھالے۔ تھائی لینڈ سے جزیرہ تیمور اور بنگلا دیش سے کینیڈا تک دنیا بھر میں صدر، مختلف شہروں کے میئر، کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران اور ٹی وی میزبانوں کے یہ عہدے لڑکیوں کے سپرد کیے گئے۔ اس مشق کا مقصد انصاف اور مساوات کے لیے ان کی آواز کو بلند آہنگی سے پیش کرنا ہے۔
نیپال کی پہلی خاتون صدر بندیا دیوی بھنڈاری نے ایک ہفتہ قبل ہی اس دن کے لیے منظر نامہ تیار کر لیا، جب کہ ان کی پیروی کرتے ہوئے ان کے بعد دیگر بہت سی معاشی، سماجی اور انتظامی شعبوں سے متعلق اہم مناصب پر تعینات شخصیات بھی لڑکیوں کو ذمہ داریاں دینے کی خاطر اپنے آپ کو ایک دن کے لیے اپنے اپنے منصب سے الگ کر لیا۔
اس طرح لڑکیاں ان مقامات اور مناصب پر کام کرسکیں، جن مقامات اور مناصب پر انھیں شاذ ونادر ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس علامتی اقدام کے ذریعے لڑکیاں دراصل حکومتوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ان رکاوٹوں کو ختم کردیں گی، جو کروڑوں لڑکیوں کو ان کے حقوق دینے میں مزاحم ہیں۔
دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جہاں لڑکیوں کو خاص مقام اور حیثیت حاصل ہو۔ اس اقدام کے ذریعے لڑکیاں دنیا کو ایک خاص پیغام بھی دیں گی کہ وہ کسی بھی معاملے میں لڑکوں سے کم نہیں، بلکہ ان کے شانہ بہ شانہ چل سکتی ہیں۔ اگر انہیں ان اہم عہدوں پر فائز کر دیا جائے، تو وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔ یہ ترکیب پلین انٹرنیشنل تنظیم کی سی ای او Anne-Birgitte Albrectsen نے پیش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے ذریعے سے لڑکیاں اپنے آپ کو دنیا کے سامنے منوا سکتی ہیں اور اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہیں۔