ہمارے سیاسی جانور

اس جانور کی ضرورت تب پڑتی ہے جب آپ اپنی روایتی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کے خلاف کوئی نیوز اسٹوری چھپوا بیٹھیں


آفتاب اقبال October 17, 2016
[email protected]

قربانی کا بکرا

اس جانور کی ضرورت سیاست میں تب پڑتی ہے جب آپ اپنی روایتی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کے خلاف کوئی نیوز اسٹوری چھپوا بیٹھیں اب ایسی صورت میں جب فوج اس بیہودہ اسٹوری کا اصل منبع مانگ لے تو آپ کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اب منبع پیش کیے بغیر آپ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہوتا چنانچہ دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ آپ کسی قریبی عزیز کا نام لیتے ہیں یا کسی نالائق وزیر، مشیر کا جس کے پھنسنے پر آپ کو کوئی خاص تکلیف بھی نہ ہو بلکہ تھوڑا بہت سکون محسوس ہو بہتر تو یہی ہے کہ کسی ایسے ناہنجار رشتہ دار کا نام لے دیں جس پر آپ کو پرانا (وَٹ) رنج ہو اس سے ایک تو فوج کا مجموعی غصہ بھی ٹھنڈا ہوجائے گا (ویسے یہ آپ کا خیال ہی ہے !!) اور دوسرا یہ کہ عزیزی ناہنجار بھی کیفر کردار تک پہنچے گا۔ ہیں جی؟

بھاڑے کے ٹٹو

یہ زیادہ تر وہ صحافی اور اینکر ہوتے ہیں جو پیسے یا مراعات لے کر آپ کے حق میں یا خلاف دُم وغیرہ ہلاتے ہیں اب آپ زیادہ چالاک بنتے ہوئے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ دُم حق میں تو ہلائی جاسکتی ہے آخر خلاف کیسے اور کہاں ہلائی جاتی ہے تو گزارش ہے کہ ہمارے سگ شناس دوست خوب جانتے ہیں کہ ڈوبرمین جیسا جواں مرد کتا دونوں جانب دم ہلاتا ہے یعنی اگر وہ کسی کو دیکھ کر خوش اور مطمئن ہے تو ایک جانب سے دوسری جانب سے دم ہلائے گا اور اگر ناراض ہے تو سمت اُلٹ ہوجائے گی چور اور ڈاکو خواتین و حضرات ڈوبرمین کی اس صفت سے آشنا ہونے کے سبب اس کا بندوبست کرکے گھر سے نکلتے ہیں مثلاً نشے یا زہر میں لتھڑا ہوا گوشت کا انتہائی لذیز ٹکرا بہت کار آمد ثابت ہوتا ہے کیونکہ بھاڑے کا ٹٹو عام طور پر ایسی ہی لذیز مقویات پر لڑکھتا ہے ماضی میں ڈی جی پی آر اور پی آئی ڈی والے یہ کام مخصوص مشروبات اور مکار مستورات سے بھی لیا کرتے تھے تا ہم یہ سب دقیانوسی طریقے صحافت میں لفافہ متعارف ہونے سے پہلے کے ہیں۔ لفافے کی یہ قسم کس نے متعارف کروائی، اس کے لیے حوالے کے طورپر ملاحظہ ہو مرحوم مجید نظامی کا وہ بیان جو انھوں نے غالباً الحمرا میں اپنی ایک دھواں دھار تقریر کے دوران داغا تھا۔ہیںجی؟

بہرحال بات ہو رہی تھی ڈوبر مین کی دو رُخی دُم کی تو آخری گزارش یہ ہے کہ سمجھدار مالکان مذکورہ خصلت کے سبب اس کی دُم کاٹ دیا کرتے ہیں تا کہ وہ ڈبل گیم کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو جو سیاہ ڈوبر مین دکھائی دیتے ہیں وہ اکثردُم کٹے ہی ہوتے ہیں۔ بھاڑے کے دیگر ٹٹووں کے ساتھ بھی عام طور پر یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ بھارتی دھن پر ناچنے والے ٹٹووں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے امکانات بھی آئے دن روشن ہوتے جا رہے ہیں۔

پیاسا کوّا

سیاست میں پیاسا کوّا وہ ہوتا ہے جسے اقتدار کی پیاس نہایت شدت کے ساتھ ستانے لگے۔ وہ اپنی پیاس دور کرنے کے لیے ہر ہر حربہ استعمال کرتا ہے لیکن یہ ہر گز ضروری نہیں کہ اقتدار کاپیاسا کوّا اپنی پیاس بجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ کامیابی صرف چالاک کوّوں کی قسمت میں ہی لکھی ہوتی ہے۔ یہ کوّے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے اُس بیچاری کو خوب اُلّو بناتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج ان کا شمار جمہوریت کے امیر ترین کوّوں میں ہوتا ہے۔ ان کی جماعتیں بظاہر ایک دوسرے کی مخالف ہوتی ہیں مگر ''اندرواندری'' معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ جب سے این آر او کے نام پر بیچاری ''اَنھی کے گھر میں ڈانگ'' پھری گئی ہے تب سے جمہوری پرچم کے سائے تلے یہ سب کوّے ایک ہیں۔

تا ہم اقتدار کے پیاسے بعض کوّے پرلے درجے کے احمق بھی ہوتے ہیں ۔ وہ بیچارے پیاس کے مارے جلسے جلوس کر کر کے پھاوے ہو جاتے ہیں مگر اقتدار کا ہُما ان کے خالی سر پر کبھی نہیں بیٹھتا۔ یہ معصوم اپنی باری کے انتظار میں ٹرک کی اُس بتی کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں جو انھیں چند ریٹائرڈ افسران نے دکھائی ہوتی ہے۔ نہ تو یہ ٹرک کبھی رکتا ہے اور نہ ہی یہ پاگل پیاسے کسی منزل تک پہنچتے ہیں۔ البتہ تاریخ میں ان کام نام ایک عظیم الشان''سپائیلر''(SPOILER)کے طور پر ضرور لکھا جاتا ہے!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں