ریاست فیصلہ کرے پاکستان ’زندہ باد‘ ہے یا ’مردہ باد‘

ریاست کو اب جواب دینا ہوگا کہ پاکستان مخالف بات کرنے والوں کے لیے اُس کی پالیسی کیا ہے؟


فہیم پٹیل October 17, 2016
کیا یہ قانون اور ریاستی رٹ کا مذاق نہیں کہ جرم کرنے والے کو تو آج بھی مسلسل سزا مل رہی ہے، لیکن اُس جرم کرنے والے کی وکالت کرنے والے مکمل طور پر آزاد ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر جرم کرنے والا مجرم کہلایا جاتا ہے تو اُس مجرم کا ساتھ دینے والے مجرم کیوں نہیں کہلائے جانے چاہیے؟ یہ سوال الطاف حسین کی غلطی اور اُس غلطی کا دفاع کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ (لندن) کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پوچھا گیا ہے۔

معاملہ یہاں نہ الطاف حسین کی حمایت ہے اور نہ الطاف حسین کی حمایت کرنے والوں کی مخالفت، بلکہ معاملہ تو پاکستان کی بقاء اور عزت کا ہے۔ کیونکہ جس جرم کے نتیجے میں الطاف حسین پر مکمل طور پر پابندی لگ چکی ہے اُس الطاف حسین کے فلسفے کو آگے بڑھانے والوں کو صاف راستہ کیوں اور کون فراہم کررہا ہے؟

سوال تو اُن لوگوں کی وفاداری پر بھی اُٹھتا ہے جو 22 اگست کو پاکستان مخالف تقریر کے دوران خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے لیکن جب اُن کو اِس خوف کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوگیا کہ اب جان کے لالے پڑنے والے ہیں تو اُسی تھالی میں چھید کردیا جس میں کھانا کھایا کرتے تھے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ریاست نے بھی اُن سے یہ بات نہیں پوچھی کہ اگر آپ کو واقعی پاکستان سے اتنی ہی محبت تھی تو اُس وقت آپ کا خون کیوں نہیں کھولا جب پاکستان کو گالیاں دی جارہی تھیں؟ ویسے اگر ذاتی رائے لی جائے تو ایسے تمام لوگ کسی بھی تحریک کے لیے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جو مشکل وقت میں پرانے رفقاء کا ساتھ چھوڑ دیں۔

چلیں ذاتی خیال کو فی الوقت سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور ریاست کی اِس پالیسی کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ اپنی غلطی پر پشیمان ہونے والوں کو غلطی کو سدھارنے کا ایک موقع دینا چاہیے، لیکن اُن لوگوں کے بارے میں ریاست کیوں خاموش ہے جو آج بھی یہ بات بار بار کہتے ہیں کہ،
''اگر ریاست انصاف اور حقوق دینے میں مسلسل ناکام رہے تو ایسے نعرے نکل جایا کرتے ہیں''۔

یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے کہ اگر کسی بچے کو ماں باپ غربت کی وجہ سے دو وقت کی روٹی نہ فراہم کرسکیں تو وہ بیچ سڑک پر اپنے ماں باپ کو گالیاں دینا شروع کردے۔

الطاف حسین پر لگنے والی پابندی کی تو کئی وجوہات ہیں لیکن اُن پر مزید سختی 22 اگست کی تقریر کے بعد ہی ہوئی اور ابتدائی دنوں میں تو صورتحال اِس نہج تک پہنچ گئی تھی کہ اگر کسی نے الطاف حسین کا نام بھی لیا تو اُس کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ لیکن جیسے جیسے دن آگے کی جانب گزر رہے ہیں اِس سختی میں نرمی آتی جارہی ہے۔ آئے روز ہمیں ٹی وی چینلز پر ایم کیو ایم (لندن) کے نمائندے الطاف حسین اور اُن کی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہیں نظر آتے ہیں۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ کیا یہ قانون اور ریاستی رٹ کا مذاق نہیں کہ جرم کرنے والے کو تو آج بھی مسلسل سزا مل رہی ہے، لیکن اُس جرم کرنے والے کی وکالت کرنے والے مکمل طور پر آزاد ہیں۔

یہ سب باتیں کرنے کی بنیادی وجہ 15 اکتوبر کو ایم کیو ایم (لندن) کے نمائندوں کی پریس کلب پر ہونے والی پریس کانفرنس ہے۔ جب اِس پارٹی کے نمائندے پریس کلب پر پہنچنا شروع ہوئے تو خبر آئی کہ رینجرز کی بھاری نفری پریس کلب پہنچ گئی ہے اور خیال تھا کہ پاکستان مخالف باتیں کرنے والوں کو شاید بات کرنے سے روکا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اُن کو اچھے ماحول میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔

سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ 22 اگست سے 15 اکتوبر تک یعنی 53 دنوں میں ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ جن لوگوں کے لیے حیات جرم بن چکی تھی اب اُن کے لیے ماحول تو بتدریج سازگار بنایا جارہا ہے۔ یا تو 22 اگست کی رات سے شروع کیا جانے والا آپریشن غیر قانونی اور ناجائز تھا یا پھر 53 دن بعد دی جانے والی رعایت، لیکن بہرحال ریاست کو اب جواب دینا ہوگا کہ پاکستان مخالف بات کرنے والوں کے لیے اُس کی پالیسی کیا ہے؟

ریاست سے اِس سوال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الطاف حسین ہرگز واحد سیاستدان نہیں ہیں جنہوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے بلکہ اِس سے قبل محمود خان اچکزائی اسمبلی میں آن ریکارڈ یہ بیان دے چکے ہیں اگر اِسی طرح پشتوں پر ظلم و ستم ہوتا رہا تو وہ ہرگز پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔ بات محمود اچکزئی تک بھی نہیں رکتی بلکہ اسفندیار ولی بارہا یہ بات کرچکے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ افغان ہیں اور افغان ہی رہیں گے۔ یہی وہ بیان ہے جس کی بنیاد پر گزشتہ دنوں الطاف حسین کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی کہ اگر اسفندیار ولی افغانی ہیں تو وہ بھی ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی ہی رہیں گے۔

یعنی سادہ سا معاملہ یہ ہوا کہ جب آپ ایک ہی گناہ کرنے پر ایک کو سزا اور دوسرے کو جزا دیں گے تو نفرتیں مزید پڑھیں گی، ایسی صورت میں ہمدردی مزید بڑھے گی۔ اِس لیے ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بات کرنے والے تمام ہی لوگوں کو ایک آنکھ سے دیکھے، اپنی پسند اور نا پسند کے معاملے کو پس پشت رکھے۔ اگر یہ کام نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ کل کو محرومی کے شکار مزید گروہ بھی پاکستان کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرسکتے ہیں۔

آخر میں گزارش اتنی سی ہے اگر ریاست الطاف حسین کو اب بھی مجرم سمجھتی ہے تو اُن لوگوں کو بھی مجرم سمجھے جو الطاف حسین اور اُن کے بیان کے دفاع کے لیے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ بات یہاں تک نہیں رکنی چاہیے بلکہ ماضی میں جن جن لوگوں نے پاکستان کے بارے میں زہر اگلا ہے اُن کو بھی کٹہرے میں لایا جائے، لیکن اگر ایسا نہیں کیا جاسکتا تو پھر ریاست کو چاہیے کہ منافقت کرنے کے بجائے برملا اعلان کردے کہ کوئی بھی محرومی کی وجہ سے پاکستان کی تخلیق کو غلطی اور مردہ آباد کا نعرہ لگاسکتا ہے، ریاست کو اِس بات سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔

[poll id="1245"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں