نئے وزیر اعلیٰ کے نئے عزائم
سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے عزائم بلند اور ارادے نیک ہیں
ہر کہ آمد عمارت نوساخت۔ ہمارے صوبہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے جب سے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے تب ہی سے وہ فارسی کی اس مشہورکہاوت پر عمل پیرا نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلا کام تو انھوں نے سرکاری دفاتر میں وقت کی پابندی کو یقینی بنانے کا انجام دیا۔ ان کے اس فیصلے نے سرکاری ملازمین کی صفوں میں کھلبلی مچا دی کیونکہ غالب اکثریت دیر سے آنے اور اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے کی عادی ہوچکی تھی۔ ہمارے سرکاری دفاتر میں تاخیر سے آنے اور مقررہ وقت سے پہلے چلے جانے کی بدعت برسوں پرانی ہے۔ جس کے نتیجے میں سارا نظام کھوکھلا ہوکر رہ گیا ہے۔ جب بڑے ہی مقررہ اوقات کی پابندی نہیں کریں گے تو ان کے ماتحت کام کرنے والے عملے سے بھلا اس کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے۔ بات بالکل صاف اور سیدھی ہے کہ جیسا راجا ویسی پرجا۔ مراد علی شاہ نے اس سلسلے میں خود کو بطور رول ماڈل پیش کردیا۔ بذات خود دفتری اوقات کی سختی سے پابندی کرکے انھوں نے دوسروں کے لیے ایک قابل تقلید مثال قائم کردی۔
اپنے منصب کا چارج سنبھالتے ہی انھوں نے کراچی شہر کے بے ہنگم اور بے لگام ٹریفک کے نظام کی درستی کے اقدامات بھی شروع کردیے۔ اس سلسلے کا آغاز انھوں نے بہت سے رہائشی اور کمرشل علاقوں میں کار پارکنگ کے لیے مختص جگہوں پر ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ کیا۔ چنانچہ اس اقدام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایس بی سی اے کا محکمہ فوری طور پر حرکت میں آگیا اور اس نے پارکنگ کے لیے ریزرو کی گئی جگہوں پر ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افراد اور کاروباری لوگوں کو نوٹس جاری کرنے شروع کردیے۔
سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے عزائم بلند اور ارادے نیک ہیں وہ ترقی اور اصلاح چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کا صوبہ پسماندگی کی دلدل سے جلدازجلد باہر آکر ترقی کی نئی منازل کی راہ پر گامزن ہوجائے۔ اپنی اس مخلصانہ خواہش کا اظہار وہ کئی مواقعوں پر بلاتکلف اور بالکل واضح الفاظ میں متعدد بار کرچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچی اور بے جا نمود و نمائش کی فرسودہ روایت بھی ختم ہوجائے جس کے لیے وہ ون ڈش کلچر متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ اس اقدام کے نفاذ سے صوبے کی غالب اکثریت سکون و اطمینان کا سانس لے گی جو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے شادی بیاہ کی تقریبات میں کئی کئی ڈشوں کا اہتمام کرنے پر مجبور ہے اور جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے دوسروں سے بھاری رقومات قرض لینی پڑتی ہیں۔ صوبہ سندھ کے سفید پوش عوام نہ صرف وزیر اعلیٰ کے اس اقدام کا خیر مقدم کریں گے بلکہ اس کے عوض انھیں دعائیں بھی دیں گے۔
سندھ اور بالخصوص عروس البلاد کراچی میں شادی بیاہ کی تقریبات میں رات گئے تک تاخیر ایک معمول بن چکی ہے جس کی وجہ سے بعض دیگر مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں جن کی تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں راستے کی لوٹ مار کا سنگین مسئلہ بھی شامل ہے۔ شادی ہالوں میں رات گئے تک بجلی کا بے تحاشہ استعمال بھی اس کا ایک حصہ ہے جب کہ بجلی کے بحران کی وجہ سے لوڈشیڈنگ نے عوام الناس کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ اس تناظر میں شادی بیاہ کی تقریبات کے اختتام کے لیے رات دس بجے کی حد مقرر کرنے سے متعلق وزیر اعلیٰ کا اقدام لائق تحسین ہوگا۔ ممکن ہے کہ چند مخصوص حلقوں میں اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جائے لیکن عوام کی غالب اکثریت اس کی حمایت کرے گی۔ دکانوں کے صبح کھلنے اور شام کو جلد بند ہوجانے سے متعلق اقدام کے حق میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بھی نہ صرف معمولات زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ بجلی کے بے جا ضیاع کی روک تھام کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو کسی حد تک حل کرنے میں آسانی ہوگی۔
نئے وزیر اعلیٰ کی نظر میں صوبے کے بے شمار مسائل موجود ہیں جن میں جیلوں میں قید کاٹنے والے بدقسمت افراد بھی شامل ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جیل خانوں کو اصلاح خانوں کی شکل میں تبدیل کردیا جائے۔ انھوں نے اپنی اس نیک خواہش کا اظہار گزشتہ دنوں سندھ سیکریٹریٹ کی نئی عمارت میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیل کے قیدیوں کو تعلیم سمیت مختلف تعمیراتی سرگرمیوں میں شامل کرکے نہ صرف ان کی کردار سازی اور اصلاح کی جائے بلکہ ان کی صلاحیتوں کو فروغ دے کر ان سے استفادہ بھی کیا جائے۔ انھوں نے صوبہ سندھ کی تمام 25 جیلوں میں قیدیوں کی حد سے زیادہ تعداد کا بھی نوٹس لیا۔ سندھ کی ان جیلوں میں کل 12, 245 قیدیوں کی گنجائش ہے جب کہ ان میں بند قیدیوں کی تعداد 20,308 ہے۔ وزیر اعلیٰ نے چیف سیکریٹری سندھ کو مٹھی اور عمر کوٹ کے اضلاع میں نئے جیل خانے تعمیر کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے جیل خانوں کی تعمیرات کے کام کی ترجیحی بنیاد پر تکمیل کے احکامات بھی جاری کیے۔
سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ نے ملازمتوں پر عرصہ دراز سے عائد کی گئی پابندی بھی بہ یک جنبش قلم ختم کردی۔ ان کا یہ اقدام دو اعتبار سے لائق تحسین ہے کیونکہ ایک جانب اس کے نتیجے میں روزگار کے نئے مواقعے میسر آئیں گے اور بے روزگاری کے سنگین مسئلے کو حل کرنے میں مدد حاصل ہوگی اور دوسری جانب خالی اسامیوں کے پر ہوجانے کے بعد متعلقہ اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ ابھی حال ہی میں وزیر اعلیٰ نے ان تمام 6000 ڈاکٹروں کی بھرتی کے احکامات صادر کردیے ہیں جنھوں نے سندھ پبلک سروس کمیشن کا تحریری امتحان پاس کرلیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد صوبے کے صحت کے نظام کو فعال اور بہتر بنانا ہے تاکہ عوام کے صحت کے مسائل کو جلدازجلد حل کیا جاسکے۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہ بات ان کے علم میں تھی کہ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ہیلتھ ایمرجنسی اسی وجہ سے نافذ کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ مارکیٹ میں غیر معیاری دوائیں بھی فروخت کی جا رہی ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کتنے باخبر اور متحرک ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود میں انھیں کتنی گہری دلچسپی ہے۔ انھوں نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے چیف ڈرگ انسپکٹر کی غفلت پر انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''میری ٹیم میں ایسے کاہل، غفلت کے مرتکب اور نااہل ممبران کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔'' انھوں نے چیف سیکریٹری کو متعلقہ اہل کارکی فوری معطلی کے احکامات جاری کردیے۔
نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سندھ کی بلاتفریق خدمت کے جذبے سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ شہر قائد کو بھی خوبصورت اور سرسبز و شاداب بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی توجہ شہر کے حسن کی بحالی پر مرکوز ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ کراچی کو قومی معیشت میں حب کی حیثیت حاصل ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ 15 سے 29 فیصد تک ہے۔
وزیر اعلیٰ نے یہ بات گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی جس میں عالمی بینک کے 82 ملین ڈالر کے تعاون سے کراچی لائیو ایبل امپروومنٹ پروجیٹ کو حتمی شکل دینے اور پرانے علاقوں کی بحالی کے حوالے سے غور کیا گیا۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی رہنمائی میں کراچی کے مشہور پرانے علاقے پاکستان چوک سے ایمپریس مارکیٹ اور کورنگی و ملیر اضلاع کے بعض علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان علاقوں کے پبلک پارکوں کو بھی بحال کیا جائے گا اور وہاں بینچ نصب کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ گلیوں میں اسٹریٹ لائٹوں کا اہتمام کیا جائے گا اور تاریخی عمارتیں بحال کی جائیں گی۔