سندھ میں مسلم لیگ کا مقام
مسلم لیگ (ن) سے مایوس ہوکر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے عبدالحکیم بلوچ کو ہی پیپلزپارٹی ٹکٹ دے گی
FAISALABAD:
کراچی سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اورموجودہ حکومت ہی کے وزیر مملکت عبدالحکیم بلوچ کا استعفیٰ قبول کرلیا گیا ہے، خالی نشست پر جلد ضمنی انتخاب ہوگا اور کراچی کے دیہی علاقے سے پہلی بار مسلم لیگ (ن) کو ملنے والی یہ نشست آسانی سے پیپلزپارٹی کو مل جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) سے مایوس ہوکر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے عبدالحکیم بلوچ کو ہی پیپلزپارٹی ٹکٹ دے گی اوروہ دوبارہ منتخب ہوکر قومی اسمبلی کے ایوان میں پی پی کی ایک اور نشست بڑھ اور (ن) لیگ کی کم ہوجائے گی۔
اس سے قبل شکارپور سے فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر 2013 میں منتخب ہونے والے رکن سندھ اسمبلی امتیاز احمد شیخ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر سندھ اسمبلی کی نشست اورفنکشنل لیگ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے مشیر کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ جب کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ ہونے اور میاں صاحبان سے مایوس ہوکر سندھ کی ایک اہم سیاسی شخصیت ممتازعلی بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو نے بھی جو وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد اہمیت نہ ملنے پر سابق وزیراعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی نے بھی مسلم لیگ (ن) چھوڑکر اپنی پارٹی بحال کرلی تھی۔ ممتازعلی بھٹو ایک عرصے تک شکایتیں کرتے رہے مگر مسلم لیگ ن کی قیادت نے ان کی شکایات دور نہ کیں تو مایوس ہوکر انھوں نے بھی اپنا سندھ نیشنل فرنٹ بحال کرلیا ہے۔
2013 کے انتخابات میں سندھ کے تین سابق وزرائے اعلیٰ ممتازعلی بھٹو،لیاقت علی جتوئی، ارباب غلام رحیم، فنکشنل لیگ، جتوئی اور شیرازی خاندان کراچی کے بلوچوں، جاموٹوں نے بڑی امیدوں سے مسلم لیگ ن کی حمایت کی تھی جن کے سندھ میں متعدد ارکان قومی وصوبائی اسمبلی میں موجود ہیں مگرپارٹی سے سب کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ این پی پی کے غلام مرتضیٰ جتوئی وفاقی وزیر کے مستعفی ہونے کی خبریں آئی تھیں مگر وہ اور پیر پگارا کے بھائی اب وفاقی کابینہ میں سندھ کی نمایندگی کررہے ہیں مگر ان کی بھی وہ اہمیت نہیں جو پنجاب کے وزیروں کو حاصل ہے جو اکثریت میں ہیں جب کہ بلوچستان اور کے پی کے کی بھی وفاقی کابینہ میں کسی حد تک نمایندگی ہے مگر ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی اور سندھ کی دوسری بڑی شہری آبادی کی وفاقی کابینہ میں کوئی نمایندگی نہیں ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کراچی کے مسلم لیگ (ن) کے تین رہنماؤں نہال ہاشمی، سلیم ضیا اور مشاہد اﷲ خان کو پنجاب سے سینیٹر منتخب کرایا تھا مگر بعد میں کسی ایک کو بھی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں کیا۔سینیٹر مشاہد اﷲ کو وفاقی وزارت دی گئی تھی جو ان کے ایک بیان کی نذر ہوگئی تھی باقی دوکو موقع ہی نہیں دیا گیا۔
سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد اسماعیل راہو، ذوالفقار مرزا کی حمایت سے رکن سندھ اسمبلی بن گئے تھے مگر وفاقی حکومت میں انھیں بھی اہمیت حاصل نہیں، البتہ وزیراعظم کے دورے پر یہ نظر ضرورآجاتے ہیں۔ کراچی کے نہال ہاشمی سندھ کے جنرل سیکریٹری ضرور ہیں مگر سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا عملی طور پر اب کوئی وجود نہیں ہے۔ کراچی کے عرفان اﷲ مروت بھی اب نمایاں نہیں رہے ہیں اور اندرون سندھ کے متعدد اضلاع میں ن لیگ کا کوئی نام لیوا ہی نہیں ہے، سندھ میں جب تک مرحوم پیر پگاڑو زندہ تھے تو مسلم لیگ فنکشنل کی سیاسی سرگرمیاں نظر آجاتی تھیں اور مرحوم خود بھی ایک قومی قدآور اور اہم سیاست دان تھے جن کے بعد ان کے جانشین اور صاحبزادے بھی فنکشنل لیگ کو نہ سنبھال سکے اور اب تو خیر پور اور سانگھڑ اضلاع بھی ان کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ۔ امتیاز شیخ کے بعد شکارپور ضلع کے غوث بخش مہر اور ان کے صاحبزادے شہریار مہر جو قومی وصوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں مسلم لیگ ن سے مایوس ہوکر پیپلزپارٹی میں واپس آسکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) جو سندھ میں حلیم عادل شیخ کی وجہ سے میڈیا میں نظر آجاتی تھی وہ سندھ میں کہیں باقی نہیں رہی اور سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے صاحبزادے اسد جونیجو سندھ میں (ق) لیگ کے برائے نام ہی صدر ہیں اور ق لیگ کے پاس کوئی یوسی ناظم تک موجود نہیں ہے اور سندھ میں (ن)، (ف) اور (ق) تینوں مسلم لیگیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ ق جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت کرچکی ہے جس کے پہلے وزیراعلیٰ علی محمد مہر پیپلزپارٹی میں شامل تھے اور دوسرے ارباب غلام رحیم اب تک مسلم لیگ ن ہی میں ہیں مگر ن لیگ میں انھیں اہمیت نہیں دی گئی وہ بھی مایوس ہیں اور پیپلزپارٹی میں جا نہیں سکتے اور فنکشنل لیگ اپنے خاتمے پرگامزن ہے اس کے موجودہ سربراہ پیر پگاڑو ملکی سیاست میں بھی اپنے والد کی طرح اہمیت کے حامل نہیں ہیں جس کے نتیجے میں (ف) لیگ کا آیندہ صفایا نظر آرہاہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ وفاق اور پنجاب و بلوچستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن سندھ میں ساڑھے تین سالوں میں آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہی ہے جس کے رہنما اپنی قیادت سے مایوس ہیں اور ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی وزارت کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت اور ن لیگ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کی بد تر صورتحال کی ذمے دار اس کی قیادت ہے جس نے ساڑھے تین سالوں میں سندھ میں ن لیگ پر کوئی توجہ نہیں دی، ن لیگی رہنماؤں اور سابق وزرائے اعلیٰ تک کو نظر انداز کیا اور ان کی توجہ صرف پنجاب پر ہے اورعملی طور پر وہ پنجاب کے وزیراعظم بنے ہوئے ہیں جس پر بلاول زرداری نے انھیں کہاہے کہ وہ پورے ملک کے وزیراعظم بنیں اور باقی چھوٹے صوبوں کو نظر انداز نہ کریں۔
یہ درست ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس کے پاس ہو وفاق میں اسی پارٹی کی حکومت ہوسکتی ہے اور باقی تین صوبے مل کر بھی پنجاب کا نعم البدل نہیں ہوسکتے کیوں کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کو 2013 میں واضح کامیابی ملی تھی اور ن لیگ کسی اور صوبے کی محتاج نہیں تھی مگر اب ن لیگ کی قیادت سوچ لے کہ 2018 میں صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے کیوںکہ عمران خان اپنی جارحانہ سیاست سے اس کے لیے پنجاب میں خاص کر مسئلہ بنے رہیںگے اور باقی ڈیڑھ سال نواز شریف کو ہٹوانے کے لیے مکمل زور لگائیںگے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اب ن لیگ کے بعد دوسری بڑی پارٹی بن چکی ہے اور کسی اور صوبے پر عمران خان کی اتنی توجہ نہیں ہے جتنی پنجاب پر ہے۔ پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت کیوں بڑھ رہی ہے اسی پر ن لیگ کی قیادت کو سوچنا چاہیے کچھ وجوہات تو ہیں کہ ن لیگ کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔
ن لیگ کی قیادت کو سندھ میں مسلم لیگ پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وزیراعظم سندھ کو پیپلزپارٹی کے حوالے کرکے بیٹھے ہیں اور سندھ میں پی پی کی مقبولیت تو نہیں مگر سیاسی طاقت بڑھ رہی ہے اور مسلم لیگ ن ختم ہو رہی ہے جس کی لیگی قیادت کو فکر نہیں ہے اور وہ پنجاب پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور خود کو قومی سطح پر برقرار رکھنے کی بجائے پنجاب تک محدود کیے جارہے ہیں۔ ن لیگ کی قیادت نے سندھ پر توجہ دی ہوتی، اپنے لوگوں کی سنی ہوتی تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ وزیراعظم سندھ پر توجہ دیں وگرنہ وہ قومی رہنما نہیں کہلائیں گے۔
کراچی سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اورموجودہ حکومت ہی کے وزیر مملکت عبدالحکیم بلوچ کا استعفیٰ قبول کرلیا گیا ہے، خالی نشست پر جلد ضمنی انتخاب ہوگا اور کراچی کے دیہی علاقے سے پہلی بار مسلم لیگ (ن) کو ملنے والی یہ نشست آسانی سے پیپلزپارٹی کو مل جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) سے مایوس ہوکر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے عبدالحکیم بلوچ کو ہی پیپلزپارٹی ٹکٹ دے گی اوروہ دوبارہ منتخب ہوکر قومی اسمبلی کے ایوان میں پی پی کی ایک اور نشست بڑھ اور (ن) لیگ کی کم ہوجائے گی۔
اس سے قبل شکارپور سے فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر 2013 میں منتخب ہونے والے رکن سندھ اسمبلی امتیاز احمد شیخ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر سندھ اسمبلی کی نشست اورفنکشنل لیگ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے مشیر کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ جب کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ ہونے اور میاں صاحبان سے مایوس ہوکر سندھ کی ایک اہم سیاسی شخصیت ممتازعلی بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو نے بھی جو وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد اہمیت نہ ملنے پر سابق وزیراعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی نے بھی مسلم لیگ (ن) چھوڑکر اپنی پارٹی بحال کرلی تھی۔ ممتازعلی بھٹو ایک عرصے تک شکایتیں کرتے رہے مگر مسلم لیگ ن کی قیادت نے ان کی شکایات دور نہ کیں تو مایوس ہوکر انھوں نے بھی اپنا سندھ نیشنل فرنٹ بحال کرلیا ہے۔
2013 کے انتخابات میں سندھ کے تین سابق وزرائے اعلیٰ ممتازعلی بھٹو،لیاقت علی جتوئی، ارباب غلام رحیم، فنکشنل لیگ، جتوئی اور شیرازی خاندان کراچی کے بلوچوں، جاموٹوں نے بڑی امیدوں سے مسلم لیگ ن کی حمایت کی تھی جن کے سندھ میں متعدد ارکان قومی وصوبائی اسمبلی میں موجود ہیں مگرپارٹی سے سب کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ این پی پی کے غلام مرتضیٰ جتوئی وفاقی وزیر کے مستعفی ہونے کی خبریں آئی تھیں مگر وہ اور پیر پگارا کے بھائی اب وفاقی کابینہ میں سندھ کی نمایندگی کررہے ہیں مگر ان کی بھی وہ اہمیت نہیں جو پنجاب کے وزیروں کو حاصل ہے جو اکثریت میں ہیں جب کہ بلوچستان اور کے پی کے کی بھی وفاقی کابینہ میں کسی حد تک نمایندگی ہے مگر ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی اور سندھ کی دوسری بڑی شہری آبادی کی وفاقی کابینہ میں کوئی نمایندگی نہیں ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کراچی کے مسلم لیگ (ن) کے تین رہنماؤں نہال ہاشمی، سلیم ضیا اور مشاہد اﷲ خان کو پنجاب سے سینیٹر منتخب کرایا تھا مگر بعد میں کسی ایک کو بھی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں کیا۔سینیٹر مشاہد اﷲ کو وفاقی وزارت دی گئی تھی جو ان کے ایک بیان کی نذر ہوگئی تھی باقی دوکو موقع ہی نہیں دیا گیا۔
سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد اسماعیل راہو، ذوالفقار مرزا کی حمایت سے رکن سندھ اسمبلی بن گئے تھے مگر وفاقی حکومت میں انھیں بھی اہمیت حاصل نہیں، البتہ وزیراعظم کے دورے پر یہ نظر ضرورآجاتے ہیں۔ کراچی کے نہال ہاشمی سندھ کے جنرل سیکریٹری ضرور ہیں مگر سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا عملی طور پر اب کوئی وجود نہیں ہے۔ کراچی کے عرفان اﷲ مروت بھی اب نمایاں نہیں رہے ہیں اور اندرون سندھ کے متعدد اضلاع میں ن لیگ کا کوئی نام لیوا ہی نہیں ہے، سندھ میں جب تک مرحوم پیر پگاڑو زندہ تھے تو مسلم لیگ فنکشنل کی سیاسی سرگرمیاں نظر آجاتی تھیں اور مرحوم خود بھی ایک قومی قدآور اور اہم سیاست دان تھے جن کے بعد ان کے جانشین اور صاحبزادے بھی فنکشنل لیگ کو نہ سنبھال سکے اور اب تو خیر پور اور سانگھڑ اضلاع بھی ان کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ۔ امتیاز شیخ کے بعد شکارپور ضلع کے غوث بخش مہر اور ان کے صاحبزادے شہریار مہر جو قومی وصوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں مسلم لیگ ن سے مایوس ہوکر پیپلزپارٹی میں واپس آسکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) جو سندھ میں حلیم عادل شیخ کی وجہ سے میڈیا میں نظر آجاتی تھی وہ سندھ میں کہیں باقی نہیں رہی اور سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے صاحبزادے اسد جونیجو سندھ میں (ق) لیگ کے برائے نام ہی صدر ہیں اور ق لیگ کے پاس کوئی یوسی ناظم تک موجود نہیں ہے اور سندھ میں (ن)، (ف) اور (ق) تینوں مسلم لیگیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ ق جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت کرچکی ہے جس کے پہلے وزیراعلیٰ علی محمد مہر پیپلزپارٹی میں شامل تھے اور دوسرے ارباب غلام رحیم اب تک مسلم لیگ ن ہی میں ہیں مگر ن لیگ میں انھیں اہمیت نہیں دی گئی وہ بھی مایوس ہیں اور پیپلزپارٹی میں جا نہیں سکتے اور فنکشنل لیگ اپنے خاتمے پرگامزن ہے اس کے موجودہ سربراہ پیر پگاڑو ملکی سیاست میں بھی اپنے والد کی طرح اہمیت کے حامل نہیں ہیں جس کے نتیجے میں (ف) لیگ کا آیندہ صفایا نظر آرہاہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ وفاق اور پنجاب و بلوچستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن سندھ میں ساڑھے تین سالوں میں آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہی ہے جس کے رہنما اپنی قیادت سے مایوس ہیں اور ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی وزارت کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت اور ن لیگ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کی بد تر صورتحال کی ذمے دار اس کی قیادت ہے جس نے ساڑھے تین سالوں میں سندھ میں ن لیگ پر کوئی توجہ نہیں دی، ن لیگی رہنماؤں اور سابق وزرائے اعلیٰ تک کو نظر انداز کیا اور ان کی توجہ صرف پنجاب پر ہے اورعملی طور پر وہ پنجاب کے وزیراعظم بنے ہوئے ہیں جس پر بلاول زرداری نے انھیں کہاہے کہ وہ پورے ملک کے وزیراعظم بنیں اور باقی چھوٹے صوبوں کو نظر انداز نہ کریں۔
یہ درست ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس کے پاس ہو وفاق میں اسی پارٹی کی حکومت ہوسکتی ہے اور باقی تین صوبے مل کر بھی پنجاب کا نعم البدل نہیں ہوسکتے کیوں کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کو 2013 میں واضح کامیابی ملی تھی اور ن لیگ کسی اور صوبے کی محتاج نہیں تھی مگر اب ن لیگ کی قیادت سوچ لے کہ 2018 میں صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے کیوںکہ عمران خان اپنی جارحانہ سیاست سے اس کے لیے پنجاب میں خاص کر مسئلہ بنے رہیںگے اور باقی ڈیڑھ سال نواز شریف کو ہٹوانے کے لیے مکمل زور لگائیںگے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اب ن لیگ کے بعد دوسری بڑی پارٹی بن چکی ہے اور کسی اور صوبے پر عمران خان کی اتنی توجہ نہیں ہے جتنی پنجاب پر ہے۔ پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت کیوں بڑھ رہی ہے اسی پر ن لیگ کی قیادت کو سوچنا چاہیے کچھ وجوہات تو ہیں کہ ن لیگ کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔
ن لیگ کی قیادت کو سندھ میں مسلم لیگ پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وزیراعظم سندھ کو پیپلزپارٹی کے حوالے کرکے بیٹھے ہیں اور سندھ میں پی پی کی مقبولیت تو نہیں مگر سیاسی طاقت بڑھ رہی ہے اور مسلم لیگ ن ختم ہو رہی ہے جس کی لیگی قیادت کو فکر نہیں ہے اور وہ پنجاب پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور خود کو قومی سطح پر برقرار رکھنے کی بجائے پنجاب تک محدود کیے جارہے ہیں۔ ن لیگ کی قیادت نے سندھ پر توجہ دی ہوتی، اپنے لوگوں کی سنی ہوتی تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ وزیراعظم سندھ پر توجہ دیں وگرنہ وہ قومی رہنما نہیں کہلائیں گے۔