ٹیچر بادشاہ نہیں۔۔مگر بادشاہ گر
استاد کا احترام طلبا پر فرض ہے کیوںکہ ایک استاد ہی طلبا کو شاہراہ حیات پر دوڑنے کے قابل بناتا ہے
ISLAMABAD:
گئے وقتوں کی بات ہے جب بچے کو استاد کے سپرد کیا جاتا تھا تو والدین کہتے تھے کہ ''ہڈیاں ہماری گوشت تمہارا'' یعنی استاد کوکھلی چھوٹ تھی کہ بچے سے جو دل چاہے سلوک کرے۔ استاد بھی اس کا فائدہ اٹھاکر بچے کی تعلیم اور تربیت کے فرائض سرانجام دیتے تھے اوراگرکہیں اونچ نیچ دیکھ لیتے تو اپنے حق کا فائدہ اٹھانے میں دریغ نہ کرتے لیکن جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جارہا ہے۔
نت نئی اصلاحات بھی متعارف ہوتی جا رہی ہیں اب والدین اپنا بچہ اسکول کے حوالے کرتے ہوئے صاف کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو ہاتھ بھی لگایا تو اچھا نہ ہوگا۔ مارنا تو درکنار ڈانٹنے سے بھی بچوں کی عزت نفس مجروح ہونے لگی جس کی وجہ سے استاد اور شاگرد کے درمیان جو ڈر، خوف، محبت، تعلق داری پروان چڑھتی تھی وہ اب ختم ہونے لگی ہے زیادہ تر بچوں کے ذہن میں یہ بیٹھ گیا ہے کہ جو استاد ہمیں پڑھا رہے ہیں یہ اسکول کے معمولی ملازم ہیں۔
ان سے زیادہ تنخواہ تو ان کے گھرکے ملازمین کو مل رہی ہے اس سوچ کی وجہ سے استاد اور شاگرد کے درمیان رشتہ جو اپنائیت سے بھرپور تھا وہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ استاد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اپنا وقت پورا کرو اور گھر جاؤ۔ اقدار، اخلاقی تربیت کس چڑیا کے نام ہیں؟ یہ نظریہ اب معدوم ہوتا جا رہا ہے کیوںکہ استاد کا احترام، عزت و وقعت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے اس طرح کا رویہ والدین کی وجہ سے پروان چڑھا ہے۔ بے رحمانہ تشدد اور ڈانٹ ڈپٹ میں بہت فرق ہے اگر بچے کے ذہن سے استاد کا ڈر نکل جائے تو احترام بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ بچے خود مختار اور بے ادب ہوجاتے ہیں۔
ایک نامی گرامی کالج میں ایک استاد نے صرف اس لیے اپنی اچھی بھلی جاب چھوڑدی حالانکہ وہاں سے معقول تنخواہ مل رہی تھی ، مگر وہاں ایلیٹ کلاس کے بچے پڑھ رہے تھے جس کی وجہ سے ان کی حرکتوں پر پردہ ڈالنا اور انھیں کچھ نہ کہنا لازم تھا مگر وہ استاد صاحب اس اصول پر کاربند نہ رہ سکے اور انھوں نے مجبور رہنے سے بہتر سمجھا کہ جاب چھوڑ دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک استاد ہوں میرا فرض ہے کہ میں اپنے طالب علموں کو اخلاقی تربیت بھی فراہم کروں ورنہ میں ضمیر کے سامنے شرمندہ رہوںگا۔ طلبا کی ناشائستہ حرکتوں سے اجتناب نہیں برتا جا سکتا۔ اس لیے میں نے ملازمت چھوڑنا منظورکیا مگر ضمیر کے سامنے جوابدہ ہونا منظورنہیں تھا۔
پچھلے دنوں عالمی یوم اساتذہ منایا گیا، جس کی ایک تقریب میں ہمیں بھی جانے کا موقع ملا ، چیمبر آف کامرس اور دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تقریب میں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ شرکا میں بڑی تعداد گورنمنٹ پرائیویٹ اور اسپیشل اسکولزکے اساتذہ کی تھی۔ مقررین میں شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونی ورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ ڈار، اقرأ یونی ورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر زرا وہاب، ماہر تعلیم پروفیسر عنایت علی خاں تھے، تمام مقررین نے اپنی تقریروں میں استاد کے کردار کو سراہا اور تلقین کی کہ اساتذہ کے لیے لازم ہے کہ وہ طلبا کی اخلاقی تربیت میں معاون ثابت ہوں، مشہور سماجی شخصیت محمد صدیق شیخ نے اساتذہ کو بتایاکہ پوری دنیا میں یہ پیشہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی ممالک میں تو ٹیچرزکو باقاعدہ لائسنس لینا پڑتا ہے اور اس لائسنس کو برقرار رکھنے کے لیے تگ ودوکرنا پڑتی ہے۔
استاد کا احترام طلبا پر فرض ہے کیوںکہ ایک استاد ہی طلبا کو شاہراہ حیات پر دوڑنے کے قابل بناتا ہے اسی لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ کردار، اوصاف کو پہچانیں اپنی اہمیت کو سمجھیں اور ایمان داری سے اپنے کام میں لگے رہیں۔
ایک اچھا استاد ہی مستقبل کے اچھے معمار دے سکتا ہے کسی بھی طالب علم کو دیکھ کر اس کے استاد کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر یہ جب ہی ممکن ہے کہ جب تک معاشرہ استاد کے عزت و احترام کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار نہیں لائے گا جب تک عدم توازن برقرار رہے گا ایسے اساتذہ معاشرے میں موجود ہیں جن کے ڈر و خوف سے بعض طلبا اپنے تعلیمی سفر کو جاری نہیں رکھ پاتے اپنا تعلیمی سلسلہ موقوف کردیتے ہیں۔وہ بچے جوکہ معاشرے میں اہم کردار ادا کرسکتے تھے مگر کچھ ناعاقب اندیش استادوں کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ کر غلط اطوار میں پڑچکے ہیں مگر ایسے اساتذہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، ہمارا معاشرہ ایسے استادوں سے بھرا پڑا ہے جو بچوں کے اندر تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر اوصاف بھی پیدا کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ والدین کا بھی فرض ہے کہ اپنے بچوں میں استاد کی محبت، اہمیت اور احترام پیدا کریں اور بے جا حمایت سے گریز کریں۔
ہمارے ایک ملنے والوں کا بچہ قرآن شریف اس لیے مکمل نہ کرسکا کہ انھوں نے قاری صاحب کے مارنے پر اتنا واویلا بچے کے سامنے کیا ، میڈیا کو لانے کی دھمکی دی ،فیس دینے کا احسان جتایا جو کچھ پڑھانے کے دوران چائے وغیرہ دی جاتی تھی اس کو گنوایا مگر بچے سے یہ نہ کہا کہ تم کو یہ سزا تمہارے سبق یاد نہ کرنے پر ملی ہے اگر تم سبق یاد کرلیتے تو کبھی یہ سزا نہ ملتی۔ کاش! والدین بھی بچوں کی بے جا حمایت کرنا چھوڑدیں تو بچے بھی استاد کا احترام کرنا سیکھ جائیں یاد رکھیں ٹیچر بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ بناتا ہے۔
گئے وقتوں کی بات ہے جب بچے کو استاد کے سپرد کیا جاتا تھا تو والدین کہتے تھے کہ ''ہڈیاں ہماری گوشت تمہارا'' یعنی استاد کوکھلی چھوٹ تھی کہ بچے سے جو دل چاہے سلوک کرے۔ استاد بھی اس کا فائدہ اٹھاکر بچے کی تعلیم اور تربیت کے فرائض سرانجام دیتے تھے اوراگرکہیں اونچ نیچ دیکھ لیتے تو اپنے حق کا فائدہ اٹھانے میں دریغ نہ کرتے لیکن جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جارہا ہے۔
نت نئی اصلاحات بھی متعارف ہوتی جا رہی ہیں اب والدین اپنا بچہ اسکول کے حوالے کرتے ہوئے صاف کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو ہاتھ بھی لگایا تو اچھا نہ ہوگا۔ مارنا تو درکنار ڈانٹنے سے بھی بچوں کی عزت نفس مجروح ہونے لگی جس کی وجہ سے استاد اور شاگرد کے درمیان جو ڈر، خوف، محبت، تعلق داری پروان چڑھتی تھی وہ اب ختم ہونے لگی ہے زیادہ تر بچوں کے ذہن میں یہ بیٹھ گیا ہے کہ جو استاد ہمیں پڑھا رہے ہیں یہ اسکول کے معمولی ملازم ہیں۔
ان سے زیادہ تنخواہ تو ان کے گھرکے ملازمین کو مل رہی ہے اس سوچ کی وجہ سے استاد اور شاگرد کے درمیان رشتہ جو اپنائیت سے بھرپور تھا وہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ استاد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اپنا وقت پورا کرو اور گھر جاؤ۔ اقدار، اخلاقی تربیت کس چڑیا کے نام ہیں؟ یہ نظریہ اب معدوم ہوتا جا رہا ہے کیوںکہ استاد کا احترام، عزت و وقعت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے اس طرح کا رویہ والدین کی وجہ سے پروان چڑھا ہے۔ بے رحمانہ تشدد اور ڈانٹ ڈپٹ میں بہت فرق ہے اگر بچے کے ذہن سے استاد کا ڈر نکل جائے تو احترام بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ بچے خود مختار اور بے ادب ہوجاتے ہیں۔
ایک نامی گرامی کالج میں ایک استاد نے صرف اس لیے اپنی اچھی بھلی جاب چھوڑدی حالانکہ وہاں سے معقول تنخواہ مل رہی تھی ، مگر وہاں ایلیٹ کلاس کے بچے پڑھ رہے تھے جس کی وجہ سے ان کی حرکتوں پر پردہ ڈالنا اور انھیں کچھ نہ کہنا لازم تھا مگر وہ استاد صاحب اس اصول پر کاربند نہ رہ سکے اور انھوں نے مجبور رہنے سے بہتر سمجھا کہ جاب چھوڑ دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک استاد ہوں میرا فرض ہے کہ میں اپنے طالب علموں کو اخلاقی تربیت بھی فراہم کروں ورنہ میں ضمیر کے سامنے شرمندہ رہوںگا۔ طلبا کی ناشائستہ حرکتوں سے اجتناب نہیں برتا جا سکتا۔ اس لیے میں نے ملازمت چھوڑنا منظورکیا مگر ضمیر کے سامنے جوابدہ ہونا منظورنہیں تھا۔
پچھلے دنوں عالمی یوم اساتذہ منایا گیا، جس کی ایک تقریب میں ہمیں بھی جانے کا موقع ملا ، چیمبر آف کامرس اور دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تقریب میں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ شرکا میں بڑی تعداد گورنمنٹ پرائیویٹ اور اسپیشل اسکولزکے اساتذہ کی تھی۔ مقررین میں شہید ذوالفقارعلی بھٹو یونی ورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ ڈار، اقرأ یونی ورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر زرا وہاب، ماہر تعلیم پروفیسر عنایت علی خاں تھے، تمام مقررین نے اپنی تقریروں میں استاد کے کردار کو سراہا اور تلقین کی کہ اساتذہ کے لیے لازم ہے کہ وہ طلبا کی اخلاقی تربیت میں معاون ثابت ہوں، مشہور سماجی شخصیت محمد صدیق شیخ نے اساتذہ کو بتایاکہ پوری دنیا میں یہ پیشہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی ممالک میں تو ٹیچرزکو باقاعدہ لائسنس لینا پڑتا ہے اور اس لائسنس کو برقرار رکھنے کے لیے تگ ودوکرنا پڑتی ہے۔
استاد کا احترام طلبا پر فرض ہے کیوںکہ ایک استاد ہی طلبا کو شاہراہ حیات پر دوڑنے کے قابل بناتا ہے اسی لیے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ کردار، اوصاف کو پہچانیں اپنی اہمیت کو سمجھیں اور ایمان داری سے اپنے کام میں لگے رہیں۔
ایک اچھا استاد ہی مستقبل کے اچھے معمار دے سکتا ہے کسی بھی طالب علم کو دیکھ کر اس کے استاد کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر یہ جب ہی ممکن ہے کہ جب تک معاشرہ استاد کے عزت و احترام کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار نہیں لائے گا جب تک عدم توازن برقرار رہے گا ایسے اساتذہ معاشرے میں موجود ہیں جن کے ڈر و خوف سے بعض طلبا اپنے تعلیمی سفر کو جاری نہیں رکھ پاتے اپنا تعلیمی سلسلہ موقوف کردیتے ہیں۔وہ بچے جوکہ معاشرے میں اہم کردار ادا کرسکتے تھے مگر کچھ ناعاقب اندیش استادوں کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ کر غلط اطوار میں پڑچکے ہیں مگر ایسے اساتذہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، ہمارا معاشرہ ایسے استادوں سے بھرا پڑا ہے جو بچوں کے اندر تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر اوصاف بھی پیدا کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ والدین کا بھی فرض ہے کہ اپنے بچوں میں استاد کی محبت، اہمیت اور احترام پیدا کریں اور بے جا حمایت سے گریز کریں۔
ہمارے ایک ملنے والوں کا بچہ قرآن شریف اس لیے مکمل نہ کرسکا کہ انھوں نے قاری صاحب کے مارنے پر اتنا واویلا بچے کے سامنے کیا ، میڈیا کو لانے کی دھمکی دی ،فیس دینے کا احسان جتایا جو کچھ پڑھانے کے دوران چائے وغیرہ دی جاتی تھی اس کو گنوایا مگر بچے سے یہ نہ کہا کہ تم کو یہ سزا تمہارے سبق یاد نہ کرنے پر ملی ہے اگر تم سبق یاد کرلیتے تو کبھی یہ سزا نہ ملتی۔ کاش! والدین بھی بچوں کی بے جا حمایت کرنا چھوڑدیں تو بچے بھی استاد کا احترام کرنا سیکھ جائیں یاد رکھیں ٹیچر بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ بناتا ہے۔