کراچی کبوترچورنگی اور قدیم بستیاں
ضلع جنوبی کوشہرکراچی کے اہم کاروباری اورتجارتی مرکزکی اہمیت حاصل ہے
BANNU:
ضلع جنوبی کوشہرکراچی کے اہم کاروباری اورتجارتی مرکزکی اہمیت حاصل ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس ، سندھ ہائی کورٹ، سٹی کورٹ، سندھ اسمبلی بلڈنگ، سندھ سیکریٹریٹ،کراچی پریس کلب، آرٹس کونسل،اہم تجارتی وکاروباری مراکز، بینکوں کے صدردفاتر اورساحلی پٹی واقع ہے۔ ضلع جنوبی میں قائم اداروں اورتجارتی مراکزکے سبب حکومت کو روزانہ کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔اس ضلع میں ایک سب سے اہم مقام بھی ہے جو اپنی انفرادیت کے سبب ملک بھر میں مشہورہے۔اس مقام کو''کبوتر چورنگی'' کہا جاتا ہے۔ یہ کبوتر چورنگی سندھ ہائی کورٹ، سندھ اسمبلی اورسندھ سیکریٹریٹ کے مرکز میں موجود ہے، اس چورنگی پر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کبوتر دانہ چگنے آتے ہیں۔
شہری ان کبوتروں دانہ ڈالنے آتے ہیں،اندرون ملک سے آنے والے افراد جب کراچی گھومنے آتے ہیں تو تفریحی مقامات کے علاوہ اس چورنگی کا بھی رخ کرتے ہیںاور یہاں آکر قدرتی حسن کا نہ صرف نظارہ کرتے ہیں بلکہ اس ماحول سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شام کے وقت شہریوں کے ساتھ آنے والے بچے سیکڑوں کبوتروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔اس کبوترچورنگی کوانفرادی حیثیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ یہاں تین اہم عمارتیں موجود ہیں جن میں سندھ اسمبلی، سندھ سیکریٹریٹ اورسندھ ہائی کورٹ شامل ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں عوام انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں، سندھ اسمبلی میں شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے، سندھ سیکریٹریٹ میں محکموں میں عوام کی بڑی تعداد مسائل کے حل کے لیے آتے ہیں ۔
کبوتر چورنگی پر رونق ہائی کورٹ اور سیکریٹریٹ کی وجہ سے ہے کیوںکہ شہریوں کی بڑی تعداد جب انصاف کے حصول اور مسائل کے حل کے لیے یہاں آتے ہیں تو ان کی بڑی تعدادکبوتر چورنگی کا رخ کرتی ہے اور مسائل کے حوالے سے متعلقہ حکام سے رابطوں کے بعد کچھ دیر کے لیے چورنگی پر کبوتروں کا دانہ ڈال کر واپس روانہ ہوجاتے ہیں ،گزرتے دنوں کے ساتھ چورنگی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے ۔ یہ کبوتر چورنگی کئی افراد کے روزگارکا بھی سبب بن گئی ہے ، چورنگی کے اطراف دانہ بیچنے والے، فروٹ چاٹ، بن کباب،گنے کا رس ، چائے ، پان بیچنے والوں نے کیبن لگا لیے ہیں۔ ہفتہ اوراتوارکو تعطیل پر چورنگی کی رونق کم ہوجاتی ہے، تاہم گاڑیوں میں آنے والے شہری بھی پرندوں کو دانہ ڈال کرگزرجاتے ہیں ، چھٹی والے دن خواتین اور بچے بھی کبوتروں کو دانہ کھلاتے ہیں ۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس پر سیکیورٹی وجوہات کے باعث سڑک بند کردی جاتی ہے ۔
جس سے شہریوں کو دانہ ڈالنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ زیادہ ترچورنگی پرجنگلی نسل کے کبوتر ہوتے ہیں، جب کہ سفید رنگ کے اعلیٰ نسل کبوتر یہاں کم ہی آتے ہیں ۔ چورنگی پرکبوتر اذان فجرکے بعد آنا شروع ہوتے ہیں،کبوتردن بھر یہاں سے دانہ چگ کر اور پانی پی کرجاتے ہیں ۔کبوتر مغرب تک، اس چورنگی پر جمع رہتے ہیں، سورج غروب ہوتے ہی کبوتر واپس چلے جاتے ہیں ۔کبوتروں کا مسکن ہائی کورٹ بلڈنگ اور سندھ اسمبلی کی بیرکوں کی چھتیں ہیں چورنگی پر شہری طلوع آفتاب کے وقت آکر دانہ ڈالنے لگتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے علاوہ شہریوں کی بڑی تعدادکبوتروں کو دانہ ڈالتی ہے اورکچھ دیر رک کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں،کبوتروں کو دانہ ڈالنے کا سلسلہ نمازفجر کے بعد شروع ہوتا ہے، برنس روڈ کے مقامی افراد بھی کبوتروں کو روزانہ دانہ ڈالتے ہیں ۔
کبوتر چورنگی کی ابتدا 1923ء میں بننے والی عدالتی عمارت جو اب سندھ ہائی کورٹ پر مشتمل چورائے سے شروع ہوتی ہے اس چورنگی پر پہلے گھاس اور چھوٹے چھوٹے پھول دار پودے اگے ہوئے تھے اور یہ عام سی چورنگی تھی لیکن 1985ء کے قریب چورنگی کے نیچے سے زیر زمین پانی کی گزرنے والی لائن میں رساؤ سے چورنگی میں پانی کھڑا ہوجاتا تھا جہاں پرندے اور خاص طور پر کبوترکچھ دیر کے لیے اترتے اور یاس بجھا کر اڑ جاتے۔
مکینوں نے جب کبوتروں کواترتے دیکھا تو باجرہ خرید کر اس مقام پر ڈالنا شروع کردیا۔کبوتروں کی تعداد بڑھنے لگی پھر سٹی گورنمنٹ نے اس مقام پر چورنگی بنا دی، جسے 2002ء میں ماربل لگاکر بیچ میں پانی کا حوض بھی بنا دیا گیا، چورنگی کی تعمیرکے بعد چوک کی اہمیت بڑھتی گئی یہاںکی رونق میں اضافہ ہوتا گیا۔اب یہاں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ روزانہ آکرکبوتروں کودانہ ڈال کرچلے جاتے ہیں۔کبوترچورنگی کے دانہ فروش نماز فجرکے بعد چورنگی کا رخ کرتے ہیں،کبوتروں کوخوراک کی فراہمی کے لیے باجرہ، چاول، چنے کی دال اورمکس دانہ ڈالا جاتا ہے، ہرشخص اپنی حیثیت کے مطابق کبوتروں کو دانہ ڈالتا ہے، شہری 20،50 اور 100روپے کا دانہ ڈالتے ہیں،کبوتر چاول شوق سے چگتے ہیں، چورنگی کے حوض میں شہری ماشکی کو رقم ادا کرکے پانی ڈلواتے ہیں ، مہینے میں ایک بار چورنگی کی صفائی کی جاتی ہے۔ بلاشبہ چرند پرندکو دانہ کھلانا نیکی کا کام ہے، شہری عقیدت کا اظہارکرتے ہوئے کبوتروں کوکھانا کھلاتے ہیں، یہ اچھا عمل ہے۔
سندھ ہائی کورٹ اور سیکریٹریٹ کے سنگم پر واقع اس کبوتر چورنگی کے علاوہ شہرکراچی میں قائداعظم کے مزارکے وی آئی پی گیٹ کی چورنگی،لیاقت آباد 10نمبر، سولجر بازار،ایس ایم لاء کالج اوردیگر مقامات پر کبوتر چوک بن گئے ہیں۔ علاوہ ازیں لیاری ککری گراونڈ اور آرام باغ کے میدان میں بھی کبوتروں کا مجمع لگا رہتا ہے، جہاں شہری روزانہ کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں ۔ اکثر لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر بھی چرند پرند کے لیے دانہ پانی کے باقاعدہ انتظامات کیے ہوئے ہیں بعض لوگ چھتوں پرگوشت اور پھیپھڑے بھی ڈالتے ہیں جنھیں چیل اور کوئے کھاتے ہیں۔
یہ امرباعث اطمینان ہے کہ سندھ حکومت کراچی کو سرسبز اورخوبصورت شہرمیں تبدیل کرنے میں کوشاں ہیں۔ اب قدیمی علاقوں کوخوبصورت بنایا جارہا ہے تاکہ ان علاقوں میں بھی ہرآدمی گھر خریدنے میں دلچپسی لے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان چوک سے ایمپریس مارکیٹ اور کورنگی وملیر اضلاع کے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پاکستان چوک کے علاقوں،ایمپریس مارکیٹ کی فٹ پاتھوں کو بہتربنایا جائے گا اور وہاں پر پیدل چلنے والوں بشمول معذورافراد کی رسائی ہوگی۔
ان علاقوں میں موجود پارکوں کو بحال کیا جائے گا اوربینچ نصب کیے جائیں گے، گلیوں کو اسٹریٹ لائٹ سے مزین کیا جائے گا اورکھلی تاروں کو ڈھکا جائے گا، تاریخی عمارتوں کو بحال کیا جائے گا۔کورنگی اورملیرکے علاقوں کی بحالی کے حوالے سے قائدآباد سے اسٹیل مل ، نواب صدیق علی روڈ سے لسبیلہ تا انڈر پاس ، سنگرچورنگی سے یونس چورنگی تا اسپتال چورنگی تک سڑک،کھوکھرا پار روڈ سے سعودآباد تا ندی اور ملحقہ سڑکیں،کورنگی میں مختلف سڑکیں، سائٹ ایونیو تا پراچہ چوک تا حبیب بینک چورنگی، جنرل ٹائر روڈ سے ٹیکسٹائل مل تا گلوبل ٹیکسٹائل ملز لانڈھی، بہادریارجنگ روڈ تا ڈسٹرکٹ کورنگی اورعظیم پورہ تا شاہراہ الطاف، شاہ فیصل زون تک سڑکوں کو دوبارہ تعمیر اوراپ گریڈ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس منصوبے کی تخمینی لاگت 80 ملین ڈالرہے ۔
جس میں سے سندھ حکومت 20 فیصد برداشت کرے گی جب کہ 80فیصد اخراجات کے لیے فنڈز ورلڈ بینک فراہم کررہا ہے۔ بلاشبہ کراچی کو قومی معیشت میں مرکزی حب کی حیثیت حاصل ہے جس کا جی ڈی پی میں 15سے 29فیصد حصہ ہے مگر اس کی معاشی ترقی بالخصوص شہر کے پرانے علاقوں میں عرصہ دراز سے رفتار سست رہی ہے ۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ بات ہے کہ کراچی گلوبل لیوایبل انڈیکس میں دنیا کے 140اہم شہروں کی فہرست میں 134ویں نمبر پر ہے،اس کی وجہ انفرا اسٹرکچر میں گیپ، بنیادی خدمات اور شہرکا بڑا حصہ ابھی تک غیر ترقی یافتہ ہونا اورتاریخی ورثوں کی ابتر حالت اورعلاقے سرسبز نہ ہونا ہے۔علاوہ ازیں 10ارب روپے کراچی پیکیج کے تحت 18اسکیمیں حتمی مرحلے میں ہیں۔
1.6بلین روپے کی اسکیمیں وزیراعلیٰ سندھ کی خصوصی گرانٹ کے تحت شروع کی گئیں ہیں اورکلفٹن تا صدر بشمول ریڈ زون ایریا ، سڑکوں کی دوبارہ تعمیر اور اپ گریڈ کا کام ہنگامی بنیادوں پرکیا جارہا ہے۔ بلاشبہ مذکورہ بالا ترقیاتی کام باعث ستائش ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی کراچی کے ایسے بہت سے قدیمی علاقے ہیں جہاں شہری سہولیات کا فقدان ہے۔
جن میں لیاری،اولڈ ایریا، کھارادر،کیماڑی، ماڑی پور، منگھوپیر، مواچھ گوٹھ، اندرون ملیر، گڈاپ، چینسرگوٹھ ، پرانا گولی مار، جہاں آباد، شیرشاہ، ابراہیم حیدری وغیرہ شامل ہیں۔ان علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر ترقیاتی کاموں اورشہری سہولیات کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت کراچی میں تمام ترقیاتی کام پہلے سے ترقی یافتہ علاقوں میں کیے جارہے ہیں اور ماضی قریب میںسٹی حکومت میں بھی انھی ترقی یافتہ علاقوں پر نظرکرم کرتی رہی ہے اور قدیمی علاقوں کو نظر اندازکیا جاتا رہا ہے جو سراسر ان پرانے علاقوں کے ساتھ زیادتی والی بات ہے۔ یہی وہ علاقے ہیں جن کے رہائشی غریب محنت کش ہیں جو ایک طویل عرصے سے اپنی قسمت بدلنے کے سنہرے خواب دیکھتے آئے ہیں۔اب تو ان کے خوابوں کو تعبیرملنی چاہیے۔
ضلع جنوبی کوشہرکراچی کے اہم کاروباری اورتجارتی مرکزکی اہمیت حاصل ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس ، سندھ ہائی کورٹ، سٹی کورٹ، سندھ اسمبلی بلڈنگ، سندھ سیکریٹریٹ،کراچی پریس کلب، آرٹس کونسل،اہم تجارتی وکاروباری مراکز، بینکوں کے صدردفاتر اورساحلی پٹی واقع ہے۔ ضلع جنوبی میں قائم اداروں اورتجارتی مراکزکے سبب حکومت کو روزانہ کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔اس ضلع میں ایک سب سے اہم مقام بھی ہے جو اپنی انفرادیت کے سبب ملک بھر میں مشہورہے۔اس مقام کو''کبوتر چورنگی'' کہا جاتا ہے۔ یہ کبوتر چورنگی سندھ ہائی کورٹ، سندھ اسمبلی اورسندھ سیکریٹریٹ کے مرکز میں موجود ہے، اس چورنگی پر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کبوتر دانہ چگنے آتے ہیں۔
شہری ان کبوتروں دانہ ڈالنے آتے ہیں،اندرون ملک سے آنے والے افراد جب کراچی گھومنے آتے ہیں تو تفریحی مقامات کے علاوہ اس چورنگی کا بھی رخ کرتے ہیںاور یہاں آکر قدرتی حسن کا نہ صرف نظارہ کرتے ہیں بلکہ اس ماحول سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شام کے وقت شہریوں کے ساتھ آنے والے بچے سیکڑوں کبوتروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔اس کبوترچورنگی کوانفرادی حیثیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ یہاں تین اہم عمارتیں موجود ہیں جن میں سندھ اسمبلی، سندھ سیکریٹریٹ اورسندھ ہائی کورٹ شامل ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں عوام انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں، سندھ اسمبلی میں شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے، سندھ سیکریٹریٹ میں محکموں میں عوام کی بڑی تعداد مسائل کے حل کے لیے آتے ہیں ۔
کبوتر چورنگی پر رونق ہائی کورٹ اور سیکریٹریٹ کی وجہ سے ہے کیوںکہ شہریوں کی بڑی تعداد جب انصاف کے حصول اور مسائل کے حل کے لیے یہاں آتے ہیں تو ان کی بڑی تعدادکبوتر چورنگی کا رخ کرتی ہے اور مسائل کے حوالے سے متعلقہ حکام سے رابطوں کے بعد کچھ دیر کے لیے چورنگی پر کبوتروں کا دانہ ڈال کر واپس روانہ ہوجاتے ہیں ،گزرتے دنوں کے ساتھ چورنگی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے ۔ یہ کبوتر چورنگی کئی افراد کے روزگارکا بھی سبب بن گئی ہے ، چورنگی کے اطراف دانہ بیچنے والے، فروٹ چاٹ، بن کباب،گنے کا رس ، چائے ، پان بیچنے والوں نے کیبن لگا لیے ہیں۔ ہفتہ اوراتوارکو تعطیل پر چورنگی کی رونق کم ہوجاتی ہے، تاہم گاڑیوں میں آنے والے شہری بھی پرندوں کو دانہ ڈال کرگزرجاتے ہیں ، چھٹی والے دن خواتین اور بچے بھی کبوتروں کو دانہ کھلاتے ہیں ۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس پر سیکیورٹی وجوہات کے باعث سڑک بند کردی جاتی ہے ۔
جس سے شہریوں کو دانہ ڈالنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ زیادہ ترچورنگی پرجنگلی نسل کے کبوتر ہوتے ہیں، جب کہ سفید رنگ کے اعلیٰ نسل کبوتر یہاں کم ہی آتے ہیں ۔ چورنگی پرکبوتر اذان فجرکے بعد آنا شروع ہوتے ہیں،کبوتردن بھر یہاں سے دانہ چگ کر اور پانی پی کرجاتے ہیں ۔کبوتر مغرب تک، اس چورنگی پر جمع رہتے ہیں، سورج غروب ہوتے ہی کبوتر واپس چلے جاتے ہیں ۔کبوتروں کا مسکن ہائی کورٹ بلڈنگ اور سندھ اسمبلی کی بیرکوں کی چھتیں ہیں چورنگی پر شہری طلوع آفتاب کے وقت آکر دانہ ڈالنے لگتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے علاوہ شہریوں کی بڑی تعدادکبوتروں کو دانہ ڈالتی ہے اورکچھ دیر رک کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں،کبوتروں کو دانہ ڈالنے کا سلسلہ نمازفجر کے بعد شروع ہوتا ہے، برنس روڈ کے مقامی افراد بھی کبوتروں کو روزانہ دانہ ڈالتے ہیں ۔
کبوتر چورنگی کی ابتدا 1923ء میں بننے والی عدالتی عمارت جو اب سندھ ہائی کورٹ پر مشتمل چورائے سے شروع ہوتی ہے اس چورنگی پر پہلے گھاس اور چھوٹے چھوٹے پھول دار پودے اگے ہوئے تھے اور یہ عام سی چورنگی تھی لیکن 1985ء کے قریب چورنگی کے نیچے سے زیر زمین پانی کی گزرنے والی لائن میں رساؤ سے چورنگی میں پانی کھڑا ہوجاتا تھا جہاں پرندے اور خاص طور پر کبوترکچھ دیر کے لیے اترتے اور یاس بجھا کر اڑ جاتے۔
مکینوں نے جب کبوتروں کواترتے دیکھا تو باجرہ خرید کر اس مقام پر ڈالنا شروع کردیا۔کبوتروں کی تعداد بڑھنے لگی پھر سٹی گورنمنٹ نے اس مقام پر چورنگی بنا دی، جسے 2002ء میں ماربل لگاکر بیچ میں پانی کا حوض بھی بنا دیا گیا، چورنگی کی تعمیرکے بعد چوک کی اہمیت بڑھتی گئی یہاںکی رونق میں اضافہ ہوتا گیا۔اب یہاں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ روزانہ آکرکبوتروں کودانہ ڈال کرچلے جاتے ہیں۔کبوترچورنگی کے دانہ فروش نماز فجرکے بعد چورنگی کا رخ کرتے ہیں،کبوتروں کوخوراک کی فراہمی کے لیے باجرہ، چاول، چنے کی دال اورمکس دانہ ڈالا جاتا ہے، ہرشخص اپنی حیثیت کے مطابق کبوتروں کو دانہ ڈالتا ہے، شہری 20،50 اور 100روپے کا دانہ ڈالتے ہیں،کبوتر چاول شوق سے چگتے ہیں، چورنگی کے حوض میں شہری ماشکی کو رقم ادا کرکے پانی ڈلواتے ہیں ، مہینے میں ایک بار چورنگی کی صفائی کی جاتی ہے۔ بلاشبہ چرند پرندکو دانہ کھلانا نیکی کا کام ہے، شہری عقیدت کا اظہارکرتے ہوئے کبوتروں کوکھانا کھلاتے ہیں، یہ اچھا عمل ہے۔
سندھ ہائی کورٹ اور سیکریٹریٹ کے سنگم پر واقع اس کبوتر چورنگی کے علاوہ شہرکراچی میں قائداعظم کے مزارکے وی آئی پی گیٹ کی چورنگی،لیاقت آباد 10نمبر، سولجر بازار،ایس ایم لاء کالج اوردیگر مقامات پر کبوتر چوک بن گئے ہیں۔ علاوہ ازیں لیاری ککری گراونڈ اور آرام باغ کے میدان میں بھی کبوتروں کا مجمع لگا رہتا ہے، جہاں شہری روزانہ کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں ۔ اکثر لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر بھی چرند پرند کے لیے دانہ پانی کے باقاعدہ انتظامات کیے ہوئے ہیں بعض لوگ چھتوں پرگوشت اور پھیپھڑے بھی ڈالتے ہیں جنھیں چیل اور کوئے کھاتے ہیں۔
یہ امرباعث اطمینان ہے کہ سندھ حکومت کراچی کو سرسبز اورخوبصورت شہرمیں تبدیل کرنے میں کوشاں ہیں۔ اب قدیمی علاقوں کوخوبصورت بنایا جارہا ہے تاکہ ان علاقوں میں بھی ہرآدمی گھر خریدنے میں دلچپسی لے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان چوک سے ایمپریس مارکیٹ اور کورنگی وملیر اضلاع کے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پاکستان چوک کے علاقوں،ایمپریس مارکیٹ کی فٹ پاتھوں کو بہتربنایا جائے گا اور وہاں پر پیدل چلنے والوں بشمول معذورافراد کی رسائی ہوگی۔
ان علاقوں میں موجود پارکوں کو بحال کیا جائے گا اوربینچ نصب کیے جائیں گے، گلیوں کو اسٹریٹ لائٹ سے مزین کیا جائے گا اورکھلی تاروں کو ڈھکا جائے گا، تاریخی عمارتوں کو بحال کیا جائے گا۔کورنگی اورملیرکے علاقوں کی بحالی کے حوالے سے قائدآباد سے اسٹیل مل ، نواب صدیق علی روڈ سے لسبیلہ تا انڈر پاس ، سنگرچورنگی سے یونس چورنگی تا اسپتال چورنگی تک سڑک،کھوکھرا پار روڈ سے سعودآباد تا ندی اور ملحقہ سڑکیں،کورنگی میں مختلف سڑکیں، سائٹ ایونیو تا پراچہ چوک تا حبیب بینک چورنگی، جنرل ٹائر روڈ سے ٹیکسٹائل مل تا گلوبل ٹیکسٹائل ملز لانڈھی، بہادریارجنگ روڈ تا ڈسٹرکٹ کورنگی اورعظیم پورہ تا شاہراہ الطاف، شاہ فیصل زون تک سڑکوں کو دوبارہ تعمیر اوراپ گریڈ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس منصوبے کی تخمینی لاگت 80 ملین ڈالرہے ۔
جس میں سے سندھ حکومت 20 فیصد برداشت کرے گی جب کہ 80فیصد اخراجات کے لیے فنڈز ورلڈ بینک فراہم کررہا ہے۔ بلاشبہ کراچی کو قومی معیشت میں مرکزی حب کی حیثیت حاصل ہے جس کا جی ڈی پی میں 15سے 29فیصد حصہ ہے مگر اس کی معاشی ترقی بالخصوص شہر کے پرانے علاقوں میں عرصہ دراز سے رفتار سست رہی ہے ۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ بات ہے کہ کراچی گلوبل لیوایبل انڈیکس میں دنیا کے 140اہم شہروں کی فہرست میں 134ویں نمبر پر ہے،اس کی وجہ انفرا اسٹرکچر میں گیپ، بنیادی خدمات اور شہرکا بڑا حصہ ابھی تک غیر ترقی یافتہ ہونا اورتاریخی ورثوں کی ابتر حالت اورعلاقے سرسبز نہ ہونا ہے۔علاوہ ازیں 10ارب روپے کراچی پیکیج کے تحت 18اسکیمیں حتمی مرحلے میں ہیں۔
1.6بلین روپے کی اسکیمیں وزیراعلیٰ سندھ کی خصوصی گرانٹ کے تحت شروع کی گئیں ہیں اورکلفٹن تا صدر بشمول ریڈ زون ایریا ، سڑکوں کی دوبارہ تعمیر اور اپ گریڈ کا کام ہنگامی بنیادوں پرکیا جارہا ہے۔ بلاشبہ مذکورہ بالا ترقیاتی کام باعث ستائش ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی کراچی کے ایسے بہت سے قدیمی علاقے ہیں جہاں شہری سہولیات کا فقدان ہے۔
جن میں لیاری،اولڈ ایریا، کھارادر،کیماڑی، ماڑی پور، منگھوپیر، مواچھ گوٹھ، اندرون ملیر، گڈاپ، چینسرگوٹھ ، پرانا گولی مار، جہاں آباد، شیرشاہ، ابراہیم حیدری وغیرہ شامل ہیں۔ان علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر ترقیاتی کاموں اورشہری سہولیات کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت کراچی میں تمام ترقیاتی کام پہلے سے ترقی یافتہ علاقوں میں کیے جارہے ہیں اور ماضی قریب میںسٹی حکومت میں بھی انھی ترقی یافتہ علاقوں پر نظرکرم کرتی رہی ہے اور قدیمی علاقوں کو نظر اندازکیا جاتا رہا ہے جو سراسر ان پرانے علاقوں کے ساتھ زیادتی والی بات ہے۔ یہی وہ علاقے ہیں جن کے رہائشی غریب محنت کش ہیں جو ایک طویل عرصے سے اپنی قسمت بدلنے کے سنہرے خواب دیکھتے آئے ہیں۔اب تو ان کے خوابوں کو تعبیرملنی چاہیے۔