’میرا نام ہے گوہر جان ‘ آخری حصہ
ملکہ جان بہت روئیں پیٹیں لیکن اب کیا ہوتا جب چڑیا چُگ گئیں کھیت
گوہر جان کلکتے والی کی زندگی کو وکرم سمپتھ نے جس انداز میں بیان کیا ہے، اس کی ابتدا داستانِ عیش و طرب ہے اور اس کا انجام فسانہ ٔ عبرت۔ وہ بچی جس کی تعلیم و تربیت اور رقص و موسیقی میں یکتا کرنے پر ملکہ جان بڑی نے دولت لٹائی تھی، جس کے 'لانچ' کی تیاریاں تھیں اور بڑے بڑے اُمراء جس کی خاطر دولت نثار کرنے کے لیے بے قرار تھے، یہ 1886 تھا جب اس کی تیرھویں سالگرہ چت پور ہاؤس میں بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔
اس میں کلکتہ کے بڑے رئیس اور بائیاں شامل تھیں اور علاقے کے ایک مشہور اور عیاش رئیس راجہ خیرا گڑھ بھی موجود تھے۔ شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی اور تمام لوگ اس میں نہا رہے تھے۔ بڈھے اور عیاش راجہ نے سب کی مدہوشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیرہ برس کی گوہر پر ہاتھ صاف کیا۔ ملکہ جان بہت روئیں پیٹیں لیکن اب کیا ہوتا جب چڑیا چُگ گئیں کھیت۔
گوہر پر شدید یاسیت کا دورہ پڑا اور اس سے نکالنے کے لیے ماں نے سو تدبیریں کیں۔ ساتھ لے کر بڑی بڑی محفلوں میں جانے لگیں۔ آخر کار مہاراجہ صاحب در بھنگہ کے نام قرعۂ فال کھلا۔ گوہر نے وہاں پہلی مرتبہ اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور محفل لوٹ لے گئیں۔ انھیں جو بیش قیمت انعامات اور تحائف ملے اس سے کہیں بڑا انعام اور اعزاز 'جان' کا خطاب تھا جو مہاراجہ نے انھیں عنایت کیا۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ 'گوہر جان' کہی گئیں۔
مہاراجہ در بھنگہ کی محفل نے بڑے بڑے رئیسوں کا دل لوٹ لیا اور ان پر جلسوں کے دعوت نامے برسنے لگے۔ ملکہ جان بڑی کارزار حیات میں ایک طویل عرصہ گزار چکی تھیں۔ انھوں نے 'گوہر جان' کو فنی زندگی کو اپنے حسابوں سلیقے سے گزارنے کی تدبیر کی۔ لیکن تدبیر کے آگے تقدیر ہار جاتی ہے سو یہاں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا۔
عین اسی زمانے میں چند جرمن ماہرین نے ہندوستان کا رخ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان جو کروڑوں کی آبادی تھا اور جہاں کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ہی نیم کلاسیکی موسیقی کے عشاق کی کمی نہ تھی، وہاں اس نئی ٹیکنالوجی کی یقینا بہت پذیرائی ہو سکتی تھی۔
بڑے بڑے فنکاروں کے خیال میں یہ ناممکن تھا کہ وہ اس 'ڈسکو گرافی' کے سامنے سپر ڈالیں اور اپنی گائیکی کو محض تین یا سوا تین منٹ کے دورانیے میں ان جرمنوں کی لائی ہوئی نئی ایجاد کی نذر کریں۔ یہ ایجاد جو عوامی زبان میں 'کالا توا' کہلاتی تھی، دراصل گرامو فون ریکارڈ تھے جنہوں نے ہندوستان میں کلاسیکی یا نیم کلاسیکی موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔
بڑے بڑے گائیکوں کا خیال تھا کہ اس طرح ان کی آواز کا جادو برباد ہو جائے گا لیکن جب یہ پیشکش گوہر جان کو ہوئی تو انھوں نے اسے سر آنکھوں پر لیا اور اس زمانے کی زبان میں ان کے توے کٹنے لگے۔ وکرم کی تحقیق کے مطابق گوہر جان کے 166 ریکارڈ بنے جو سارے ہندوستان اور اس سے باہر بھی بہت مقبول ہوئے انھوں نے ہندوستانی یا اردو کے علاوہ بنگالی، پنجابی، مدراسی، برمی، عربی، کچھی، ترکی، سنسکرت، تلیگو اور فارسی کے علاوہ پشتو میں بھی چند گیت گائے۔
گوہر جان کا یہ وہ فیصلہ تھا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ موسیقی کے ہر رسیا کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ گوہر جان کا 'جلسہ' سن سکے لیکن یہ اس کے بس میں تھا کہ وہ گراموفون اور گراموفون ریکارڈ خرید کر اپنے ذوق کی تسکین کرے۔ موسیقی کے شوقین حضرات اپنی حویلیوں اور کوٹھیوں میں اپنے دوستوں اور کن رس حضرات کو مدعو کرتے۔ سفید چاندنی پر نہایت احترام اور اہتمام کے ساتھ گراموفون رکھا جاتا جو ان دنوں باجا کہلاتا تھا اور جب اس میں سے گوہر جان یا زہرہ بائی انبالے والی اور دوسرے موسیقاروں کی آوازیں آتیں تو اسے وہ قدرت کا تماشہ کہتے۔ انھیں اندازہ نہ تھا کہ ابھی ان کی اولادوں کو قدرت کے کیسے کیسے تماشے دکھانے ہیں۔
نصف انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی ہماری تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کی سب سے شاندار اور دل کش نگار خانہ سجانے والی قرۃالعین حیدر ہیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ملکہ جان بڑی اور گوہر جان کلکتے والی جیسی دلربا خواتین ان کے جادو اثر قلم سے بچ کر نکل جاتیں۔ گوہر جان کے بارے میں وہ اپنے ایک کردار کی زبان سے یہ کہلواتی ہیں کہ بمبئی میں، آنٹ گوہر نے ٹاؤن ہال کے کسی چیرٹی شو میں گایا تھا۔ سر فیروز شاہ مہتہ نے اسٹیج پر آکر ان کی بے حد تعریف کی۔
جواباً انھوں نے بڑھیا انگریزی میں یورپین میوزک پر ایک تقریر کر ڈالی۔ وہ عربی داں بھی تھیں کیونکہ کلکتہ میں بغدادی یہودی تاجروں کی کثرت تھی اور وہ لوگ ہندوستانی موسیقی کے بہت دلدادہ تھے۔ جن دنوں ایک ایرانی ان کا محبوب دل نواز تھا، وہ فرفر فارسی اڑاتیں۔ بنگالی فرنچ اور انگریزی گانے خوب گاتی تھیں۔ شاندار اور مدمغ اطالوی PRIMA DONNA معلوم ہوتی تھیں۔
گھنگر یالے چوکلیٹ براؤن بالوں کی الٹی چوٹی۔ چوڑی دار پاجامہ۔ جب وہ گاتی تھیں والیان ریاست ان کے اوپر سے جواہرات نچھاور کرتے۔ ان کی تو آیا تک ہمیشہ بنارسی ساڑیاں باندھتی تھی۔ سونے کا خاصدان لیے ان کے پیچھے چلتی۔ ان کے طبلچی ہیرے کی انگوٹھیاں پہنتے تھے۔ بچپن میں، میں اکثر ان کے ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں بیٹھی رہتی جب وہ رؤسا کو گانا سناتی تھیں۔ سامعین بڑے بڑے چیک کاٹ کر ان کو دیتے۔ وہ باہر جاتی تھیں مسلح باڈی گارڈ ساتھ ہوتے۔''دھرم تلے میں اکی کوٹھی کے پھاٹک پر دوسنگی شیر بنے ہوئے تھے۔ خود بھی شیرنی سی لگتی تھیں۔ دبنگ ۔شاندار۔''
''حامد علی خاں نواب رامپور ان کے بڑے قدر دان تھے۔ وہ محل کے اندر بھی بلائی جاتی تھیں۔ بیگمات ان کی دلچسپ گفتگو بڑے شوق سے سنتیں۔
''ہرہائی نس فاروقی بیگم صاحبہ پٹھان تھیں۔ گوہر کی دلیری بہت سراہتیں۔ شاید پرنس آف ویلز یا ڈیوک آف کناٹ یاد نہیں بہر حال وہ لنگڑے شہزادے کہلاتے تھے، رامپور آئے۔ ایوننگ گاؤن اور ہیرے جڑے موزے پہن کر گوہر نے ان کے ساتھ بال روم رقص کیا۔ اسی محل میں جو اب رضا لائبریری ہے۔
''نواب حامد علی خان نے انگلش پرنس کے لیے ایک پلے اسٹیج کروایا۔ گوہر ہیروئن بنی۔ ہزہائی نس کہا کرتے تھے کیا کروں گوہر تم موٹی بہت ہو ورنہ تم پر عاشق ہو جاتا۔ ایک بار نواب صاحب نے گوہر ڈے منایا۔ سوٰ سوٰ روپیے ٹکٹ۔ ستر ہزار روپیہ لے کر کلکتہ لوٹیں۔
''ان کا ایک فیورٹ گیت وہ نرت سے گاتی تھیں۔ ترچھی نگاہوں کی برچھی۔ جگر پہ ماری۔ لگی ایسی کاری، ارے ہم نے ملائی جو نظر آنکھوں سے...
11 19 کی بڑی نمائش میں الٰہ آباد گئیں۔ اکبرؔ نے کہا خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوہر کے سوا۔ سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا۔ چنانچہ ایک ایرانی سے نکاح کر لیا۔ اکبر نے فوراً ارشاد کیا
مرد خلیج فارس، گیسو ہیں جس کے کالے۔ گوہر نے آب اپنی کر دی جسے حوالے۔
اس واقعے کو شاعر سانچے میں کیسے ڈھالے۔ ارے وہ آغا صاحب ابھی ابھی میرے تصور میں آ گئے۔ عباس نام تھا نہایت شکیل۔ ہر وقت مالا پھیرا کرتے۔ ایسا لگا جیسے اپنی تسبیح عقیق سنبھالے اس پر دے کے پیچھے سے نکل آئینگے۔ انھوں نے گوہر کو بہت دکھ دیے۔ حسین، ذہین، مشہور اور خود مختار عورتوں کو ان کے دلنواز محبوب کیسی کیسی اذیتیں نہیں دیتے۔ یہ کوئی گوہر جان ایسی مالدار عورت سے پوچھے۔کیسی المناک بات ہے کہ وہ عورت جو خود اس قدر پڑھی لکھی اور باشعور تھی اس کی آخری عمر مقدموں میں کٹی اور مقدمے بھی جھوٹے۔ ان سے وہ باعزت بری تو ہوگئیں لیکن تمام دولت ہوا کے ساتھ اڑگئی۔
''پھر بھی اس عہد کے لحاظ سے گوہر نے بہت عزت حاصل کی۔ والیانِ ریاست کے درباروں میں ان کو کرسی ملتی تھی۔ بڑی AWARE بیوی تھیں۔ ان کے ڈرائنگ روم میں طرح طرح کے اخبار رکھے رہتے تھے۔ کلکتہ کے سرداؤد سیسون کا عبرانی اخبار جو عربی رسم الخط میں کلکتے کے بغدادی یہودیوں کے لیے چھپتا تھا وہ بھی پڑھتی تھیں۔ کلکتہ کا فارسی اخبار حبل المتین، شہر کے ارمنی اور انگریزی اخبار سب میں نے انھیں پڑھتے دیکھا۔ ان کے یہاں سے میں انگریزی فلمی رسالے مانگ لایا کرتی تھی۔ نیو یارک کا مو ویز ویکلی۔ لندن کا بائیسکوپ اور پکچر شو اور ڈراما۔''
وکرم نے لکھا ہندوستانی موسیقی کی ملکہ مس گوہر جان کلکتے والی، وہ پہلی ہندوستانی آواز جس کا ریکارڈ بنا، کلکتہ کی کوئل 17 جنوری 1930 کو اس جہان سے گزری اور بقول وکرم تلاش بسیار کے باوجود اس کی قبر اسے میسور شہر کے کسی قبرستان میں نہیں ملی۔
اس میں کلکتہ کے بڑے رئیس اور بائیاں شامل تھیں اور علاقے کے ایک مشہور اور عیاش رئیس راجہ خیرا گڑھ بھی موجود تھے۔ شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی اور تمام لوگ اس میں نہا رہے تھے۔ بڈھے اور عیاش راجہ نے سب کی مدہوشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیرہ برس کی گوہر پر ہاتھ صاف کیا۔ ملکہ جان بہت روئیں پیٹیں لیکن اب کیا ہوتا جب چڑیا چُگ گئیں کھیت۔
گوہر پر شدید یاسیت کا دورہ پڑا اور اس سے نکالنے کے لیے ماں نے سو تدبیریں کیں۔ ساتھ لے کر بڑی بڑی محفلوں میں جانے لگیں۔ آخر کار مہاراجہ صاحب در بھنگہ کے نام قرعۂ فال کھلا۔ گوہر نے وہاں پہلی مرتبہ اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور محفل لوٹ لے گئیں۔ انھیں جو بیش قیمت انعامات اور تحائف ملے اس سے کہیں بڑا انعام اور اعزاز 'جان' کا خطاب تھا جو مہاراجہ نے انھیں عنایت کیا۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ 'گوہر جان' کہی گئیں۔
مہاراجہ در بھنگہ کی محفل نے بڑے بڑے رئیسوں کا دل لوٹ لیا اور ان پر جلسوں کے دعوت نامے برسنے لگے۔ ملکہ جان بڑی کارزار حیات میں ایک طویل عرصہ گزار چکی تھیں۔ انھوں نے 'گوہر جان' کو فنی زندگی کو اپنے حسابوں سلیقے سے گزارنے کی تدبیر کی۔ لیکن تدبیر کے آگے تقدیر ہار جاتی ہے سو یہاں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا۔
عین اسی زمانے میں چند جرمن ماہرین نے ہندوستان کا رخ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان جو کروڑوں کی آبادی تھا اور جہاں کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ہی نیم کلاسیکی موسیقی کے عشاق کی کمی نہ تھی، وہاں اس نئی ٹیکنالوجی کی یقینا بہت پذیرائی ہو سکتی تھی۔
بڑے بڑے فنکاروں کے خیال میں یہ ناممکن تھا کہ وہ اس 'ڈسکو گرافی' کے سامنے سپر ڈالیں اور اپنی گائیکی کو محض تین یا سوا تین منٹ کے دورانیے میں ان جرمنوں کی لائی ہوئی نئی ایجاد کی نذر کریں۔ یہ ایجاد جو عوامی زبان میں 'کالا توا' کہلاتی تھی، دراصل گرامو فون ریکارڈ تھے جنہوں نے ہندوستان میں کلاسیکی یا نیم کلاسیکی موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔
بڑے بڑے گائیکوں کا خیال تھا کہ اس طرح ان کی آواز کا جادو برباد ہو جائے گا لیکن جب یہ پیشکش گوہر جان کو ہوئی تو انھوں نے اسے سر آنکھوں پر لیا اور اس زمانے کی زبان میں ان کے توے کٹنے لگے۔ وکرم کی تحقیق کے مطابق گوہر جان کے 166 ریکارڈ بنے جو سارے ہندوستان اور اس سے باہر بھی بہت مقبول ہوئے انھوں نے ہندوستانی یا اردو کے علاوہ بنگالی، پنجابی، مدراسی، برمی، عربی، کچھی، ترکی، سنسکرت، تلیگو اور فارسی کے علاوہ پشتو میں بھی چند گیت گائے۔
گوہر جان کا یہ وہ فیصلہ تھا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ موسیقی کے ہر رسیا کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ گوہر جان کا 'جلسہ' سن سکے لیکن یہ اس کے بس میں تھا کہ وہ گراموفون اور گراموفون ریکارڈ خرید کر اپنے ذوق کی تسکین کرے۔ موسیقی کے شوقین حضرات اپنی حویلیوں اور کوٹھیوں میں اپنے دوستوں اور کن رس حضرات کو مدعو کرتے۔ سفید چاندنی پر نہایت احترام اور اہتمام کے ساتھ گراموفون رکھا جاتا جو ان دنوں باجا کہلاتا تھا اور جب اس میں سے گوہر جان یا زہرہ بائی انبالے والی اور دوسرے موسیقاروں کی آوازیں آتیں تو اسے وہ قدرت کا تماشہ کہتے۔ انھیں اندازہ نہ تھا کہ ابھی ان کی اولادوں کو قدرت کے کیسے کیسے تماشے دکھانے ہیں۔
نصف انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی ہماری تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کی سب سے شاندار اور دل کش نگار خانہ سجانے والی قرۃالعین حیدر ہیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ملکہ جان بڑی اور گوہر جان کلکتے والی جیسی دلربا خواتین ان کے جادو اثر قلم سے بچ کر نکل جاتیں۔ گوہر جان کے بارے میں وہ اپنے ایک کردار کی زبان سے یہ کہلواتی ہیں کہ بمبئی میں، آنٹ گوہر نے ٹاؤن ہال کے کسی چیرٹی شو میں گایا تھا۔ سر فیروز شاہ مہتہ نے اسٹیج پر آکر ان کی بے حد تعریف کی۔
جواباً انھوں نے بڑھیا انگریزی میں یورپین میوزک پر ایک تقریر کر ڈالی۔ وہ عربی داں بھی تھیں کیونکہ کلکتہ میں بغدادی یہودی تاجروں کی کثرت تھی اور وہ لوگ ہندوستانی موسیقی کے بہت دلدادہ تھے۔ جن دنوں ایک ایرانی ان کا محبوب دل نواز تھا، وہ فرفر فارسی اڑاتیں۔ بنگالی فرنچ اور انگریزی گانے خوب گاتی تھیں۔ شاندار اور مدمغ اطالوی PRIMA DONNA معلوم ہوتی تھیں۔
گھنگر یالے چوکلیٹ براؤن بالوں کی الٹی چوٹی۔ چوڑی دار پاجامہ۔ جب وہ گاتی تھیں والیان ریاست ان کے اوپر سے جواہرات نچھاور کرتے۔ ان کی تو آیا تک ہمیشہ بنارسی ساڑیاں باندھتی تھی۔ سونے کا خاصدان لیے ان کے پیچھے چلتی۔ ان کے طبلچی ہیرے کی انگوٹھیاں پہنتے تھے۔ بچپن میں، میں اکثر ان کے ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں بیٹھی رہتی جب وہ رؤسا کو گانا سناتی تھیں۔ سامعین بڑے بڑے چیک کاٹ کر ان کو دیتے۔ وہ باہر جاتی تھیں مسلح باڈی گارڈ ساتھ ہوتے۔''دھرم تلے میں اکی کوٹھی کے پھاٹک پر دوسنگی شیر بنے ہوئے تھے۔ خود بھی شیرنی سی لگتی تھیں۔ دبنگ ۔شاندار۔''
''حامد علی خاں نواب رامپور ان کے بڑے قدر دان تھے۔ وہ محل کے اندر بھی بلائی جاتی تھیں۔ بیگمات ان کی دلچسپ گفتگو بڑے شوق سے سنتیں۔
''ہرہائی نس فاروقی بیگم صاحبہ پٹھان تھیں۔ گوہر کی دلیری بہت سراہتیں۔ شاید پرنس آف ویلز یا ڈیوک آف کناٹ یاد نہیں بہر حال وہ لنگڑے شہزادے کہلاتے تھے، رامپور آئے۔ ایوننگ گاؤن اور ہیرے جڑے موزے پہن کر گوہر نے ان کے ساتھ بال روم رقص کیا۔ اسی محل میں جو اب رضا لائبریری ہے۔
''نواب حامد علی خان نے انگلش پرنس کے لیے ایک پلے اسٹیج کروایا۔ گوہر ہیروئن بنی۔ ہزہائی نس کہا کرتے تھے کیا کروں گوہر تم موٹی بہت ہو ورنہ تم پر عاشق ہو جاتا۔ ایک بار نواب صاحب نے گوہر ڈے منایا۔ سوٰ سوٰ روپیے ٹکٹ۔ ستر ہزار روپیہ لے کر کلکتہ لوٹیں۔
''ان کا ایک فیورٹ گیت وہ نرت سے گاتی تھیں۔ ترچھی نگاہوں کی برچھی۔ جگر پہ ماری۔ لگی ایسی کاری، ارے ہم نے ملائی جو نظر آنکھوں سے...
11 19 کی بڑی نمائش میں الٰہ آباد گئیں۔ اکبرؔ نے کہا خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوہر کے سوا۔ سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا۔ چنانچہ ایک ایرانی سے نکاح کر لیا۔ اکبر نے فوراً ارشاد کیا
مرد خلیج فارس، گیسو ہیں جس کے کالے۔ گوہر نے آب اپنی کر دی جسے حوالے۔
اس واقعے کو شاعر سانچے میں کیسے ڈھالے۔ ارے وہ آغا صاحب ابھی ابھی میرے تصور میں آ گئے۔ عباس نام تھا نہایت شکیل۔ ہر وقت مالا پھیرا کرتے۔ ایسا لگا جیسے اپنی تسبیح عقیق سنبھالے اس پر دے کے پیچھے سے نکل آئینگے۔ انھوں نے گوہر کو بہت دکھ دیے۔ حسین، ذہین، مشہور اور خود مختار عورتوں کو ان کے دلنواز محبوب کیسی کیسی اذیتیں نہیں دیتے۔ یہ کوئی گوہر جان ایسی مالدار عورت سے پوچھے۔کیسی المناک بات ہے کہ وہ عورت جو خود اس قدر پڑھی لکھی اور باشعور تھی اس کی آخری عمر مقدموں میں کٹی اور مقدمے بھی جھوٹے۔ ان سے وہ باعزت بری تو ہوگئیں لیکن تمام دولت ہوا کے ساتھ اڑگئی۔
''پھر بھی اس عہد کے لحاظ سے گوہر نے بہت عزت حاصل کی۔ والیانِ ریاست کے درباروں میں ان کو کرسی ملتی تھی۔ بڑی AWARE بیوی تھیں۔ ان کے ڈرائنگ روم میں طرح طرح کے اخبار رکھے رہتے تھے۔ کلکتہ کے سرداؤد سیسون کا عبرانی اخبار جو عربی رسم الخط میں کلکتے کے بغدادی یہودیوں کے لیے چھپتا تھا وہ بھی پڑھتی تھیں۔ کلکتہ کا فارسی اخبار حبل المتین، شہر کے ارمنی اور انگریزی اخبار سب میں نے انھیں پڑھتے دیکھا۔ ان کے یہاں سے میں انگریزی فلمی رسالے مانگ لایا کرتی تھی۔ نیو یارک کا مو ویز ویکلی۔ لندن کا بائیسکوپ اور پکچر شو اور ڈراما۔''
وکرم نے لکھا ہندوستانی موسیقی کی ملکہ مس گوہر جان کلکتے والی، وہ پہلی ہندوستانی آواز جس کا ریکارڈ بنا، کلکتہ کی کوئل 17 جنوری 1930 کو اس جہان سے گزری اور بقول وکرم تلاش بسیار کے باوجود اس کی قبر اسے میسور شہر کے کسی قبرستان میں نہیں ملی۔