سماج کی تاریخ
غلامی کے دور میں انسان فروخت ہوتا تھا، قتل ہوتا تھا اور قید میں رہتا تھا اور وہ آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے
انسانی تاریخ میں جب سے طبقات وجود میں آئے ہیں اس وقت سے ظالم اور مظلوم حاکم اور محکوم، حکمران اور رعایا، لوٹنے اور لٹنے والے صاحب جائیداد اور دیہاڑی دار میں تقسیم ہیں۔ غلامانہ دور میں جس طرح انتہائی انسانیت سوز اور تذلیل آمیز استحصال اور رویہ رکھا جاتا تھا آج مریخ میں زمین خریدنے والے دور میں اس سے بھی زیادہ انسانیت کی بے حرمتی، تذلیل اور تضحیک اپنی زمین پر کی جا رہی ہے۔
غلامی کے دور میں انسان فروخت ہوتا تھا، قتل ہوتا تھا اور قید میں رہتا تھا اور وہ آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے، گزشتہ دنوں ہندوستان میں ایک دلت محنت کش نے چکی پر خود گندم پیس کر آٹا بنا لیا جسے ایک اونچے ذات کے استاد نے دیکھ لیا۔ پھر وہ غصے میں آگ بگولا ہوگیا اور کہاکہ اس نے چکی کو ناپاک کر دیا اور اس دلت رام پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا اسی سے ملتے جلتے واقعات سندھ اور بلوچستان کے ہاریوں اور بزرگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وڈیروں کی نجی جیل میں اکثر وڈیرے ہاریوں کو جن میں بیشتر دلت ہی ہوتے ہیں، قید کر کے ان سے جبری مشقت کرواتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے تربت کے زمیندار کی قید سے فرار ہو کر ٹنڈوالٰہیار پہنچنے والے ہاریوں نے 3 سالہ بچی کی لاش سمیت دھرنا دیا اور نعرے لگائے۔
بھیل ذات (ہندو اچھوت) سے تعلق رکھنے والے ہاریوں مگوبھیل، جامو بھیل و دیگر نے ایک سردار پر الزام لگایا کہ دوران قید اس نے ظلم کی انتہا کر دی ۔ تین سال سے انتھک مشقت لینے کے باوجود اجرت دینا تو در کنار خوراک اور بیماری کی صورت میں دوا کے پیسے بھی نہیں دیتا تھا جس کے باعث 3 سالہ پھول جیسی بیٹی پوپری چل بسی جس کی موت کا سو فی صد ذمے دار یہ سردار ہے۔ ان کے 43 میں سے 18 مرد و خواتین سردار کی قید سے فرار ہوئے ہیں اور 7 خاندان کے 25 افراد اب بھی سردار کے قید میں ہیں ان ہاریوں نے ظالم سردار کی قید سے باقی ماندہ 25 افراد کو حکومت سندھ سے بازیاب کرانے اور نجی جیل والے سردار کو سخت سزا دینے کے لیے بلوچستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
سندھ میں چینی کے مل مالکان ملی بھگت سے کسانوں سے بہت کم قیمت پر گنا خریدتے ہیں اور عوام کو مہنگے داموں میں چینی بیچتے ہیں کسانوں کو 250 روپے من گنے کی قیمت دینے کے باوجود شوگر مل مالکان عوام کو 35 سے 40 روپے کلو میں چینی فروخت کر سکتے ہیں سندھ حکومت اور ''پاسما'' کی جانب سے گنے کے مقرر کیے گئے نرخ کو آباد گاروں نے مسترد کرتے ہوئے کرشنگ سیزن 15 اکتوبر 2016ء سے احتجاج کریںگے۔ انھوں نے فی من گنے کا نرخ 250 روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور 22 اکتوبر سے سندھ میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائیں گے۔
سندھ گرورز آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین رضا چانڈیو نے نوابشاہ کے ہوٹل میں پریس کانفرنس میں کہاکہ سندھ حکومت اور پاسما نے ملی بھگت کر کے سندھ کے آبادگاروں کا معاشی قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے، مگر اس آبادگار دشمن فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ گنا 250 روپے فی من مقرر کیا جائے اور سندھ کے مل مالکان کو اس بات پر پابند کیا جائے کہ 15 اکتوبر سے کرشنگ سیزن کا آغاز کریں۔ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہزاروں آباد گار سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوںگے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو 22 اکتوبر سے پورے سندھ میں بھرپور احتجاج کریںگے۔
بالائی سندھ کی کاشت کار تنظیموں کے بعد زیریں سندھ کے آبادگاروں نے بھی پاسما، سندھ حکومت اور سندھ آبادگار بورڈ کے مابین گنے کے نرخ 182 روپے فی من مقرر کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے گنے کی کم از کم قیمت 250 روپے مقرر کرنے اور تمام کاشتکار تنظیموں کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا اس سلسلے میں سندھ گرورز الائنس اور آبادگار ایسوسی ایشن ضلع میرپورخاص کے رہنماؤں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے 182 روپے گنے کی فی من قیمت مقرر کرنے سے کاشتکاروں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
کاشت کار آئے دن کھاد اور ادویہ کی بڑھتی قیمت کے باعث پہلے ہی پریشان ہیں ایسے میں گنے کے حوالے سے ہونے والا فیصلہ کاشت کاروں پر بجلی بن کر گرا ہے جب کہ چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ گنے کے نرخوں میں سندھ کی تمام آبادگار تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے گا تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ بھی مل مالکان کی لوٹ مار میں مددگار بن رہے ہیں۔
کسانوں کے ساتھ ساتھ مزدور بھی بے حال ہیں، کوٹری سائٹ میں واقع کیبل فیکٹری کے مزدوروں نے 4 ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف حیدر آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اس موقع پر پیپلز لیبر ایمپلائز یونین کے رہنما ذوالفقار جمالی، اصغر چوہان ودیگر نے کہا کہ کوٹری سائٹ میں ایک کیبل فیکٹری انتظامیہ نے مزدوروں کو 4 ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں نہ انھیں سالانہ بونس دیا گیا ہے جس کے باعث متاثرہ مزدور شدید معاشی بد حالی کا شکار ہیں بحیثیت مجموعی عالمی سامراج کی ہدایت پر ان کے طفیلی حکمرانوں نے نیو لبرل ازم کے تحت سرکاری شعبے کو بحرانوں میں مبتلا کر دیا ہے ایسی نوکر شاہی عوام پر مسلط کر دی ہے جو ان اداروں کو بد عنوانی اور بد انتظامی کے ذریعے تباہ و برباد کر رہی ہے یہ شعبہ جات صنعتیں ہوں، تجارتی یا خدماتی تمام اداروں کی حالت دگر گوں ہوگئی ہے۔
اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، پی ایس او، او جی ڈی سی ایل اور شپنگ کارپوریشن وغیرہ بری طرح تباہ حال ہے۔ گیس سپلائی کمپنیاں اور او جی ڈی سی ایل وغیرہ تو صرف کمانے کے ادارے ہیں لیکن وہاں پر بھی بحرانی کیفیت ہے ۔ ملک کے میونسپل ادارے تو سرکاری وڈیرے اور چوہدریوں کو مال غنیمت میں ملے ہوئے ہیں، اس وجہ سے ان اداروں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ تمام شہر گندگی کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ تعفن ہے، غلاطتوں کے انبار لگے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اداروں کو اس صورتحال پر ایک منصوبہ بندی کے تحت پہنچایا گیا ہے تاکہ سامراج کے نیو لبرل ایجنڈے کے تحت ان کی جلد نجکاری کی جا سکے۔
ان میں بہت سارے ادارے جیسا کہ اسٹیل مل ملک کے صنعتی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھی ہے پیداوار کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت ان اداروں میں ملازمین کی حالت نجی شعبے خاص طور پر سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے مزدوروں جیسی بدتر بنانا چاہتی ہے۔ سیمنٹ اور شوگر ملوں میں نجکاری سے پہلے جو مزدوروں کی تنخواہیں تھیں جب مہنگائی آج سے 650 گنا کم تھی آج اس کے ایک چوتھائی کے برابر بھی تنخواہ نہیں مل رہی۔
پاکستان میں اچھوتوں، اقلیتوں کے مسائل ہوں، ہاریوں کے ہوں، کسانوں کے ہوں یا مزدوروں کے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں بہلاوے کے لیے حکمران چند ہڈیاں تو پھینک سکتے ہیں لیکن مسائل کا مکمل حل سامراجی سرمایہ کی ضبطگی زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنے اور ایک غیر طبقاتی اشتراکی انقلاب کے ذریعے کمیونسٹ نظام کی منزل کی جانب بلا انتظار پیش قدمی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست، دنیا ایک ہو جائے گی سارے وسائل سارے لوگوں کے ہوں گے۔ کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا۔
غلامی کے دور میں انسان فروخت ہوتا تھا، قتل ہوتا تھا اور قید میں رہتا تھا اور وہ آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے، گزشتہ دنوں ہندوستان میں ایک دلت محنت کش نے چکی پر خود گندم پیس کر آٹا بنا لیا جسے ایک اونچے ذات کے استاد نے دیکھ لیا۔ پھر وہ غصے میں آگ بگولا ہوگیا اور کہاکہ اس نے چکی کو ناپاک کر دیا اور اس دلت رام پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا اسی سے ملتے جلتے واقعات سندھ اور بلوچستان کے ہاریوں اور بزرگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وڈیروں کی نجی جیل میں اکثر وڈیرے ہاریوں کو جن میں بیشتر دلت ہی ہوتے ہیں، قید کر کے ان سے جبری مشقت کرواتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے تربت کے زمیندار کی قید سے فرار ہو کر ٹنڈوالٰہیار پہنچنے والے ہاریوں نے 3 سالہ بچی کی لاش سمیت دھرنا دیا اور نعرے لگائے۔
بھیل ذات (ہندو اچھوت) سے تعلق رکھنے والے ہاریوں مگوبھیل، جامو بھیل و دیگر نے ایک سردار پر الزام لگایا کہ دوران قید اس نے ظلم کی انتہا کر دی ۔ تین سال سے انتھک مشقت لینے کے باوجود اجرت دینا تو در کنار خوراک اور بیماری کی صورت میں دوا کے پیسے بھی نہیں دیتا تھا جس کے باعث 3 سالہ پھول جیسی بیٹی پوپری چل بسی جس کی موت کا سو فی صد ذمے دار یہ سردار ہے۔ ان کے 43 میں سے 18 مرد و خواتین سردار کی قید سے فرار ہوئے ہیں اور 7 خاندان کے 25 افراد اب بھی سردار کے قید میں ہیں ان ہاریوں نے ظالم سردار کی قید سے باقی ماندہ 25 افراد کو حکومت سندھ سے بازیاب کرانے اور نجی جیل والے سردار کو سخت سزا دینے کے لیے بلوچستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
سندھ میں چینی کے مل مالکان ملی بھگت سے کسانوں سے بہت کم قیمت پر گنا خریدتے ہیں اور عوام کو مہنگے داموں میں چینی بیچتے ہیں کسانوں کو 250 روپے من گنے کی قیمت دینے کے باوجود شوگر مل مالکان عوام کو 35 سے 40 روپے کلو میں چینی فروخت کر سکتے ہیں سندھ حکومت اور ''پاسما'' کی جانب سے گنے کے مقرر کیے گئے نرخ کو آباد گاروں نے مسترد کرتے ہوئے کرشنگ سیزن 15 اکتوبر 2016ء سے احتجاج کریںگے۔ انھوں نے فی من گنے کا نرخ 250 روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور 22 اکتوبر سے سندھ میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائیں گے۔
سندھ گرورز آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین رضا چانڈیو نے نوابشاہ کے ہوٹل میں پریس کانفرنس میں کہاکہ سندھ حکومت اور پاسما نے ملی بھگت کر کے سندھ کے آبادگاروں کا معاشی قتل کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے، مگر اس آبادگار دشمن فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ گنا 250 روپے فی من مقرر کیا جائے اور سندھ کے مل مالکان کو اس بات پر پابند کیا جائے کہ 15 اکتوبر سے کرشنگ سیزن کا آغاز کریں۔ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہزاروں آباد گار سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوںگے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو 22 اکتوبر سے پورے سندھ میں بھرپور احتجاج کریںگے۔
بالائی سندھ کی کاشت کار تنظیموں کے بعد زیریں سندھ کے آبادگاروں نے بھی پاسما، سندھ حکومت اور سندھ آبادگار بورڈ کے مابین گنے کے نرخ 182 روپے فی من مقرر کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے گنے کی کم از کم قیمت 250 روپے مقرر کرنے اور تمام کاشتکار تنظیموں کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا اس سلسلے میں سندھ گرورز الائنس اور آبادگار ایسوسی ایشن ضلع میرپورخاص کے رہنماؤں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے 182 روپے گنے کی فی من قیمت مقرر کرنے سے کاشتکاروں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
کاشت کار آئے دن کھاد اور ادویہ کی بڑھتی قیمت کے باعث پہلے ہی پریشان ہیں ایسے میں گنے کے حوالے سے ہونے والا فیصلہ کاشت کاروں پر بجلی بن کر گرا ہے جب کہ چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ گنے کے نرخوں میں سندھ کی تمام آبادگار تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے گا تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ بھی مل مالکان کی لوٹ مار میں مددگار بن رہے ہیں۔
کسانوں کے ساتھ ساتھ مزدور بھی بے حال ہیں، کوٹری سائٹ میں واقع کیبل فیکٹری کے مزدوروں نے 4 ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف حیدر آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اس موقع پر پیپلز لیبر ایمپلائز یونین کے رہنما ذوالفقار جمالی، اصغر چوہان ودیگر نے کہا کہ کوٹری سائٹ میں ایک کیبل فیکٹری انتظامیہ نے مزدوروں کو 4 ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں نہ انھیں سالانہ بونس دیا گیا ہے جس کے باعث متاثرہ مزدور شدید معاشی بد حالی کا شکار ہیں بحیثیت مجموعی عالمی سامراج کی ہدایت پر ان کے طفیلی حکمرانوں نے نیو لبرل ازم کے تحت سرکاری شعبے کو بحرانوں میں مبتلا کر دیا ہے ایسی نوکر شاہی عوام پر مسلط کر دی ہے جو ان اداروں کو بد عنوانی اور بد انتظامی کے ذریعے تباہ و برباد کر رہی ہے یہ شعبہ جات صنعتیں ہوں، تجارتی یا خدماتی تمام اداروں کی حالت دگر گوں ہوگئی ہے۔
اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، پی ایس او، او جی ڈی سی ایل اور شپنگ کارپوریشن وغیرہ بری طرح تباہ حال ہے۔ گیس سپلائی کمپنیاں اور او جی ڈی سی ایل وغیرہ تو صرف کمانے کے ادارے ہیں لیکن وہاں پر بھی بحرانی کیفیت ہے ۔ ملک کے میونسپل ادارے تو سرکاری وڈیرے اور چوہدریوں کو مال غنیمت میں ملے ہوئے ہیں، اس وجہ سے ان اداروں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ تمام شہر گندگی کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ تعفن ہے، غلاطتوں کے انبار لگے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اداروں کو اس صورتحال پر ایک منصوبہ بندی کے تحت پہنچایا گیا ہے تاکہ سامراج کے نیو لبرل ایجنڈے کے تحت ان کی جلد نجکاری کی جا سکے۔
ان میں بہت سارے ادارے جیسا کہ اسٹیل مل ملک کے صنعتی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھی ہے پیداوار کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت ان اداروں میں ملازمین کی حالت نجی شعبے خاص طور پر سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے مزدوروں جیسی بدتر بنانا چاہتی ہے۔ سیمنٹ اور شوگر ملوں میں نجکاری سے پہلے جو مزدوروں کی تنخواہیں تھیں جب مہنگائی آج سے 650 گنا کم تھی آج اس کے ایک چوتھائی کے برابر بھی تنخواہ نہیں مل رہی۔
پاکستان میں اچھوتوں، اقلیتوں کے مسائل ہوں، ہاریوں کے ہوں، کسانوں کے ہوں یا مزدوروں کے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں بہلاوے کے لیے حکمران چند ہڈیاں تو پھینک سکتے ہیں لیکن مسائل کا مکمل حل سامراجی سرمایہ کی ضبطگی زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنے اور ایک غیر طبقاتی اشتراکی انقلاب کے ذریعے کمیونسٹ نظام کی منزل کی جانب بلا انتظار پیش قدمی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست، دنیا ایک ہو جائے گی سارے وسائل سارے لوگوں کے ہوں گے۔ کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا۔