فلسفہ خودی اور علامہ آئی آئی قاضی
علامہ اقبال نے خودی کا جو فلسفہ پیش کیا تھا، وہ محض لفاظی تھی کیونکہ وہ خود اس کا (خودی کا) مطلب نہیں جانتے تھے
زمانہ طالب علمی میں ہمارے ایک ٹیچر ہوا کرتے تھے مسٹر خان محمد سانگی، جو سندھ یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر، علامہ آئی آئی قاضی کے بڑے مداح تھے اور ان سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ جب بھی حیدرآباد جانا ہوتا، سول لائنز میں بمبئی بیکری کے قریب واقع علامہ صاحب کی رہائشگاہ پر ضرور حاضری دینے جاتے اور واپسی پر کئی دنوں تک مزے لے لے کر ہمیں ان کی اور ان کی جرمن اہلیہ کی باتیں سنایا کرتے، جنھیں وہ محبت سے مدر ایلسا پکارا کرتے تھے۔ پھر وہ دور گزر گیا، میں حیدرآباد میں نوکری کرتا تھا جہاں میرا فارغ وقت زیادہ تر اسٹیشن روڈ پر لیڈی ڈفرن اسپتال کے سامنے دیوان ڈیارام گدومل لائبریری میں گزرتا تھا۔
وہاں میں نے علامہ آئی آئی قاضی کے حوالے سے کہیں پڑھا کہ وہ اور علامہ اقبال کسی زمانے میں اپنی اپنی ڈاکٹریٹ کرنے کے لیے ایک ساتھ جرمنی میں مقیم تھے، انھوں نے کافی وقت اکٹھے گزارا اور ان کے درمیان مختلف علمی موضوعات پر طویل بحث مباحثے ہوا کرتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال نے خودی کا جو فلسفہ پیش کیا تھا، وہ محض لفاظی تھی کیونکہ وہ خود اس کا (خودی کا) مطلب نہیں جانتے تھے۔ انھی دنوں ایک بار جب میرا چھٹی پر گھر آنا ہوا تو میں نے مسٹر سانگی سے اس کا تذکرہ کیا اور پوچھا کہ ان کی تو کبھی اس موضوع پر علامہ صاحب سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ انھوں نے فرمایا علامہ صاحب سے تو ان کی کبھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، لیکن اگر انھوں نے واقعی ایسا کہا ہے تو یقیناً ایسا ہی ہو گا۔
اپنے پرانے اسکول ٹیچر کی بات سن کر مجھے وہ تاریخی واقعہ یاد آ گیا جب قائداعظم محمد علی جناح، تحریک پاکستان کے سلسلے میں کسی جگہ جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے، سامعین میں سے ایک ان پڑھ دیہاتی اچھل اچھل کر انھیں داد دے رہا تھا اور وقفے وقفے سے پاکستان کے حق میں نعرے بھی لگا رہا تھا۔ اس کا جوش و خروش دیکھ کر پاس بیٹھے ہوئے شخص نے اس سے پوچھا قائد تو انگریزی میں تقریر کر رہے ہیں، تمہیں ان کی باتیں سمجھ آ رہی ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ دیہاتی بولا مجھے ان کی باتیں تو سمجھ نہیں آ رہی ہیں کیونکہ میں انگریزی نہیں جانتا، لیکن میں ایک بات جانتا ہوں اور وہ یہ کہ میرا قائد جو کچھ بھی کہہ رہا ہے، بالکل صحیح اور سچ کہہ رہا ہے۔
میں نے عرض کی پھر ان معنی و مطالب کا کیا جو آپ حضرات (اساتذہ کرام) ہمیں بتایا کرتے تھے، تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال کے مشہور شعر
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کے معنی ہمیں یہ بتائے اور پڑھائے جاتے تھے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ نیکیوں میں اس قدر سبقت لے جانے کی کوشش کرے کہ اپنے خالق کا محبوب بندہ بن جائے، اور محبوب بھی ایسا کہ وہ خود اپنے پیارے بندے سے اس کی مرضی و منشا معلوم کرے۔ اب اگر علامہ اقبال خود ہی خودی کا مطلب نہیں جانتے تھے تو ہمارے اساتذہ کرام کس اختیار کے تحت ان کے شعر کی یہ تشریح کیا کرتے تھے۔ وہ تو ''جاوید نامہ''کے شعر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
میں علامہ کی استعمال کردہ خودی کی اس اصطلاح کا بھی یہی مطلب بتاتے تھے، جو نہ صرف سمجھ میں آتا بلکہ دل کو بھی لگتا تھا کہ یہ اصطلاح واقعی اسی معنی میں استعمال کی گئی ہے۔ دوسری طرف علامہ آئی آئی قاضی بھی اتنی بڑی علمی شخصیت اور معتبر نام کہ ان کی رائے سے اختلاف کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ پہلے میں اسے کسی متعصب ذہن کی کارستانی سمجھتا تھا کہ اس نے بلاوجہ کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے یہ شوشا چھوڑا ہے اور بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اسے علامہ قاضی جیسی بہت بڑی علمی شخصیت سے منسوب کردیا گیا ہے، لیکن تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ واقعی یہ انھوں نے ہی فرمایا تھاکہ خودی کا فلسفہ پیش کرنے والے علامہ اقبال خوداس کا مطلب نہیں جانتے تھے۔
ثبوت کے طور پرسرکاری سرپرستی میں سندھی ادبی بورڈ کے زیر اہتمام شایع ہونے والے موقر ادبی جریدے سہ ماہی 'مہران'کا مولانا غلام محمد گرامی مرحوم کے دور کا وہ شمارہ بھی دیکھا جاسکتا ہے جس میں علامہ آئی آئی قاضی صاحب کی فرمائی ہوئی یہ بات بطور قول شایع کی گئی تھی۔ 80ء کی دہائی میں کراچی سے شایع ہونے والے ایک اور ادبی کتابی سلسلے 'سندھو' نے بھی 'مہران' کے شکریہ کے ساتھ علامہ موصوف کا مذکورہ قول دوبارہ شایع کیا تھا۔
سمجھ میں نہیں آتا انھوں نے علامہ اقبال اور ان کے فلسفہ خودی کے متعلق ایسی بے سروپا بات کیوں اور کیسے کہی، جب کہ علم کے ان دونوں خزینوں میں بظاہر کوئی رنجش بھی نہیں تھی، ورنہ دوسری طرف سے بھی علامہ آئی آئی قاضی کے بارے میں ضرور کچھ سننے یا پڑھنے کو ملتا۔
میں تو حیران ہوں کہ مشہور جرمن مستشرق، ڈاکٹر این میری شمل، جس فلسفی شاعر کے پیش کردہ فلسفہ خودی کی تشریح کو اپنے لیے باعث افتخار قرار دیتی اور اس کی تعریف و توصیف کرتے نہیں تھکتی تھیں، اسے جرمنی ہی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے، علامہ آئی آئی قاضی جیسی بلند مرتبت ہستی اور انھی کے پائے کا ہمعصر عالم انتہائی غیر سنجیدگی سے لے اور مذاق اڑانے والے انداز میں اس کا تذکرہ کرے۔
علامہ آئی آئی قاضی کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی یا پھر ان سے یہ بات کسی غلط فہمی کی بنا پر منسوب کی گئی ہے، ورنہ ان کی حیثیت اور مرتبے کا آدمی ایسی لغو بات کرے، اس کا تصور بھی نہیں جا سکتا۔ اقبالیات کے کئی ماہرین کی رائے میں انھوں نے جس اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے شاعری کو ذریعہ ابلاغ بنایا، اس کا موثر ترین ہتھیار یہی خودی کا فلسفہ تھا جس کی تعریف آپ نے یوں فرمائی :
خودی کا سر نہاں لا الہ اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ اللہ
اور ان کے اسی یقین کو بنیاد بنا کر بعد میں آنے والے بہت سے نامور شعرا نے اس سوچ کو آگے بڑھایا۔ مثلاً احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر :
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
یہاں غلط فہمی کے حوالے سے ذاتی تجربے پر مشتمل ایک واقعہ کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ 1994 ء کی بات ہے، امریکا میں مقیم معروف کالم نگار حسن مجتبیٰ نے سندھی صحافت سے طویل وابستگی کی بنا پر مجھ سے پوچھا کہ میں سندھی صحافت کو آج کس مقام پر دیکھتا ہوں۔ میں نے جواب دیا وہ آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں 1958 ء میں تھی۔ ایسی بات نہیں تھی کہ حسن نے میری بات کو غلط سمجھا، انھوں نے بالکل صحیح سمجھا اور بیان بھی صحیح کیا، لیکن اس کے لیے انھوں نے جن الفاظ کا انتخاب کیا ان سے پڑھنے والوں نے میری بات کا غلط مطلب نکالا اور اسے متنازعہ بنا دیا۔
میں نے کہا تھا کہ سندھی اخبارات کے مالکان آج بھی پہلے کی طرح ادارے بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور ایڈہاک ازم کی بنیاد پر کام چلانے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ سمجھا یہ گیا جیسے میں نے کہا ہو کہ سندھی اخبارات کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے اور ان میں آج بھی ہینڈ کمپوزنگ کا پرانا فرسودہ طریقہ رائج ہے، یا ان کا عملہ میز کرسی کے بجائے چٹائیوں پر بیٹھ کر کام کرتا ہے۔ بقول شاعر:
ہم دعا لکھتے رہے، وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
وہاں میں نے علامہ آئی آئی قاضی کے حوالے سے کہیں پڑھا کہ وہ اور علامہ اقبال کسی زمانے میں اپنی اپنی ڈاکٹریٹ کرنے کے لیے ایک ساتھ جرمنی میں مقیم تھے، انھوں نے کافی وقت اکٹھے گزارا اور ان کے درمیان مختلف علمی موضوعات پر طویل بحث مباحثے ہوا کرتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال نے خودی کا جو فلسفہ پیش کیا تھا، وہ محض لفاظی تھی کیونکہ وہ خود اس کا (خودی کا) مطلب نہیں جانتے تھے۔ انھی دنوں ایک بار جب میرا چھٹی پر گھر آنا ہوا تو میں نے مسٹر سانگی سے اس کا تذکرہ کیا اور پوچھا کہ ان کی تو کبھی اس موضوع پر علامہ صاحب سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ انھوں نے فرمایا علامہ صاحب سے تو ان کی کبھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، لیکن اگر انھوں نے واقعی ایسا کہا ہے تو یقیناً ایسا ہی ہو گا۔
اپنے پرانے اسکول ٹیچر کی بات سن کر مجھے وہ تاریخی واقعہ یاد آ گیا جب قائداعظم محمد علی جناح، تحریک پاکستان کے سلسلے میں کسی جگہ جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے، سامعین میں سے ایک ان پڑھ دیہاتی اچھل اچھل کر انھیں داد دے رہا تھا اور وقفے وقفے سے پاکستان کے حق میں نعرے بھی لگا رہا تھا۔ اس کا جوش و خروش دیکھ کر پاس بیٹھے ہوئے شخص نے اس سے پوچھا قائد تو انگریزی میں تقریر کر رہے ہیں، تمہیں ان کی باتیں سمجھ آ رہی ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ دیہاتی بولا مجھے ان کی باتیں تو سمجھ نہیں آ رہی ہیں کیونکہ میں انگریزی نہیں جانتا، لیکن میں ایک بات جانتا ہوں اور وہ یہ کہ میرا قائد جو کچھ بھی کہہ رہا ہے، بالکل صحیح اور سچ کہہ رہا ہے۔
میں نے عرض کی پھر ان معنی و مطالب کا کیا جو آپ حضرات (اساتذہ کرام) ہمیں بتایا کرتے تھے، تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال کے مشہور شعر
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کے معنی ہمیں یہ بتائے اور پڑھائے جاتے تھے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ نیکیوں میں اس قدر سبقت لے جانے کی کوشش کرے کہ اپنے خالق کا محبوب بندہ بن جائے، اور محبوب بھی ایسا کہ وہ خود اپنے پیارے بندے سے اس کی مرضی و منشا معلوم کرے۔ اب اگر علامہ اقبال خود ہی خودی کا مطلب نہیں جانتے تھے تو ہمارے اساتذہ کرام کس اختیار کے تحت ان کے شعر کی یہ تشریح کیا کرتے تھے۔ وہ تو ''جاوید نامہ''کے شعر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
میں علامہ کی استعمال کردہ خودی کی اس اصطلاح کا بھی یہی مطلب بتاتے تھے، جو نہ صرف سمجھ میں آتا بلکہ دل کو بھی لگتا تھا کہ یہ اصطلاح واقعی اسی معنی میں استعمال کی گئی ہے۔ دوسری طرف علامہ آئی آئی قاضی بھی اتنی بڑی علمی شخصیت اور معتبر نام کہ ان کی رائے سے اختلاف کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ پہلے میں اسے کسی متعصب ذہن کی کارستانی سمجھتا تھا کہ اس نے بلاوجہ کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے یہ شوشا چھوڑا ہے اور بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اسے علامہ قاضی جیسی بہت بڑی علمی شخصیت سے منسوب کردیا گیا ہے، لیکن تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ واقعی یہ انھوں نے ہی فرمایا تھاکہ خودی کا فلسفہ پیش کرنے والے علامہ اقبال خوداس کا مطلب نہیں جانتے تھے۔
ثبوت کے طور پرسرکاری سرپرستی میں سندھی ادبی بورڈ کے زیر اہتمام شایع ہونے والے موقر ادبی جریدے سہ ماہی 'مہران'کا مولانا غلام محمد گرامی مرحوم کے دور کا وہ شمارہ بھی دیکھا جاسکتا ہے جس میں علامہ آئی آئی قاضی صاحب کی فرمائی ہوئی یہ بات بطور قول شایع کی گئی تھی۔ 80ء کی دہائی میں کراچی سے شایع ہونے والے ایک اور ادبی کتابی سلسلے 'سندھو' نے بھی 'مہران' کے شکریہ کے ساتھ علامہ موصوف کا مذکورہ قول دوبارہ شایع کیا تھا۔
سمجھ میں نہیں آتا انھوں نے علامہ اقبال اور ان کے فلسفہ خودی کے متعلق ایسی بے سروپا بات کیوں اور کیسے کہی، جب کہ علم کے ان دونوں خزینوں میں بظاہر کوئی رنجش بھی نہیں تھی، ورنہ دوسری طرف سے بھی علامہ آئی آئی قاضی کے بارے میں ضرور کچھ سننے یا پڑھنے کو ملتا۔
میں تو حیران ہوں کہ مشہور جرمن مستشرق، ڈاکٹر این میری شمل، جس فلسفی شاعر کے پیش کردہ فلسفہ خودی کی تشریح کو اپنے لیے باعث افتخار قرار دیتی اور اس کی تعریف و توصیف کرتے نہیں تھکتی تھیں، اسے جرمنی ہی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے، علامہ آئی آئی قاضی جیسی بلند مرتبت ہستی اور انھی کے پائے کا ہمعصر عالم انتہائی غیر سنجیدگی سے لے اور مذاق اڑانے والے انداز میں اس کا تذکرہ کرے۔
علامہ آئی آئی قاضی کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی یا پھر ان سے یہ بات کسی غلط فہمی کی بنا پر منسوب کی گئی ہے، ورنہ ان کی حیثیت اور مرتبے کا آدمی ایسی لغو بات کرے، اس کا تصور بھی نہیں جا سکتا۔ اقبالیات کے کئی ماہرین کی رائے میں انھوں نے جس اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے شاعری کو ذریعہ ابلاغ بنایا، اس کا موثر ترین ہتھیار یہی خودی کا فلسفہ تھا جس کی تعریف آپ نے یوں فرمائی :
خودی کا سر نہاں لا الہ اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ اللہ
اور ان کے اسی یقین کو بنیاد بنا کر بعد میں آنے والے بہت سے نامور شعرا نے اس سوچ کو آگے بڑھایا۔ مثلاً احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر :
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
یہاں غلط فہمی کے حوالے سے ذاتی تجربے پر مشتمل ایک واقعہ کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ 1994 ء کی بات ہے، امریکا میں مقیم معروف کالم نگار حسن مجتبیٰ نے سندھی صحافت سے طویل وابستگی کی بنا پر مجھ سے پوچھا کہ میں سندھی صحافت کو آج کس مقام پر دیکھتا ہوں۔ میں نے جواب دیا وہ آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں 1958 ء میں تھی۔ ایسی بات نہیں تھی کہ حسن نے میری بات کو غلط سمجھا، انھوں نے بالکل صحیح سمجھا اور بیان بھی صحیح کیا، لیکن اس کے لیے انھوں نے جن الفاظ کا انتخاب کیا ان سے پڑھنے والوں نے میری بات کا غلط مطلب نکالا اور اسے متنازعہ بنا دیا۔
میں نے کہا تھا کہ سندھی اخبارات کے مالکان آج بھی پہلے کی طرح ادارے بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور ایڈہاک ازم کی بنیاد پر کام چلانے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ سمجھا یہ گیا جیسے میں نے کہا ہو کہ سندھی اخبارات کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے اور ان میں آج بھی ہینڈ کمپوزنگ کا پرانا فرسودہ طریقہ رائج ہے، یا ان کا عملہ میز کرسی کے بجائے چٹائیوں پر بیٹھ کر کام کرتا ہے۔ بقول شاعر:
ہم دعا لکھتے رہے، وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا