بڑی سیاسی جماعتوں کا احوال

سیاستدان قوم کا انتخاب، یہ اشخاص ہیں جھوٹے،  کرپٹ۔ایک دوسرے کو غدار کہنے والے

ملک کی تین بڑی جماعتوں PML-N، PTI، PPP میں سب سے بہتر عمران خان اور ان کی جماعت ہے۔ فوٹو: فائل

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا، اعتزاز احسن کی تقریرکے بعد مسلم لیگ (ن) کے مشاہد اللہ اور پھر دونوں جماعتوں کے اراکین اسمبلی کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔ ایک جانب سے ''جو مودی کا یار ہے غدار ہے'' دوسری طرف سے خالصتان تحریک میں مطلوب سکھوں کی فہرست حکومت انڈیا کو دینے کے نعرے لگائے گئے۔ یعنی ملک کی دو بڑی جماعتوں کے منتخب اراکین اسمبلی، وہ پارلیمنٹ جہاں قانون سازی ہوتی ہے، عوام کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں، وہاں ایک دوسرے کو ''غدار'' کہا جا رہا ہے۔ یہ تو وہ ہیں جو اجلاس میں شریک تھے۔

تیسری بڑی جماعت کے وزیر اعلیٰ اپنی تقاریر میں وزیراعظم کے جانے کی بات کرتے ہیں اور پیٹ پھاڑنے کا ارادہ۔گویا جمہوریت کا حسن اب گالیاں، جھگڑے، ڈنڈے، لاتیں، گھونسے رہ گیا، جمہوریت کی بینائی اس قدر محدود ہو گئی کہ اسے ملک پر منڈلاتے خطرات دکھائی نہیں دے رہے۔ جو ملک کو تقریروں میں ''ماں'' قرار دیتے ہیں، حقوق پورے کرنے کی بات پر اسے ماں کی گالی بھی دیتے ہیں۔ ملک بند کرنے کی دھمکی بھی۔ یہ ہمارے رہنما ہیں؟

یہ الزامات میں ان پر عائد نہیں کر رہا، یہ انھی کے عائد کردہ ہیں۔ مختلف مواقعوں پر جن کا یہ ایک دوسرے کے لیے اظہارکرتے ہیں اورکررہے ہیں۔ آپ صرف ایک ہفتے کے اخبارات پڑھ لیجیے یا چینلزکی ریکارڈنگ۔ آپ پر ایسے ایسے راز منکشف ہوں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے۔آپ کو لگے گا پاکستان کا دشمن انڈیا نہیں۔ آپ جان لیں گے ملک قدرتی آفات کا شکار نہیں۔ آپ مان لیں گے ہماری تنزلی کی وجہ بیرون سے کچھ بھی نہیں۔ یہ ہم خود ہیں اور ہمارے منتخب کردہ سیاستدان، حکمران۔ جنھیں ہم اپنے پورے تعصب کی بنیاد پر ایلکٹ کرتے ہیں۔

ہم سندھی، پنجابی، بلوچ، پختون، مہاجر، سرائیکی بن کر انھیں اسمبلیوں میں لاتے، حکمران بناتے ہیں۔ یہ وزیر اعظم، وزرا، چیئرمین سینیٹ، وزرائے اعلیٰ ہم ہی تو ہیں۔ یا تو ہم ان کا پرتو یا یہ ہمارا عکس۔ ہم اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دشمن کے خلاف ایک ہیں۔ بیس کروڑ عوام یہی دعویٰ ہمارے حکمران بھی کرتے ہیں۔ کیا مان لیا جائے اتنے درجات، ذاتوں، قوموں، عقیدوں میں منقسم لوگ ایک قوم ہوسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو غدار، بے ایمان، ڈاکو، لٹیرا کہنے والے متحد۔ ہم انڈیا سے کیا لڑیں گے۔ وہ تعداد میں سوا ارب ہیں اور متحد۔ ہم صرف 20 کروڑ اور اتنی درجہ بندیاں۔ جنگ کا فیصلہ تو جنگ سے پہلے بھی عیاں ہے۔


پچھلے دنوں عزیز آباد نائن زیرو میں ایک مکان کے تہہ خانے سے برآمد ہونے والا اسلحہ۔ مقدار میں اس قدر زیادہ اور اتنا جدید کہ دو ملکوں کی جنگ میں استعمال ہونے کے قابل ہے اور وہ پایا گیا ایک عام سے مکان کے تہہ خانے سے۔ الامان! اگر یہ کراچی میں استعمال ہونا تھا تو اللہ نے بڑا کرم کر دیا اس شہر پر، ملک و قوم پر۔ شنید ہے کہ اسی طرح کا اسلحہ شہر میں اور بھی کئی مقامات پر چھپایا گیا۔ یہ نیٹو افواج کے ان کنٹینرز سے یا تو نکالا یا وہ کنٹینرز ہی غائب کر دیے گئے جو براستہ پاکستان، افغانستان جا رہے تھے۔ دور صدر مشرف کا تھا۔ سمجھ سے بالاتر ہے اس طرح کی صورتحال میں سیسہ پلائی ہوئی دیوارکون ہے اورکہاں ہے؟

سیاست میں دشنام طرازی کے اس نئے رجحان کے موجد تو پی ایم ایل این والے ہیں لیکن اس فن کو بام عروج پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پہنچایا۔ جو گفتگو کا آغاز ہی مار پیٹ سے کرتے ہیں۔ انجام تک ان کی تقریر ایسے الفاظ وخطابات سے مزین ہوتی ہے جن میں سے اکثر کا شکار نواز شریف یا کبھی کبھی آصف زرداری بھی ہوتے ہیں۔ حیران کن ہے کہ میں نے آج تک ان کے منہ سے فلاح و بہبود کا کوئی ایک ایسا منصوبہ نہیں سنا جس پر چل کر ملک ترقی کرے۔ قوم کی سدھار کے لیے ان کے پاس کوئی مناسب حکمت عملی نہیں۔ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ''نواز شریف تمہیں جانا ہو گا، کیونکہ مجھے آنا ہوگا''۔

معلوم نہیں لیکن انھوں نے نواز شریف کو دو بہ دو لڑنے کی دعوت بھی دی۔ پھرکہا کہ تم نہیں لڑوگے کیونکہ تم موٹے ہو اور میں Smart۔ یعنی غصے کی یہ انتہا ایک لیڈرکے لیے انتہائی نامناسب اور اس جماعت و کارکنان کے لیے تشویشناک۔ جس کے وہ چیئرمین۔ ایک حالیہ مشورہ جو ان کی طرف سے پی پی پی کی قیادت کو دیا گیا وہ آصف زرداری مائنس کا ہے۔ جس پر ظاہر ہے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شدید ردعمل دیا۔ کل تک ان کے اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کی جو فضا بنتی دکھائی دے رہی تھی وہ گرد آلود ہوگئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پی ایم ایل این اور پی پی پی ایک بار پھر قریب آ گئے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ اس بار شاید متحد نہ ہو پاتے لیکن خان صاحب نے انھیں کر دیا۔

قارئین کرام! آپ حیران ہوں گے جب میں اپنی تحریر کے آخر میں یہ فیصلہ کن رائے دوں گا کہ ملک کی تین بڑی جماعتوں PML-N، PTI، PPP میں سب سے بہتر عمران خان اور ان کی جماعت ہے۔ آپ یقینا سوچیں گے میں نے عمران خان کے خلاف اپنے کالمز میں اکثر و بیشتر سخت لہجہ اختیارکیا۔ ان میں سیاسی فہم نہ ہونے کا اظہار کیا۔ تو میں جواب دوں گا کہ وہ ایماندار و محب وطن ہیں۔ ان کا لب و لہجہ کھردرا ضرور ہے انھیں بہتر کرنا چاہیے۔ لیکن ماننا ہو گا کہ وہ لگی لپٹی نہیں رکھتے، منافق نہیں۔ بہرحال ''شفا آور اشیا'' کڑوی ضرور ہوتی ہیں جیسے کونین کی گولی۔ جب کہ باقی ماندہ دونوں کو سیاسی حمایت یا مقبولیت تو نجانے کتنی درکار ہے لیکن جائیداد میں مسلسل اضافہ چاہیے اور اس میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں۔
Load Next Story