تفہیم المسائل

’پڑوسی اپنے پڑوس کی وجہ سے خریدنے کا زیادہ حق دار ہے، (صحیح بخاری، رقم الحدیث:2258)


Mufti Muneeburrehman December 13, 2012
اسلام کا قانونِ شُفعہ پاکستان میں نافذالعمل ہے۔ فوٹو : فائل

وقف کو بدلا نہیں جاسکتا

سوال:کیا مسجدکے لیے وقف شدہ زمین دوسری مسجد کے لئے دی جا سکتی ہے؟۔ مطیع اللہ حسنی ،کراچی ۔

جواب: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق وقف مکمل ہوجانے کے بعد واقف (وقف کرنے والا) کو بھی وقف میں تبدیلی کا اختیار نہیں رہتا ، چہ جائیکہ کہ مُتولی یا کوئی دوسراشخص اُ س میں تبدیلی کرے ۔علامہ نظام الدین لکھتے ہیں : ترجمہ:'' وقف کی ہیئت کو بدلنا جائز نہیں ،(فتاویٰ عالمگیری جلد 2ص:490،مطبوعہ مکتبہء رشیدیہ ،کوئٹہ)''۔ مذکورہ زرعی اراضی اگر قابلِ کاشت وقابلِ انتفاع نہ رہے ،تب بھی اُسے دوسرے مقاصد کے لیے وقف نہیں کیاجاسکتا ۔ علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ: ''مسجد کے نام ایک زمین وقف تھی، اب وہ قابلِ کاشت نہیں رہی (یعنی اُس سے آمدنی حاصل نہیں ہوتی) ، پھر کسی شخص نے اُس زمین میں لوگوں کے (فائدے کے لئے) تالاب بنادیا ، مسلمانوں کے لئے اُس تالاب کے پانی سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، جیسا کہ '' قُنیہ'' میں ہے، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد2 ، ص:464)''۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں۔ ترجمہ: '' مسجد پر وقف شدہ ایک مکان کو مُتولی نے مسجد بنادیا اور اُس میں لوگوں نے چند سال نمازیں بھی پڑھیں ، پھراس میں نماز پڑھنا چھوڑ دی، مکان کو دوبارہ کرائے پر دے دیا، تو جائز ہے ۔

کیونکہ مُتولی کا اُسے مسجد بنادینا صحیح نہیں تھا ، جیساکہ ''واقعات حسامیہ ''میں ہے، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد2، ص: 456)''۔ اورجب پہلے سے ایک مسجد موجود ہے تو اُس کے قریب دوسری مسجد تعمیر کرنا مناسب نہیں ہے، کیوںکہ یہ سابق مسجد کی ویرانی کا سبب بنے گی اور قرآن مجید میں اس پر وعید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ترجمہ: '' اور اس سے بڑا ظالم اور کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کے نام کے ذکر سے منع کرے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ'' ہمارے نظریات برادری اور مسجد انتظامیہ سے مختلف ہیں'' یہ ایک منفی سوچ ہے اور اسے وقف میں تبدیلی کے مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اس طرح کا اختیار تو خود واقف کو بھی نہیں ہے۔

حقِّ شُفعہ کی شرعی حیثیت

سوال: ''حقِ شُفعہ'' کا معنیٰ ومفہوم کیا ہے اور مُروّجہ پاکستانی قوانین میں اس حوالے سے کیا بیان کیا گیا ہے ؟۔ جلیل احمد ، کراچی ۔

جواب: شُفعہ کا حق غیر منقولہ جائیداد میں ہوتاہے ، یعنی جب کوئی شخص اپنی ملکیتی زمین کو فروخت کرنا چاہے، تو پہلے اپنے شفیع کو پیشکش کرے کہ آیا وہ اِسے خریدنا چاہتاہے، اگر وہ خریدنا چاہتاہے، توبازاری قیمت یا طے شدہ قیمت پر اُسے دے دے، یعنی اُس کا حق کسی بھی دوسرے خریدار پر مُقدّم ہے۔اگر زمین کا مالک اُسے (شفیع) کو نظرانداز کرکے یا اُس کی لاعلمی میں کسی اور شخص پر اپنی زمین فروخت کرتا ہے، تو اُسی قیمت پر شفیع کو اُس زمین کے لینے کا جبری حق حاصل ہے ۔یعنی بائع کی مرضی کے برعکس وہ اِسے خرید لے گا اور دوسرے خریدار کی بیع کالعدم ہوجائے گی۔ حدیث پاک میں ہے :

(۱)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ترجمہ:''پڑوسی اپنے پڑوس کی وجہ سے خریدنے کا زیادہ حق دار ہے، (صحیح بخاری، رقم الحدیث:2258)''۔

(۲)ترجمہ: ''حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنے پڑوس میں شُفعہ کرنے کا زیادہ حق دار ہے، اگر وہ غائب ہو تو اس کا انتظار کیاجائے گا جب کہ اُن کا راستہ ایک ہو، (سُنن ترمذی، رقم الحدیث:1369)''۔

جس کو شُفعہ کا حق حاصل ہے، اُسے ''شفیع '' کہاجاتاہے۔علامہ برہان الدین ابوبکر علی بن حسن الفرغانی حنفی نے شفیع کے استحقاق کی جو ترتیب اور تدریج بیان کی ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے :

(۱) ایک شخص زمین کی ملکیت میں شریک ہے اور اُس کا دوسرا شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہتا ہے ، تواِس شریک کا حق سب سے مُقدّم ہے۔ (۲) ایک شخص فروخت کی جانے والی زمین کی ملکیت میں توشریک نہیں ہے، لیکن اس کی زمین اس کے ساتھ متصل ہے اور اس بنا پر دونوں کا راستہ مشترک ہے یا پانی کا کنواں یا گھاٹ مشترک ہے، تو اسے فقہ کی اصطلاح میں''خلیط'' کہتے ہیں۔ شریک کے بعد بطور شفیع پھر اس خلیط کا حق مُقدّم ہے، یعنی یہ اصل مبیع میں تو شراکت نہیں ہے لیکن حقوق میں شراکت ہے۔ (۳) ایک شخص کی زمین دوسرے شخص کی زمین کے ساتھ متصل ہے، نہ ملکیت میں شراکت ہے، بس صرف پڑوس کی بناپر اُس کی زمین دوسرے شخص کی زمین کے ساتھ ملی ہوئی ہو اوروہ اُسے فروخت کرنا چاہتاہے، تو پھرکسی بھی دوسرے خریدار کے مقابلے میں حقِ اتّصال کی بنا پر اُس پڑوسی کا حق مُقدّم ہے،خواہ فروخت کرنے والے کی مرضی ہویا نہ ہو، اِسی بناپر اِس حق کو جبری یا اجباری کہاجاتاہے، یعنی یہ بائع کی مرضی کے برعکس بھی نافذ ہوجاتاہے اور کسی بھی دوسرے شخص کے ساتھ اُس کی بیع کالعدم ہوجاتی ہے۔

اسلام کے قانونِ شُفعہ کو پاکستان کے دیوانی قانون میں تسلیم کیاگیاہے اوریہ پاکستان میں نافذالعمل ہے ۔

کرائے کا مطالبہ

سوال: ایک شخص کا 6سال قبل انتقال ہوگیا۔ اُس نے ترکے میں ایک مکان چھوڑا۔ ورثاء میں اُس کی بیوہ ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں (سب شادی شدہ) ہیں۔ ایک بیٹاملک سے باہر ہے اور دوبیٹے اُس مکان میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اُس مکان میں دوکانیں بھی ہیں جو کرائے پر دے رکھی ہیں، گذشتہ تین سال سے کرایہ ہرماہ شرعی حصص کے تناسب سے تمام ورثاء کے درمیان تقسیم ہوجاتاہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ مکان میں جو دو بھائی رہتے ہیں، کیااُن کا اُس مکان میں رہنا صحیح ہے، اور اُن کو وہاں رہنے کا کرایہ دینا چاہئے یا نہیں؟ دوسرایہ کہ اگر کوئی وارث یہ مطالبہ کرے کہ مکان فروخت کرکے مجھے میرا حصہ دے دیاجائے اور جب تک مکان فروخت نہیں ہوتا تو کرایہ لگا یاجائے، توکیا اُس کا یہ مطالبہ درست ہے؟۔ عبداللہ، ملیر

جواب: ازرو ئے شر ع کسی بھی وفات یافتہ شخص کے تر کے کو تقسیم کر نے سے قبل تین قسم کے مصارف وضع کئے جاتے ہیں: (۱) مصارف تکفین و تدفین (2) متوفی کے ذمہ اگر کسی کا قرض ہو، تو قرض کی ادائیگی (3) اگرمتو فی نے کو ئی وصیت کی ہو تو زیادہ سے زیادہ تہا ئی تر کے کی حد تک وصیت کا نفاذ ، بشر ط یہ کہ وصیت کسی شر عی وارث کے حق میں نہ ہو۔ یہ تین امور تقسیم وراثت سے مقدم ہو تے ہیں۔ ان کو منہا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ ورثا ء میں تقسیم ہوتا ہے۔ والد کا ترکہ 72حصوں میں تقسیم ہوگا، بیوہ (یعنی والدہ) کو 9 حصے ۔ تینوں بیٹوں کو 42 حصے ( فی کس 14 حصے ) اورتین بیٹیوں کو 21 حصے (فی کس7حصے) ملیں گے ۔

شرعاً ہونا تو یہ چاہئے کہ جس قدر جلد ممکن ہو ، تمام ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم کردیا جائے کیونکہ تقسیم میں تاخیر سے پیچیدگیاں اور خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ تمام ورثاء کو حق وراثت حاصل ہے اور اپنے اپنے حصوں کے بقدر تمام ورثاء جائیداد میں تصرُّف کا حق رکھتے ہیں۔ آپ نے سوال میں لکھاہے کہ ورثاء میں بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، جن میں سے دو بیٹے اور بیوہ اُس مکان میں رہتے ہیں، تقسیم ترکہ کے نتیجے میں جتنی جگہ اُن کے حصے میں آتی ہے ، اُسی قدر تصرُّف کا اختیار اُنہیں حاصل ہے، دوسرے ورثاء کے حصے میں اُن کی اجازت کے بغیر تصرُّف نہیں کرسکتے۔ اگر بغیر اجازت دوسرے ورثاء کے حصے کو برتا، تو اُن کے مطالبے پر اُس جگہ کا کرایہ دینا ہوگا۔ لیکن اگر آپ کے دو بھائی اور والدہ دوسرے ورثاء کی اجازت سے رہتے رہے ہیں یا اُنہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، تو یہ اُن کی طرف سے تبرُّع اور احسان سمجھا جائے گا اور ان پر کسی قسم کا کوئی کرایہ لازم نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں