اب کے وہ بزم یوں سجی

کسی بھی خطے میں رہنے والے اپنے جغرافیے اور اس سے جُڑے مسائل سے جدا نہیں ہوسکتے۔

اردوکانفرنس کے موقع پر شمس حنفی، انتظار حسین، حمایت علی شاعر ، کشور ناہید، شاہدہ حسن، احمد شاہ اور دیگر کا گروپ فوٹو

عالمی اردو کانفرنس کو شہر کے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں نمایاں اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ مسلسل پانچ سال سے کام یاب انعقاد اس امر کی دلیل ہے کہ نہ صرف ادب دوست اسے پذیرائی بخش رہے ہیں، بلکہ منتظمین بھی نہایت مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں۔

اس ہی دو طرفہ دل چسپی اور لگن کا مظہر پانچویں عالمی اردو کانفرنس تھی، جس کا افتتاحی اجلاس 6 دسمبر 2012ء کو ہوا، جس کی مجلس صدارت میں مجلس صدارت ہندوستان سے آئے ہوئے ادیب شمیم حنفی، حمایت علی شاعر، انتظار حسین اور ڈاکٹر اسلم فرخی جیسے شعرا اور ادیب موجود تھے۔ صدر کراچی آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے افتتاحی خطبہ دیا، جس کے بعد شمیم حنفی اور انتظار حسین نے ہندوستان اور پاکستان میں اردو ادب کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ کلیدی خطبوں کے بعد سیکریٹری آرٹس کونسل کراچی پروفیسر اعجاز فاروقی نے کلمات تشکر ادا کیے۔



اردو کانفرنس کے پہلے روز دوسری نشست NAPA کے اشاعتی منصوبے اور نئی کتب کے حوالے سے تھی، جس میں ضیاء محی الدین کی تصنیف Theatrics، شیکسپیئر کے دو ڈراموں (ترجمہ خالد احمد) اور دو یونانی کلاسیکی ڈراموں (ترجمہ احمد عقیل روبی) کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اس موقع پر راحت کاظمی، ارشد محمود انتظار حسین نے اظہار خیال کیا۔ کتابوں کا تعارف آصف فرخی نے پیش کیا، جب کہ کرسی صدارت پر ضیا محی الدین جلوہ افروز تھے، جن کی خدمات کے اعتراف میں اگلی نشست ان کے نام کی گئی تھی۔ اس اہم نشست کی صدارت ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے کی، جب کہ انتظار حسین، خالد احمد اور ارشد محمود نے اظہار خیال کیا۔

''اردو کی تحقیق و تنقید کے عصری منظر نامہ'' کانفرنس کے دوسرے روز کی پہلی نشست کا عنوان تھا، جس میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے ترقی پسند تنقید کا موجودہ صدی کے تناظر میں جائزہ پیش کیا۔ فیض اور معاصر تنقید کے موضوع پر سید مظہر جمیل نے اپنی گراں قدر رائے کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ مسعود اشعر، محمود احمد خان، ناصر عباس نیر نے بھی اپنے تحقیقی مضامین پیش کیے۔



اردو ادب کی ماضی بعید اور ماضی قریب میں گزر جانے والی شخصیات کی خدمات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک مفصل نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اردو دنیا کے وہ بڑے معمار جنہوں نے اردو لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سننے کے حوالے سے اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں، انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ خصوصاً گذشتہ ایک سال میں بچھڑ جانے والے وہ بڑے بڑے نام کہ جن کی تلافی تا دیر ممکن نہیں۔ لطف اﷲ خان، حمید اختر، مہدی حسن اور ہاجرہ مسرور بھی گزر جانے والوں کی اس لڑی سے تعلق رکھتی ہیں، جس کے لیے ایسا لگتا ہے گویا سچے موتیوں کی ایک مالا تھی، جو ٹوٹ گئی اور قطار در قطار لوگ ہم سے بچھڑتے چلے گئے۔ جانے والوں کے پیچھے ان کا کام اور یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں اور ان ہی یادوں کا اعادہ کرنے کا اہتمام اس کانفرنس میں کیا گیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا ان کی ملک و قوم کے لیے بہت سی خدمات ہیں، سلیم الزماں وہ سائنس داں تھے جو 96 برس کی عمر میں بھی لیبارٹری جاتے رہے۔



وہ ایک مصور اور مجسمہ ساز بھی تھے۔ ماضی بعید میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے نظیر اکبر آبادی بھی اس نشست کا اہم حصہ تھے۔ ان کے فن کا احاطہ کرنے کے لیے صابر جعفری ہم کلام ہوئے اور ان کی انسانی دوستی کا ذکر کیا۔ محمد ایوب شیخ نے شمشیر الحیدری کی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ اردو ادب سے الگ نہیں۔ شمشیر الحیدری سندھی شاعری میں آزاد نظم کے بانی ہیں۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے ممتاز ادیب کرشن چندرکی خدمات کو عنوان بنایا اور ان کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے گانگی کے سلوک کے مستحق نہیں۔ کرشن چندر کی حیثیت ادیب سے زیادہ ہے۔ وہ زندگی کے ایسے شیدائی ہیں جیسے سرشار اور پریم چند تھے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے آوازوں کا ایک جہاں آباد کرنے والے لطف اﷲ خاں کو یاد کیا کہ وہ بھی ان ہستیوں میں شامل ہیں کہ جو گذشتہ سال اس اسٹیج پر موجود تھے، لیکن آج نہیں۔ 60سال کے زائد عرصے میں اگر گہرائی سے دیکھی جائے تو انہوں نے ہر پل ہر لمحہ ہر برس کے روزو شب جمع کیے ہیں۔ لطف اللہ خان کی طرح پچھلی اردو کانفرنس سے اس کانفرنس کے ماہ وسال میں داغ مفارقت دینے والے ادیب حمید اختر تھے' ان کے ساتھ گزرے ایام اور خدمات پر ممتاز ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے بات کی۔ موسیقار ارشد محمود نے شہنشاہ غزل مہدی حسن کی وفات کو اردو اور موسیقی کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ ممتاز فسانہ نگار زاہدہ حنا نے ہاجرہ مسرور کی ادبی خدمات اور انفرادیت کا ذکر یوں کیا کہ جب لڑکیاں نوعمری میں گڑیوں سے کھیلتی تھیں ہاجرہ مسرور اس وقت کہانیاں لکھتی تھیں۔ انہوں نے پڑھنے والوں کو جس طرح چونکا یا تو یہ ان کی بڑی کام یابی تھی۔


اردو کے ممتاز شاعر میراجی کے صد سالہ جشنِ پیدایش کی مناسبت سے ''میراجی'' کے عنوان سے ایک علیحدہ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس سے شمیم حنفی، فہمیدہ ریاض، وسعت اﷲ خان، ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ممتاز شاعرہ ڈاکٹر پروفیسر شاہدہ حسن نے میرا جی کے تراجم، جدید نظم اور گیت نگاری وغیرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میرا جی اپنے دور میں ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے۔ انہیں مشرق اور مغرب میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ کئی معلومات میں میرا جی کی شاعری کو ٹیگور کے برابر قرار دیا جا سکتا ہے۔ فکری طور پر میرا جی کی نثر بھی سب سے مختلف تھی۔ ان کی شخصیت کی یہ برہمی اور بکھرائو دراصل اس دور کا احتجاج تھا۔

کسی بھی خطے میں رہنے والے اپنے جغرافیے اور اس سے جُڑے مسائل سے جدا نہیں ہوسکتے۔ چناں چہ اردو کانفرنس میں ذکر ہوا جنوبی ایشیا میں پائے دار امن کا۔ اس اہم نشست میں مقررین نے کہا کہ اردو صرف پاکستان کی زبان نہیں، قلم کار بلاشبہہ پاک وہند کے لوگوں کو جوڑنے اور امن کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے جذبات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔ اہل قلم ایک دوسرے ملک میں آنے جانے کے لیے مستحکم اور مضبوط ثقافتی روابط قائم کریں۔ فن کار و موسیقار لوگوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہیں ۔ اس سلسلے میں دشواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پینل کے ارکان نے اس بات کو زور دیا کہ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر اہل قلم اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے بھی مناسب ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ اس نشست کے شرکا میں ڈاکٹر شمیم حنفی، انتظار حسین، ارشد محمود، غازی صلاح الدین، وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر جعفر احمد شامل تھے۔



اطلاعات کے تیز تر پھیلائو کے باعث زبان کے زیادہ تر مسائل ادب کے بجائے ذرایع ابلاغ سے نتھی ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کانفرنس میں لازماً اس حوالے سے ایک نشست کا انعقاد کیا جاتا ہے، تاکہ زبان کے درست استعمال کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جاسکے۔ سہل پسندی اور غفلت یا کم علمی کے باعث ہونے والی ایسی فاش غلطیوں سے گریز کیا جائے، جن کے سبب زبان ترقی کرنے کے بجائے تنزلی کا شکار ہے۔ گفتگو کے اس سلسلے میں لندن سے آئے ہوئے صحافی آصف جیلانی، ڈاکٹر مبارک علی، احفاظ الرحمن،غازی صلاح الدین، ڈاکٹر فاطمہ حسن، سرمد صہبائی، مسعود اشعر اور احمد شاہ نے حصہ لیا، جس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادب اور ذرائع ابلاغ کے درمیان خط کھینچنا بڑا مشکل ہے۔ تاہم ادب اور ذرائع ابلاغ میں فرق ہو نا چاہیے۔ ہندوستان کے اخبارات کا معیار قدرے بہتر ہے۔ انہوں نے علم و ادب کو فروغ دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو عوامی سطح پر ہونا چاہیے اور یہ کوئی بری بات نہیں۔ اب ریٹنگ کو بڑھا نے کے لیے معیار کو گر ا دیا گیا ہے۔ البتہ یہ خیال رہے کہ کچھ پیشے معاشرے کے لیے بہت ضروری ہیں، جو معاشرے کو پروان چڑھاتے ہیں، جن میں استاد، ڈاکٹر، صحافی شامل ہیں۔

اردو افسانہ منٹو کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ سعادت حسن منٹو اپنی طرز کے سب سے جدا افسانہ نگار تھے۔ بے باکی کے سبب انہیں بہت سے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا ، اس کے باوجود اردو میں ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ منٹو کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کے حوالے سے اردو کانفرنس میں ''عظیم منٹو کی صدی'' کے عنوان سے ایک اہم نشست منعقد ہوئی۔ اس کے علاوہ منٹو ریڈنگ کو بھر پور پذیرائی ملی، ساتھ ہی منٹو پر نئی کتابوں کا تعارف بھی پیش کیا گیا، جس میں امینہ سید کی ''انتخابِ سعادت حسن منٹو '' اور شمیم حنفی کی تصنیف ''منٹو، حقیقت سے علامت تک'' شامل ہیں۔

ماضی قریب میں ساکنان شہر قائد کے عالمی مشاعرے کو شہر میں عالمی سطح کی سرگرمی کی حیثیت حاصل تھی، لیکن پھر اس میں تسلسل باقی نہیں رہا اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو کانفرنس نے ادب اور لسانیات کے حوالے سے ثقیل گفتگو اور دقیق موضوعات پر بحث کے ساتھ شہر میں مشاعرے کی کمی کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی نظیر کانفرنس میں ایک بھرپور مشاعرے کی صورت میں سامنے آئی۔ رسا چغتائی نے اس موقع پر درست کہا کہ کرا چی کے عوام اشعار پر داد دینے کا فن جانتے ہیں اور یہاں مشاعرہ پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اس موقع پر ممتاز شاعر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، کشور ناہید، فرہاد زیدی، پروفیسر شاہدہ حسن، ڈاکٹر فاطمہ حسن، سعود عثمانی، ایوب خاور، لیاقت علی عاصم، یاد صدیقی، خالد معین، ریحانہ روحی، حمیرا راحت، زہرا جنید، غزل انصاری، سلیم کوثر، صابر ظفر، ناصر زبیری اور عمیر علی انجم نے اپنا کلام پیش کر کے زبردست داد و تحسین وصول کی۔

اس کے علاوہ ''اردو کا عہد آفریں مزاح'' کی نشست بھی حاضرین نے خوب پسند کی اور محظوظ ہوئے، اس نشست میں رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، ابن انشا، دلاور فگار اور مشتاق احمد یوسفی کے اسلوب پر روشنی ڈالی گئی۔ ساتھ ہی ''دو شاعر ایک شام'' کے عنوان سے ہونے والی نشست میں انورمسعود اور امجد اسلام امجد نے اپنا کلام سنایا۔

اردو کانفرنس میں مختلف کتب کی تقاریب رونمائی بھی منعقد ہوئیں، جن میں نصیر ترابی کی ''شعریات''، ناصرہ زبیری کی ''کانچ کا چراغ'' کے علاوہ ڈاکٹر مبارک علی کی تین کتب ''What history tell us'' ، ''تاریخ کی باتیں'' اور ''پاکستانی معاشرہ'' شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاعر عوام حبیب جالب کی خدمات کے اعتراف کے لیے منعقدہ ایک نشست میں مہ جبیں غزل انصاری کی جانب سے انہیں گاڑی کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔

یوں ہر سال کی طرح اس سال بھی شہر قائد میں اہل علم وادب کا یہ بڑا اجتماع اختتام پذیر ہوا، جس میں آصف جیلانی (لندن)، درمش بلگر (ترکی)، رضا رومی (اسلام آباد)، ڈاکٹر مبارک علی (لاہور)، سعید نقوی (امریکا)، مہ جبیں غزل انصاری (لندن) کے علاوہ پاکستانی نژاد قلم کار عامر حسین سمیت ڈاکٹر نعمان الحق پہلی بار اردو کانفرنس میں شریک ہوئے۔
Load Next Story