لوک سبھا کو تحلیل کرنا ضروری ہے

حکومت کے زیر کنٹرول سی بی آئی نے دونوں لیڈروں کے خلاف کرپشن کے مقدمات درج کر رکھے ہیں۔

مجھے حیرت ہے کہ آیا ایوان زیریں ''لوک سبھا'' مئی 2014 تک اپنی مکمل مدت پوری کر سکے گی؟ مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس کے چند ماہ قبل مرکزی حکومت سے حمایت واپس لینے کے بعد حکومت اکثریت سے محروم ہو گئی ہے۔ حکومت کے اس فیصلے پر بحث کے موقع پر کہ ڈی ایف آئی ملٹی برانڈ ریٹیل میں 51 فیصد کمیشن دے دیا جائے' وزیراعظم منموہن سنگھ کی فتح کس قدر قریب تھی، یعنی 471 موجود اراکین میں 217 کے مقابلے میں حکومت کے پاس 253 اراکین تھے۔

درحقیقت یہ بہت بڑی قربانی کے بعد فتح تھی کیونکہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی دونوں ووٹنگ شروع ہونے سے قبل ہی ایوان سے واک آوٹ کر چکی تھیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے 41 ووٹ تھے۔ حتٰی کہ اگر ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی تحریک التوا کے حق میں ووٹ دے بھی دیتی تب بھی حکومت کو شکست ہی ہونا تھی کیونکہ اپوزیشن لیڈر شسما سوراج نے لوک سبھا میں اپنی نہایت جذباتی اور مدلل تقریر میں یہی دعویٰ کیا تھا۔ شسما نے یہ بھی درست کہا کہ بعض اراکین جو تحریک کے حق میں بولے تھے وہ بھی ووٹنگ کے موقع پر دوسری جانب چلے گئے۔ آخر وہ دو پارٹیاں میدان خالی چھوڑ کر کیوں چلی گئیں، یہ راز اب عوام پر بھی کُھل چکا ہے۔

حکومت کے زیر کنٹرول سی بی آئی نے دونوں لیڈروں کے خلاف کرپشن کے مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ ملائم سنگھ اور مایا وتی کو بخوبی معلوم ہے کہ جب تک یہ لوک سبھا موجود ہے، ان کے سر پر نا اہلی کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ مایا وتی لوک سبھا کے انتخاب میں جب کہ ملائم سنگھ نے ریاستی اسمبلی کی نشست جیتی ہے اور یہ جیت ووٹروں کے ذہن میں ابھی تازہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ موجودہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت ایوان کے تحلیل کیے جانے کے خلاف ہے کیونکہ انھیں یقین نہیں کہ آیا اگلے الیکشن میں انھیں پارٹی ٹکٹ ملتا بھی ہے یا نہیں اور اگر مل بھی جاتا ہے تو وہ انتخاب جیتیں گے یا نہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ ان کے فائدے کی بات ہے مگر ملائم سنگھ اور مایا وتی کے فائدے کی نہیں۔ ملک کے عوام موجودہ پارلیمنٹ سے تنگ آچکے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتی۔ ایک نئی لوک سبھا ممکن ہے بہتر کارکردگی دکھا سکے۔

کانگریس اور بی جے پی دو بڑی پارٹیاں ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے خلاف بڑی کدورت رکھتی ہیں اسی وجہ سے اٗسمبلی کی کارروائی زیادہ تر معطل ہوتی رہی۔ ملک کو شرح نمو میں اضافے کی ضرورت ہے تا کہ لوگوں کے لیے مزید روز گار پیدا ہو سکیں۔ جہاں تک منموہن سنگھ حکومت کا تعلق ہے تو وہ اپوزیشن کے ہاتھوں بالکل مفلوج ہو چکی ہے۔ حکومت کی ہر پالیسی پر اپوزیشن کے مشترکہ چیلنج اور سڑکوں بازاروں میں احتجاج سے سب کام رک گئے ہیں۔ حکمران پارٹی کی کرپشن اور وزیروں اور بیورو کریٹس کی نا اہلی سے حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں کہ وہ لوگ دراصل پیچیدہ مسائل کو سلجھانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

آپ اجناس خوردنی کی تقسیم کا معاملہ ہی دیکھ لیں، ملک کی ایک چوتھائی آبادی رات کو بھوکے پیٹ سوتی ہے دوسری طرف 60,000 ٹن سے زیادہ اجناس پنجاب میں کھلے آسمان تلے پڑی تباہ ہو رہی ہیں۔ ان میں سے بعض ڈھیر تو پندرہ سال سے وہیں پڑے ہیں۔ کسی کا کوئی احتساب نہیں ہو رہا۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس حکم کی بھی کوئی پروا نہیں کی جس میں کہا گیا تھا کہ بجائے اجناس خوردنی کو پڑے پڑے تباہ ہونے کے انھیں غریبوں میں مفت تقسیم کر دیا جائے۔ ایف ڈی آئی کی پرچون فروشی سے صورتحال میں قطعاً کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ کاشتکاروں پر سخت ضرب پڑے گی اور چھوٹے دکاندار بھی ممکن ہے بیروزگاروں کی فوج ظفر موج میں شامل ہو جائیں۔


ملائم سنگھ یادیو ممکن ہے اس دن کو روئے جب اس نے حکومت کی مدد کی تھی کیونکہ اس کا سوشلسٹ کی حیثیت سے تاثر مٹی میں مل گیا ہے۔ غالباً اس کی اور مایا وتی کی نگاہیں آئندہ لوک سبھا انتخابات پر لگی ہیں۔ 545 کے ایوان میں یو پی کی 80 نشستیں ہیں۔کیا ان دونوں نے کہیں حکومت سے کوئی خفیہ ساز باز تو نہیں کر لی کہ انتخابات کے بعد وہ بھی حکومت میں شامل ہو جائیں گے جس طرح کہ نے موجودہ بحران میں حکومت کی مدد کی ہے تو کیا لوک سبھا کے انتخابی نتائج آنے کے بعد وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ پارٹی کے پاس فی الوقت جو 207 نشستیں ہیں آئندہ الیکشن میں ان کی تعداد اس سے بھی کم ہو جائے گی۔

سچی بات ہے کہ میں ایف ڈی آئی کے خلاف ہوں۔ نظریاتی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچے گا۔ آخر ترقی یافتہ ملک صرف ہمارے ملک کی منڈی پر ہی کیوں قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری اتنی بڑی افرادی قوت کو وہ کیوں نظر انداز کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک نے اپنی ویزہ پالیسی بے حد سخت کر دی ہے اور اب تو طلبہ کا تعلیم کے لیے وہاں جانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

مغربی ممالک کے لیے یہ فیشن بن گیا ہے کہ بھارت کی تذلیل کریں کیونکہ یہ ایک آزاد معاشرہ ہے اور چین کی طرح نہیں جہاں افرادی قوت سے بالجبر کام لیا جاتا ہے تا کہ پیداواری لاگت کم سے کم آئے۔ حتٰی کہ اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی جی اصولاً تو آزاد ہونا چاہیے لیکن اس نے بھی ہمیں لیکچر دیا ہے کہ مجموعی نمو کو متاثر کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اس کا ہم پر بہت بُرا اثر پڑے گا۔ پیداوار جب تک بھرپور نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن ایف ڈی آئی ہم پر ٹھونس دیا گیا ہے، حالانکہ ہم کو اس کی ضرورت نہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھی میں چاہتا ہوں ملٹی برانڈ ریٹیل کے حوالے سے ایف ڈی آئی پر مزید بحث اب ختم ہو جانی چاہیے۔

پورے ملک میں اس مسئلے پر گزشتہ ایک سال کے دوران محض مین میخ نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوا۔ حکومت جیت گئی ہے لیکن اسے چوکس رہنا ہو گا کہ ترقی یافتہ ممالک ہماری مارکیٹ کو کس طرح اپنے مفاد میں استعمال کریں گے۔ ملک کا جھنڈا تجارت سے ہی بلند ہوتا ہے جس کا بھارت کو بخوبی تجربہ ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے شروع ہونے والی تجارت ڈیڑھ سو سالہ برطانوی حکمرانی پر منتج ہوئی۔ اس مرتبہ حکمرانی ممکن ہے براہ راست نہ ہو بلکہ وہ پیچھے بیٹھ کر طنابیں کھینچنا بہتر خیال کریں۔

مجھے حکمران کانگریس کی سیاسی مشکلات کا بھی احساس ہے جن سے اسے لوک سبھا میں کامیابی حاصل کرنے گزرنا پڑا۔ ملائم سنگھ یادو اور مایا وتی کے ساتھ سودے بازی کرنا بہت غلط کام ہے۔ ممکن ہے انھیں ایسی پیشکش کی گئی ہو جو حکومت با آسانی پوری بھی نہ کر پائے لیکن اس سے بھی زیادہ بری وہ رعائتیں ہیں جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی جا رہی ہیں۔ پردے سے پیچھے کیے جانے والے سودوں پر ملک کے تاجروں اور کاروباری افراد کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ کاش کہ میرا اندازہ غلط ہو اور اگر ایسا نہیں تو اس کا مطلب ہے کانگریس نے اقتدار میں رہنے کی خاطر سب کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ رائے دہندگان جب 2014ء میں یا اس سے پہلے ووٹنگ کے لیے جائیں گے تو اسے قبول نہیں کریں گے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story