عقائد اور قومیت
پاکستان میں جو زبانیں رائج ہیں ان کو ترقی نہ دی جائے بلکہ قوم پرستی اور نسل پرستی کے فرق کی وضاحت ضروری ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ انسانی فطرت کے مطابق جب کوئی بچہ دنیا میں آتا ہے تو روکر اپنے جذبات کا اظہارکرتا ہے کہ میں بے آرام ہوگیا، شکم مادر میں بغیرکسی محنت کے اس کو خوراک، سانس لینے کی آزادی میسر تھی مگر دنیا میں آتے ہی اسے محسوس ہوا کہ اب وہ بے آرام ہوگیا اور اپنے غل سے مامتا کو متوجہ کرتا ہے اور وہ خوراک کا بندوبست کردیتی ہے۔
اپنی گود کی حرارت سے اس میں تحفظ کا احساس دیتی ہے، آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کی چیزیں، فضا اور سورج کی روشنی، رات کو چراغ یا بجلی کی روشنی دیکھتا ہے، مگر آنکھیں کھلنے میں بعض اوقات چند دن لگ جاتے ہیں، جوں جوں بڑا ہوتا ہے ماں کی زبان سے متاثر ہوکر نہ صرف زبان بلکہ عقائد بھی جذب کرتا رہتا ہے پھر لباس، کھانا پینا، پہننا اوڑھنا گویا وہ اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ یہ ثقافتی اور تہذیبی اثر زبان و بیان اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ اس کے مذہبی عقائد سے متصادم ہونے لگتا ہے گوکہ امت اسلامیہ وحدت کے اعتبار سے اکائی ہے اور یہ اکائی اپنے اندر قوت بھی رکھتی ہے جس پر علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
اور اکثر ایسا ہوتا بھی ہے کہ اگر بنیادی عقائد پر کوئی ضرب پڑتی ہو تو وہ نیل کے ساحل سے خاک کاشغر تک ایک آواز بلند کرتے ہیں مگر جب مسئلہ نان، زر وجواہر کا ہوتا ہے تو پھر مذہبی عقائد کو بھولتے ہوئے یا ذاتی مفاد کی خاطر اس کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ میراث کے لیے اولاد میں تصادم، ترکہ پر جھگڑا گھر گھر کی تقسیم کا معاملہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ پراپرٹی کے مقدمات اس قدر ہیں کہ فیصلے میں برس ہا برس لگ جاتے ہیں گوکہ وہ ایک ہی خدا اور رسول کے علاوہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں۔ پس ظاہر ہوا کہ انسان مالی مفادات کے لیے انصاف کے بجائے حرص سے کام لیتا ہے، ہاں اگر وہ تعلیم یافتہ ہے اور تربیت کے جواہر سے مرصع ہے تو پھر وہاں تصادم کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا تعلیم اور تہذیب کے جواہر سے آراستہ ہو تو استدلال منطق اور حق کو پرکھتا ہے اور جنگ وجدل کی آگ نہیں بھڑکتی۔ یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک گھر میں ووٹ الگ الگ امیدواروں کو جاتے ہیں مگر جب برادری سسٹم، جاگیرداری کا زور غالب ہوتا ہے اور برادری کی برتری کا رویہ ایسا نہیں ہونے دیتا ہے لہٰذا تعلیم اور تربیت اور حالت جنگ و جدل کو صلح اور حق میں بدل دیتے ہیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمانوں میں تاریخ کا مطالعہ کم ہوتا جارہا ہے، علم و ادب کے اکابرین کا تذکرہ نہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر سنتے ہیں اور نہ ہی گھر میں آگہی کے چراغ ہیں، البتہ لے دے کر عقائد اور نظریات کی ترویج جاری ہے، جس کے عوض پختہ کاری کے رجحانات پرورش پارہے ہیں اور یہ رجحانات مسلم دنیا میں بڑھ رہے ہیں جو قومی تنازعات اور فروعی جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اگر اس کا مزید گہرائی سے تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ جنگ کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔
اس کی مثال شام ہے جہاں علوی حکمرانوں کے خلاف سلفی مسلمانوں کی جنگ ہے اور دیگر اقوام اس میں شامل ہوگئی ہیں۔ یہ تو ہے بڑے پیمانے پر فقہی یا مذہبی نظریات کے درمیان فاصلہ جو وحدت کا دامن چیر رہا ہے۔ مصر میں انقلاب کے بعد آج وہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے، محمد مرسی کی حکومت اور ان کے مخالفین اب ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں، مخالفین کا الزام یہ ہے کہ اگر یہ دستور منظور ہوگیا تو پھر وسیع النظر اسلامی فلاحی ریاست کے بجائے مسلمانوں کے سلفی عقائد کی یہ پرورش گاہ بن جائے گا، حالانکہ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اخوان المسلمین نے صدر جمال ناصر کے عہد سے حسنی مبارک تک بہت سیاسی قربانیاں دی ہیں مگر جہاں اسلامی نظریات میں تشریحات کا فرق ہو وہاں بالغ النظری کا ثبوت دینا ہوتا ہے جو ممکن ہے کہ محمد مرسی، البرادعی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کوئی متفقہ فارمولا طے کرلیں ورنہ دوبارہ یہ اقتدار فوج اور نیٹو کے ہاتھوں میں یرغمال ہوجائے گا اور دونوں فریقوں کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔
ان دنوں بنگلہ دیش میں بھی شورش برپا ہے، خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کے کارکن بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں سیاسی دھڑے بندی ہے مسالک کی جنگ نہیں ہے۔ لہٰذا بنگلہ دیش گردش و آلام سے دور رہے گا۔ البتہ اگر شورش بڑھی تو بنگلہ دیش کو جو معاشی استحکام نصیب ہوا ہے وہ یقیناً مجروح ہوگا اور اب نظر کیجیے اپنی طرف تو یہ نظر خود شرمندہ ہوکر اٹھ نہیں پاتی کیونکہ گفتار کے غازیوں کی ایک فوج ہے جن کو عرف عام میں لیڈران کہا جاتا ہے ان میں کسی قسم کی صلاحیت نہیں ماسوا مال کمانے کے اس شعبے میں ان کا دماغ بہت رسا ہے۔ اس پر سے طرفہ تماشا یہ کہ پاکستان گوناگوں مسائل سے گھرا ہوا ہے، یہاں مسلمانوں کے درمیان مسالک کی تفریق میں اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری جانب ایک اور پہلو ہے وہ یہ کہ یہ تفریق پاکستان بھر میں بڑھتی جارہی ہے، ایک تو قومیت کی تقسیم کیا کم تھی اس پر سے مسالک کی تقسیم!! ہر فرقہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ فلاں فرقہ ہمارا دشمن ہے اور ہماری معاشی پستی میں اس کا بڑا ہاتھ ہے، کلیدی آسامیاں اس فرقے کے پاس ہیں جب کہ دوسرا فرقہ بھی یہی سمجھ رہا ہے لہٰذا پاکستان کے مسائل کثیر القومی مسائل کہے جاسکتے ہیں جب کہ ان کو حل کرنے کے لیے کسی میں جرأت نہیں اور نہ ہی دوربینی ہے۔ سندھ یا بلوچستان ہر برسات میں ڈوب جائے ، سارا پانی جو رحمت خداوندی ہے پھر سمندر کی نذر ہوجائے مگر ڈیم نہیں بنے گا، اس پر ملک میں اتفاق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ ووٹ بینک کا معاملہ ہے۔
آپ ذرا غور کیجیے پچھلے دنوں سرکاری خرچ پر اشتہارات کی مہم چلی جس کے بول پر غور فرمائیے! ''سندھ کی حکومت پاکستان کی خدمت ہے'' تو سندھ پر ہی کیا منحصر ہے ملک کے کسی بھی صوبے کی کسی بھی علاقے کی کسی کوچہ و بازار کی خدمت پاکستان کی خدمت ہے۔ یہ جراثیمی حملہ ایک تنگ نظری کے علاوہ کچھ نہیں اور ملک کے معروف دانشور اس اشتہار کی زینت تھے۔ پاکستان کی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی داخلی یا خارجی امور پر کوئی رائے نہیں رکھتی اس لیے اس کا کوئی منشور نہیں ہے۔
یہاں نسل پرستی، تنگ نظری اور فرقہ پرستی پر انتخابی فیصلے ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر جب کہ ہمارے پڑوسی ممالک سے ہماری دوستی کی منزل بہت دور ہے یہاں صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک جنگ کی سی کیفیت ہے، صوبہ کا نام بدلا گیا اچھی بات ہے مگر کیا نام بدلنے سے عوامی مسائل کم ہوئے؟ کراچی اور پشاور کے راستے ٹرین کے راستے بند ہوگئے۔ بے چارے مزدوروں کو بسوں کی کڑی مسافت طے کرنی پڑ رہی ہے، جس سے تھوڑے سے مفاد پرستوں کا فائدہ ہے اور عام پختون اس ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ درحقیقت یہ لیڈران کرام ہیں جس مسئلے کو چاہیں بڑا مسئلہ بنادیں اور بڑے سے بڑے مسئلے کو معمولی مسئلہ بنادیں۔ اصل مسئلہ صنعتی پیداوار کا ہے، روزگار کا ہے، اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو پھر ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا اور مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے کو ہے۔
اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں جو زبانیں رائج ہیں ان کو ترقی نہ دی جائے بلکہ قوم پرستی اور نسل پرستی کے فرق کی وضاحت ضروری ہے، اسی طریقے سے مذہب میں تفریق اور تقسیم کے عمل کو عوام کے سامنے واضح کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان میں تصادم کا راستہ قریب تر ہوجائے گا۔