لبرل ازم کا دلکش منظر نامہ حصہ اول
سیاسی آئیڈیالوجی بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے مذہبی آئیڈیاز کو استعمال بھی کرتی ہے۔
کلاسیکی لبرل ازم، جدید لبرل ازم اور عہد حاضر کے ''تکثیری'' لبرل ازم کا کوئی بھی تصورہو، ان کی اساس میں قدیم مذہبی وسماجی اور سیاسی تصورات ہی موجود ہیں یعنی اس کی بنیاد کسی نئے نظریے پر نہیں ہے مثلاً یہ برداشت، مساوات، انفرادی حقوق، سماجی و ثقافتی شناخت کو اہمیت دیتا ہے۔ لبرل ازم میں رالز کی تحریروں کو بہت اہمیت حاصل ہے، اس کا respect equal کا آئیڈیا دو سطحوں پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایک، بلاتفریق انصاف کا اصول، دوسرا پہچان یا شناخت کی خصوصیت، لیکن یہ خود اپنے آپ میں تضادات کا شکار ہوجاتا ہے۔
چارلس ٹیلر جو ایک کینیڈین نظریہ ساز ہے، رالز پر تنقید کرتے ہوئے لبرل ازم کے اسی تضاد کی نشان دہی کرتا ہے کہ لبرل ازم نہ صرف مذہب کے ساتھ تضاد میں آتا ہے بلکہ یہ اپنے آپ کے ساتھ بھی اس وقت تضاد میں الجھ جاتا ہے جب یہ ایک طرف تو بلاتفریق، مساوی حقوق اور آزادی کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف انفرادی پہچان یا شناخت کو اہمیت دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مثلاً اگر یہ مساوی حقوق کی تقسیم کرے گا تو اسے انفرادی حقوق اور شناخت کو نظرانداز کرنا پڑے گا اور اگر یہ انفرادی شناخت اور حقوق کو مدنظر رکھے گا تو افتراق کا عمل آراء ہونا کسی صورت بھی روکا نہیں جاسکتا۔
ویسے بھی یہ تمام آئیڈیاز جن کو لبرل ازم متعارف کرانے کا دعویٰ ہے، ابتدائی سماج اور مذاہب میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہے ہیں۔ مثلاً مساوات، انصاف، بلارنگ و نسل انسانی حقوق، خواتین کے حقوق جن کو پہلی بار اسلام میں تسلیم کیا گیا، خصوصاً معاشی حقوق یعنی جائیداد میں تقسیم کے اصول اور خصوصاً انفرادی انسان کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کو ناپسند کیا گیا، تو پھر ہم کیا سمجھیں کہ لبرل ازم نے ایسا کون سا انوکھا آئیڈیا متعارف کرایا ہے کہ اس کے گن گائے جائیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی آئیڈیالوجی ہے جو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے مذہبی آئیڈیاز کو استعمال بھی کرتی ہے۔ جب عملی سطح پر اس کا اطلاق بین الثقافتی تناظر میں مشکل ہوجاتا ہے تو انہی کے ساتھ تضاد میں آجاتی ہے۔ لبرل ازم آفاقی آئیڈیالوجی نہیں بن سکتی، اس کا تکثیری ثقافتوں کی پہچان پر اصرار کرنا اس لیے ضروری تھا کہ ایک طرف پِسے ہوئے سماج کے ابھرتے ہوئے مفکروں کے خیالات کے سامنے انھیں ایک ڈھال کی ضرورت تھی جو مغرب کی استحصالی پالیسیوں کے لیے ماسک کا کام کرسکے، کیونکہ فرانز فینن کا تشدد کا آئیڈیا افریقہ سمیت بہت سے پسے ہوئے طبقات میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔
دوسری طرف امریکا اور یورپ کو سرمایہ دارانہ استحصالی نفسیات کے تحت پسے ہوئے طبقات کے دماغوں میں یہ پختہ کرنا مقصود تھا کہ آپ ایک کمتر طبقے سے وابستہ رہے ہیں اور ہم نے آپ کو ایک 'اچھی اور اعلیٰ' پہچان دی ہے، بظاہر یہ عمل مغربی ممالک میں تکثیری ثقافتوں کے تاریخی واقعات اور رسم و رواج کو مختلف صورتوں میں جشن کی صورت دہرایا جاتا ہے مگر ان کا اصل مقصد ماضی کے ناپسندیدہ نقش کو لوگوں کے اذہان میں پختہ کرنا ہوتا ہے جو ان کی نفسیات پر وہی اثر ڈالے جو آقا اپنے غلام کے لیے سوچتا ہے۔
دوسری اہم مثال نائن الیون کا واقعہ ہے جس کو گزشتہ دس برسوں میں ہر سال اسی جگہ پر شمعیں روشن کرکے بظاہر مرنے والوں کی یاد میں منایا جاتا ہے مگر اس کے پسِ پردہ وہی مقصد ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کے اذہان سے اس واقعے کو محو نہ ہونے دیا جائے تاکہ وہ اسلام سے نفرت کرنا نہ بھول جائیں جس کی وجہ سے ان کے پیاروں کو موت کے گھاٹ اترنا پڑا۔ پاکستان میں لبرل ازم کے پیروکار جو کچھ بھی کرتے ہیں انھیں لبرل ازم کے بنیادی نظریے اور اس کے مقصد کے حوالے سے پورا علم ہونا چاہیے۔ لبرل ازم ایک سیاسی اظہار ہے جس کے اندر مغرب کے ثقافتی و مذہبی عقائد بھی بوقت ضرورت استعمال ہوتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مغرب والے اپنے مذہبی عقائد سماجی و ثقافتی آئیڈیالوجی کے ذریعے قابل عمل بنائے رکھتے ہیں۔
سیاست اور لبرل ازم میں تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ یہ جدید سیاست میں ایک اہم سوال ہے۔ اگر میں ان کی معاشی اور فکری اساس الگ الگ ہونے کے باوجودکوئی فرق نہیں سمجھتی تو یہ درست نہیں ہے۔ ان کی فکری اساس الگ ہوسکتی ہے مگر میں سمجھتی ہوںکہ معاشی اساس الگ نہیں بلکہ ان کی جڑوں میں اصل مرکز بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لبرل ازم اور مذہبی عقائد میں پائے جانے والے تمام افتراقات کے باوجود ان کی جڑ مشترک ہے اور ذریعہ سیاست ہے جس میں طاقت کے حصول کے لیے ان دونوں خیال کے عقائد اور نظریات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، خصوصاً عوامی تحریکوں کو چلانے کے لیے۔ جب کہ لبرل ازم بذاتِ خود سیاسی خیالیات ہے جس کے ذریعے مغربی ممالک خصوصاً مذہب کو بنیاد بنا کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔
جب مذہب کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب بھی ہوتے ہیں مگر ہمارے یہاں کے نام نہاد لبرلز مغرب کے ہی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام پر تنقید کرنے کو ہی لبرل ازم سمجھتے ہیں۔ (میں یہاں یہ واضح کردوںکہ اس تحریر کا مقصد مذہب یا لبرل ازم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ عملی سطح پر ان کی کچھ اصطلاحات کو لاگو کرکے ان کی حقیقت کو جانچنا ہے) لبرل خیالیات میں جب آزادی کی بات ہوتی ہے جو اس کی روح ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مذہبی خدا اور اس کے احکامات کی نفی پر اصرارکیا جائے بلکہ لبرل ازم کی تحریک مذہب کے نام پر استحصال کرنے والے ان دنیاوی خداؤں کے خلاف پروان چڑھی جنھوں نے لوگوں کو مذہب کا استعمال کرکے اپنا غلام بنا رکھا تھا، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تاریخ کو نظر میں رکھا جائے۔ لبرلز مذہبی عقائد کو نشانہ بناتے ہوئے اعتراض کرتے ہیںکہ مذہب میں انسان ایک عظیم طاقت کے احکامات کا پابند ہے یعنی خدا کے احکامات کی روشنی میں ہی افراد کی سرگرمیاں ترتیب پاتی ہیں اور جیسا کہ لبرل ازم کی بنیادی تعریف میں ہے کہ:
لبرل ازم انسان کی مرکزیت کو تسلیم کرتا ہے، مذہب خدا کی مرکزیت کا قائل ہے۔ لبرل ازم انسان کی مرضی کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتا، مذہب انسان کی مرضی کی نفی کرتا ہے۔
میں تھیوری کی سطح پر ان خیالات کو حتمی مان لیتی اگر میں اس بات کا شعور نہ رکھتی کہ تھیوریوں کی حیثیت اس وقت تک تجرید کے سوا کچھ نہیں ہوتی جب تک یہ عملی سطح پر اپنے آپ کو منوا نہ لیں۔ مثلاً ''لبرل ازم انسان کی مرکزیت کو تسلیم کرتا ہے'' یہ میرے نزدیک محض ایک نعرہ ہے جو سیاست میں استعمال ہوتا ہے اور اسی طرح ''مذہب خدا کی مرکزیت کا قائل ہے'' یہ بھی مذہبی لوگوں کی سیاست کا نعرہ ہے۔ ان نعروں کی حقیقت جاننے کے لیے ہم اپنے سماج سے کچھ عملی مثالیں دیکھتے ہیں یا پھر یہ دیکھتے ہیں کہ ان خیالات کا عملی اطلاق کس حد تک ہوا ہے جو ان 'نعروں' کی سچائی کو ثابت کرے نیز یہ بھی ثابت کرے کہ یہ دونوں خیالات حقیقتاً عملی سطح پر الگ الگ ہیں اور متفقہ طور پر استحصالی طبقات ان کوسیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
(جاری ہے)