بائیں بازو کی جماعتوں کا انضمام
عوام میں اس بارے میں آگہی پیدا کی جائے جس سے پاکستان میں اسلامی عسکری تنظیمیں اور انتہا پسندی پیدا ہوئی۔
2010ء میں ورکرز پارٹی اورکمیونسٹ پارٹی مزدور کسان(CPMK)کے انضمام کا اعلان کیا گیا تھا جس کا بائیں بازوکے متعدد دانشوروں نے خیر مقدم کیا تھا۔اب بائیں بازو کی دو اور جماعتیں، لیبر پارٹی اور عوامی پارٹی بھی اس میں شامل ہوگئی ہیں۔اس طرح حقیقت میں اب نئی عوامی ورکرز پارٹی(AWP)کے پاس چار جماعتوں کی طاقت آ گئی ہے۔ان میں سے ہر جماعت کا ملک کے مختلف حصوں میں اپنا اپنا دائرہ اثر ہے۔محنت کش عوام کی حامی تمام قوتوں نے بائیں بازو کے مختلف گروپوں کے ادغام کا خیر مقدم کیا ہے۔
تاہم انضمام کی دستاویز میں بہت سے ایسے سوالوں کو تشنہ چھوڑ دیا گیا ہے جن کا جواب بائیں بازوکی جماعتوں اور دانشوروں کو بلا تاخیردینا چاہیے تھا۔سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جوحالات پیدا ہوئے ان میں بائیں بازوکو متعدد سوالوں پر بحث کرنی چاہیے تھی اور ان کا جواب دینا چاہیے تھا تاکہ مستقبل کا راستہ متعین کیا جا سکتا۔ان تمام پرانی تدبیروں پر نئے سرے سے غور کرنا بھی اہم ہے جو کارگر ثابت نہیں ہوئیں اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر اپنی جانب مائل نہیں کر پا رہیں۔
بہت عرصہ پہلے،میں نے تجویز پیش کی تھی کہ آج جب بائیں بازو کے لوگ اکٹھے بیٹھ کر گلوبلائزیشن اور عالمی سرمایہ داری پر بحث کرتے ہیں تو ایسے میں کمیونسٹ مینی فیسٹو کا از سر نو مطالعہ کرنا چاہیے۔
''مضبوطی سے جمی ہوئی تمام قدیم صنعتوں کو تباہ کردیا گیا یا روزانہ بربادکیا جا رہا ہے۔ ان کو ختم کر کے نئی صنعتیں لگائی جاتی ہیں، جن کی ترویج تمام مہذب قوموں کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن جاتی ہے۔ان کی جگہ ایسی صنعتیں لگائی جاتی ہیں جو دیسی خام مال سے نہیں چلتیں بلکہ ان کے لیے دنیا کے دور دراز مقامات سے خام مال منگوایا جاتا ہے ۔ یہ ایسی صنعتیں ہوتی ہیں جن کی پیداوار نہ صرف ملک کے اندر بلکہ دنیا کے ہر حصے میں استعمال ہوتی ہے۔پرانی ضروریات کی جگہ جو ملکی پیداوار سے پوری ہوتی ہیںہم نئے تقاضوں کو دیکھتے ہیں جو مختلف خطوں اور ماحول کی پیداوار کے لیے ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔قدیم مقامی ،قومی ضروریات سے ہم آہنگ طریقوں اور خودکفالت کی بجائے ہمیں ہر سمت میں ہاتھ پائوں مارنے پڑتے ہیں،یہ اقوام کا ایک دوسرے پر عالم گیر انحصار ہے۔
سیاسی مفکرمائیکل جے سینڈل نے تجویز پیش کی تھی کہ لوگوں کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ'' کون سے ٹکرائو اور رکاوٹیں محض ضیاع اور نا اہلی کے وسیلے ہیں اورکون سی شناخت کا ایسا ذریعہ ہیں جن کی ہمیں حفاظت کرنی چاہیے۔'' گلوبلائزیشن کو مکمل طور پر رد کرنا دانشمندی نہیں ہے۔یہ کام ہمیں مذہبی جماعتوں پر چھوڑ دینا چاہیے اور بائیں بازو کو ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔بائیں بازو کے لیے بہترین سوچ شاید یہ ہو گی کہ وہ گلوبلائزیشن کا باریک بینی سے جائزہ لے اور ان عوامل کی حمایت کرے جو عوام کے معیار زندگی کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں اور جہاں یہ عوام کیخلاف ہو وہاں ایسے متبادل طریقے تجویز کرتے ہوئے اس کی مخالفت کرے جو نادیدہ مستقبل میں نہیں بلکہ آج قابل عمل ہیں۔
چنانچہ بائیں بازوکا فوری ایجنڈا یہ ہونا چاہیے کہ وہ مارکیٹ میں سماجی اور انسانی مسائل اور منافعے کی بنیاد پر عالمی نظام پر توجہ مرکوزکرے۔بائیں بازو کی موجودہ طاقت(جتنی بھی ہے) اور رسائی کے پیش نظر اسے بہترین لفظوں میں عوام کے لیے لابی کرنیوالے قرار دیا جا سکتا ہے جسے پالیسی بنانے اور معاشی فیصلے کرنیوالوں پر دبائو ڈالتے اور یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ انھیں اپنے طبقاتی مفاد سے اوپر اٹھنا ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ: لوگوں کو جو غریب اور مصائب زدہ ہیں ،اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ سرمایہ داری نظام اوراس کے عالمی اظہارکی ہر اچھائی اوربرائی کو مسترد کر دیں؟ اور اپنی نجات کے لیے اس وقت تک انتظارکریں جب تک سوشلسٹ انقلاب نہیں آ جاتا؟کئی عشروں تک ہم کہتے رہے کہ بس انقلاب آیا کہ آیا...تھوڑا سا انتظار اور...مگر ہم یہ انقلاب لانے میں ناکام رہے۔جن معاشروں میں انقلاب کامیاب رہا وہاں اسے برقرار نہ رکھا جا سکا ۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان ملکوں کو اختیارات کی انتہائی مرکزیت والی نااہل بیوروکریٹک ریاستوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
آج ہم اس مرحلے سے گزر چکے ہیں پرانے نسخے اب قابل اطلاق نہیں رہے۔ہم اطلاعات کے دور میں ہیںجہاں علم سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔آپٹیک فائبر،گلوبل لنکیج،سیٹلائٹ اور انٹر نیٹ فراہم کرنیوالوں کا بھلا ہو کہ آج علم چند افراد کی ذاتی جاگیر نہیں رہا۔ٹیکنالوجی،ترقی پذیر دنیا میںلوگوں کو مزید مواقعے فراہم کر رہی ہے۔اس سب کچھ سے معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔
پاکستان میں تاریخ کے اس موڑ پر عوامی ورکرز پارٹی کو ان بڑے مسائل کی نشاندہی کرنی چاہیے جس کا سوسائٹی کو سامنا ہے اور پھر ان کی ترجیح کو ترتیب میں لانا چاہیے۔آج ہمیں غیر ضروری تنقید اور پاکستان کی تاریخ میں الجھے بغیر جسے ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں، ملک کو درپیش انتہائی فوری نوعیت کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ترجیح کے لحاظ سے یہ مسائل درج ذیل ہیں؛
1۔ قومی سلامتی کی موجودہ پالیسی سے پاکستان کے عوام کو لاحق خطرے کے خلاف آگہی پیدا کی جائے جس سے پاکستان میں اسلامی عسکری تنظیمیں اور انتہا پسندی پیدا ہوئی۔
2۔یہ شعور پیدا کیا جائے کہ جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا ہو گا اور ریاست کے سیکیورٹی ادارے کو منتخب قیادت کی پالیسیوں پر عمل کرنا چاہیے۔
3۔ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری دینے کی تمام کوششوں کی حمایت کی جائے۔
4۔ حکومت کو ایسی معاشی پالیسیاں بنانے پر مجبور کر کے غربت کے خاتمے کے لیے کام کیا جائے جن سے تیزی سے بڑھتی ہوئی دولت کی تقسیم کو کم اور غریبی کو ختم کیا جا سکے۔
اس وقت ہمارے زیادہ تر سیاسی اور معاشی مسائل کا براہ راست تعلق ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے ہے ۔یہ معاملہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی سے جڑا ہوا ہے جو پچھلے65برسوں کے دوران اسلامی عسکریت پسند گروپوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔عوامی ورکرز پارٹی نے بجا طور سے اس معاملے کو اٹھایا ہے مگر اسے مسئلہ نمبر ایک کی حیثیت سے ترجیح نہیں دی گئی۔
پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری دینے کا ہے۔یہ فوری نوعیت کا معاملہ ہے کیونکہ پچھلی چھ دہائیوں کی نا انصافیوں کی وجہ سے بلوچستان میں مسائل گھمبیر ہو چکے ہیں۔جمہوری قوتوں کو نہ صرف صوبوں بلکہ شہری حکومتوں کو بھی اختیارات کی منتقلی کی حمایت کرنی چاہیے۔ہمیں اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ جمہوریت میں لوگوں کو زیادہ اختیاردینا ارتقائی عمل ہے۔غربت میں کمی کے لیے کیا کیا جائے؟پہلی بات تو یہ ہے کہ معاشی ترقی کے لیے ملک کے اندر اور اس کے آس پاس پر امن ماحول اور ایک مستحکم حکومت پیشگی شرط ہے ۔اگر معاشی ترقی نہیں ہو گی تو غربت ختم نہیں ہو گی بلکہ اس میں اضافہ ہو گا۔
تاہم پہلے مرحلے میں ہمیں دولت کی زیادہ مساوی تقسیم کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ سماجی شعبے کے لیے بجٹ میں اضافہ کرے۔سماجی شعبے میں اس سرمایہ کاری کا براہ راست تعلق ملک میں انسانی ترقی کے افسوسناک اعشاریے کو بہتر بنانے سے ہے۔انقلاب نظر نہیں آ رہا،اضافی فوائد کی فوری ضرورت ہے ۔بائیں بازو کے نظریے کے تنگ نظر اطلاق نے بائیں بازو کو غیر متعلق کر دیا ہے۔بنیادی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔