نوشتہ دیوار
اس وقت ملک کی نیّا منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے
RAWALPINDI:
اس وقت ملک کی نیّا منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک طرف سی پیک منصوبے کی کامیابی داؤ پر لگی ہے تو دوسری جانب بھارت کی طرف سے کسی بھی وقت حملے کا چیلنج درپیش ہے اور تیسری طرف اندرونی دہشتگردی کا عذاب سر درد بنا ہوا ہے۔ یہ وقت یقینا قومی یکجہتی کا متقاضی ہے۔ خوش قسمتی سے اس گمبھیر صورتحال میں ملک کی تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیاں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
ایک طرف ہمیں بھارت سے شکایت ہے کہ وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے کبھی اڑی توکبھی پامپور جیسے ڈرامے مقبوضہ کشمیر میں رچا رہا ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھونگ بھی دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کی بھارت کی طرف سے بہت تشہیرکی گئی مگر اس جھوٹ کو کہیں بھی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی، اب یہی سرجیکل اسٹرائیک مودی کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ پوری بھارتی اپوزیشن اس کا ثبوت مانگ رہی ہے مگر اب مودی جھوٹ کو بھلا کیسے سچ میں بدل سکتے ہیں۔
پاکستان بیشک کشمیریوں کو سفارتی سیاسی اوراخلاقی مدد دینے کا دعویدار ہے مگر اس کی ایک سیاسی پارٹی نہ بھارتی حملے کے خطرے کو خاطر میں لا رہی ہے اور نہ ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا کوئی پاس رکھتی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے گزشتہ دنوں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے باوجود وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قریب ایک بڑا عوامی اجتماع منعقد کیا جب کہ ''را'' اور افغان ''خاد'' کے ایجنٹ موقعے سے فائدہ اٹھا کر کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال پیدا کرسکتے تھے جس سے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوسکتا تھا اور اس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ وہ واضح طور پر اعلان کرچکا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہے۔
اب اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال کا حامل اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان ہے۔ تحریک انصاف نے رائیونڈ کے جلسے سے لے کر اسلام آباد بند کرنے تک کے لیے تمام ہی سیاسی پارٹیوں سے رابطے کیے مگر کسی بھی پارٹی نے ساتھ دینے کی حامی نہیں بھری۔ ان پارٹیوں میں چوہدری برادران اور طاہر القادری کی پارٹیاں بھی شامل ہیں خاص طور پر طاہر القادری ماڈل ٹاؤن سانحے کی وجہ سے سخت ناراض ہیں مگر انھوں نے بھی ملک کی نازک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے خود کواس سے دور رکھا ہے۔
دراصل کپتان کی خوش فہمی کی وجہ سے ہی پارٹی کا گراف دن بہ دن نیچے آرہا ہے جس کا واضح ثبوت گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جن میں تحریک انصاف کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ وہ ایک دو جگہوں پر اپنی پہلی جیتی ہوئی سیٹیں بھی گنوا چکی ہے۔ عوام کسی بھی سیاسی پارٹی سے مطمئن ہونے کے بعد ہی ووٹ دیتے ہیں۔اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما ملکی مفاد سے زیادہ پارٹی مفاد کو اہمیت دے رہے ہیں۔
کپتان صاحب کا قول ہے کہ وہ جو ایک بار فیصلہ کرلیتے ہیں وہ اسے کبھی نہیں بدلتے مگر سیاست میں کوئی فیصلہ حتمی نہیں ہوتا کیونکہ سیاست میں ذاتی انا کا معاملہ نہیں چلتا۔ عمران خان نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ الطاف حسین کے بعد اب پیپلزپارٹی کو بھی آصف علی زرداری کو پارٹی سے مائنس کر دینا چاہیے۔ اس بیان پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کسی کے کہنے سے کوئی مائنس نہیں ہوسکتا۔
مائنس اور پلس کا معاملہ دراصل عوام کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہیں مائنس کردیں اور جسے چاہیں پلس بنادیں کپتان خود اپنی ذات پرکیوں غور نہیں کرتے کہ کہیں ان کی پارٹی کو تمام ضمنی انتخابات میں عوام نے ووٹ سے محروم کرکے انھیں مائنس تو نہیں کردیا؟ عام انتخابات کے وقت ان کی نئی پارٹی سے بہتر امیدیں باندھ کر عوام نے انھیں زبردست پذیرائی بخشی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جگہ لے لی تھی مگر صرف ڈھائی سال ہی ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن) سے ہارتی چلی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف میں حالانکہ شاہ محمود جیسے جہاندیدہ سیاستداں موجود ہیں مگر لگتا ہے خانصاحب کے آگے وہاں کسی کا چراغ نہیں جلتا۔
تحریک انصاف کے سابق صدر مخدوم جاوید ہاشمی ایک انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ خان صاحب پارٹی کے کسی بھی لیڈرکی مقبولیت دیکھ کر خود ہی اندرون خانہ اس کے خلاف تحریک چلانا شروع کردیتے ہیں۔ کئی بزرگ سیاستدانوں نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ پارٹی سے باہرکے کسی بھی شخص کی ہدایات پر عمل نہ کریں اور دھرنوں میں اپنا وقت خراب کرنے کے بجائے اپنے صوبے خیبرپختونخوا کی خبر لیں جہاں عوام کی بے چینی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان درپردہ نواز شریف کے حق میں کام کر رہے ہیں ان کے گزشتہ دھرنے نے عوام کو ان کے خلاف کیا جس کا نقصان انھیں اور فائدہ نواز شریف کو ہوا۔ اب اگر وہ اسلام آباد بند کرتے ہیں تو اگلے الیکشن میں خیبر پختونخوا کے ہاتھ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے الیکشن میں بھی کہیں پچھتانا نہ پڑے۔ اب جہاں تک الطاف حسین کے مائنس ہونے کا سوال ہے وہ عوامی امنگوں کے خلاف نعرے اور بیان بازی کرکے عوامی عدالت میں مائنس ون قرار دے دیے گئے ہیں۔اس وقت ایم کیو ایم پاکستان حب الوطنی کی آزمائش میں سو فیصد سرخرو ہوکر مہاجروں کی مکمل حمایت حاصل کرچکی ہے۔ اب اسے چاہیے کہ وہ مہاجروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جو ابتدائی ایجنڈا تیار کیا گیا تھا اسے آگے بڑھائے۔
بدقسمتی سے ایم کیو ایم پر غیر ملکی ایجنڈے کے تھوپے جانے کی وجہ سے مہاجرین کے اصل مسائل یکسر نظر انداز ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کے لیے ناسازگار حالات ضرور ہیں مگر فاروق ستاراور ان کے رفقا اپنی ذہانت اور فراست کو بروئے کار لا کر حالات کو سازگار بنالیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم آج ان ہی کی جرأت ہمت اور استقامت کی وجہ سے قائم و دائم ہے ورنہ لندن کے بے ہنگم فیصلوں نے تو اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ مصطفیٰ کمال اور آفاق احمد بھی فاروق ستار اور ان کے احباب کو گلے لگالیں۔
یہ دونوں حضرات جس مشن پر گامزن تھے وہ اب اس میں سو فیصد کامیاب و کامران ہوچکے ہیں تو اب جب اختلاف کی جڑ ہی ختم ہوگئی تو پھر دوریاں کیسی؟ ان تینوں کے شیروشکر ہونے سے ایم کیو ایم اپنی پرانی عوامی طاقت حاصل کرلے گی۔ ایم کیو ایم کو صحیح راستے سے بھٹکانے والوں نے حقیقتاً مہاجروں کی نسلوں کو تباہ کردیا ہے۔ اب مہاجر کسی شخص کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے وہ اب اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے سارے پاکستانیوں سے مل جل کر سخت محنت کریں گے۔ یہ بات سب پر ہی عیاں ہے کہ مہاجرین پاکستان سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں آج بھی ہمارا ازلی دشمن انھیں اپنا اصل حریف گردانتا ہے۔
اندرا گاندھی پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ان بھگوڑوں (مہاجروں) نے پاکستان بنایا ہے اور وہی اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کی اصل جنگ ان ہی کے صوبوں میں لڑی گئی تھی اور اسی لیے قیام پاکستان کے بعد ان کا قتل عام ہوا۔ ان ہی قربانیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کے ہر صوبے کے مسلمانوں نے مہاجروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور مہمان نوازی کا حق ادا کردیا تھا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ 1946ء میں جب بہار میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو سندھ کے مسلمانوں نے انھیں سندھ میں آباد ہونے کی کھلی دعوت دی تھی۔ کراچی کی بہار کالونی آج بھی اس بھائی چارے کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس طرح سندھیوں نے مہاجروں کی قیام پاکستان سے پہلے سے ہی مہمان نوازی شروع کردی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی تشکیل میں تمام ہی مسلمانوں نے اپنے طور پر قربانیاں دی تھیں چنانچہ اسے قائم و دائم رکھنا اور ترقی دینا ہم سب کی ذمے داری ہے۔
اس وقت ملک کی نیّا منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک طرف سی پیک منصوبے کی کامیابی داؤ پر لگی ہے تو دوسری جانب بھارت کی طرف سے کسی بھی وقت حملے کا چیلنج درپیش ہے اور تیسری طرف اندرونی دہشتگردی کا عذاب سر درد بنا ہوا ہے۔ یہ وقت یقینا قومی یکجہتی کا متقاضی ہے۔ خوش قسمتی سے اس گمبھیر صورتحال میں ملک کی تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیاں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
ایک طرف ہمیں بھارت سے شکایت ہے کہ وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے کبھی اڑی توکبھی پامپور جیسے ڈرامے مقبوضہ کشمیر میں رچا رہا ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھونگ بھی دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کی بھارت کی طرف سے بہت تشہیرکی گئی مگر اس جھوٹ کو کہیں بھی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی، اب یہی سرجیکل اسٹرائیک مودی کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ پوری بھارتی اپوزیشن اس کا ثبوت مانگ رہی ہے مگر اب مودی جھوٹ کو بھلا کیسے سچ میں بدل سکتے ہیں۔
پاکستان بیشک کشمیریوں کو سفارتی سیاسی اوراخلاقی مدد دینے کا دعویدار ہے مگر اس کی ایک سیاسی پارٹی نہ بھارتی حملے کے خطرے کو خاطر میں لا رہی ہے اور نہ ہی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا کوئی پاس رکھتی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے گزشتہ دنوں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے باوجود وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قریب ایک بڑا عوامی اجتماع منعقد کیا جب کہ ''را'' اور افغان ''خاد'' کے ایجنٹ موقعے سے فائدہ اٹھا کر کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال پیدا کرسکتے تھے جس سے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوسکتا تھا اور اس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ وہ واضح طور پر اعلان کرچکا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہے۔
اب اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال کا حامل اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان ہے۔ تحریک انصاف نے رائیونڈ کے جلسے سے لے کر اسلام آباد بند کرنے تک کے لیے تمام ہی سیاسی پارٹیوں سے رابطے کیے مگر کسی بھی پارٹی نے ساتھ دینے کی حامی نہیں بھری۔ ان پارٹیوں میں چوہدری برادران اور طاہر القادری کی پارٹیاں بھی شامل ہیں خاص طور پر طاہر القادری ماڈل ٹاؤن سانحے کی وجہ سے سخت ناراض ہیں مگر انھوں نے بھی ملک کی نازک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے خود کواس سے دور رکھا ہے۔
دراصل کپتان کی خوش فہمی کی وجہ سے ہی پارٹی کا گراف دن بہ دن نیچے آرہا ہے جس کا واضح ثبوت گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جن میں تحریک انصاف کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ وہ ایک دو جگہوں پر اپنی پہلی جیتی ہوئی سیٹیں بھی گنوا چکی ہے۔ عوام کسی بھی سیاسی پارٹی سے مطمئن ہونے کے بعد ہی ووٹ دیتے ہیں۔اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما ملکی مفاد سے زیادہ پارٹی مفاد کو اہمیت دے رہے ہیں۔
کپتان صاحب کا قول ہے کہ وہ جو ایک بار فیصلہ کرلیتے ہیں وہ اسے کبھی نہیں بدلتے مگر سیاست میں کوئی فیصلہ حتمی نہیں ہوتا کیونکہ سیاست میں ذاتی انا کا معاملہ نہیں چلتا۔ عمران خان نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ الطاف حسین کے بعد اب پیپلزپارٹی کو بھی آصف علی زرداری کو پارٹی سے مائنس کر دینا چاہیے۔ اس بیان پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کسی کے کہنے سے کوئی مائنس نہیں ہوسکتا۔
مائنس اور پلس کا معاملہ دراصل عوام کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہیں مائنس کردیں اور جسے چاہیں پلس بنادیں کپتان خود اپنی ذات پرکیوں غور نہیں کرتے کہ کہیں ان کی پارٹی کو تمام ضمنی انتخابات میں عوام نے ووٹ سے محروم کرکے انھیں مائنس تو نہیں کردیا؟ عام انتخابات کے وقت ان کی نئی پارٹی سے بہتر امیدیں باندھ کر عوام نے انھیں زبردست پذیرائی بخشی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جگہ لے لی تھی مگر صرف ڈھائی سال ہی ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن) سے ہارتی چلی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف میں حالانکہ شاہ محمود جیسے جہاندیدہ سیاستداں موجود ہیں مگر لگتا ہے خانصاحب کے آگے وہاں کسی کا چراغ نہیں جلتا۔
تحریک انصاف کے سابق صدر مخدوم جاوید ہاشمی ایک انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ خان صاحب پارٹی کے کسی بھی لیڈرکی مقبولیت دیکھ کر خود ہی اندرون خانہ اس کے خلاف تحریک چلانا شروع کردیتے ہیں۔ کئی بزرگ سیاستدانوں نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ پارٹی سے باہرکے کسی بھی شخص کی ہدایات پر عمل نہ کریں اور دھرنوں میں اپنا وقت خراب کرنے کے بجائے اپنے صوبے خیبرپختونخوا کی خبر لیں جہاں عوام کی بے چینی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان درپردہ نواز شریف کے حق میں کام کر رہے ہیں ان کے گزشتہ دھرنے نے عوام کو ان کے خلاف کیا جس کا نقصان انھیں اور فائدہ نواز شریف کو ہوا۔ اب اگر وہ اسلام آباد بند کرتے ہیں تو اگلے الیکشن میں خیبر پختونخوا کے ہاتھ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے الیکشن میں بھی کہیں پچھتانا نہ پڑے۔ اب جہاں تک الطاف حسین کے مائنس ہونے کا سوال ہے وہ عوامی امنگوں کے خلاف نعرے اور بیان بازی کرکے عوامی عدالت میں مائنس ون قرار دے دیے گئے ہیں۔اس وقت ایم کیو ایم پاکستان حب الوطنی کی آزمائش میں سو فیصد سرخرو ہوکر مہاجروں کی مکمل حمایت حاصل کرچکی ہے۔ اب اسے چاہیے کہ وہ مہاجروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جو ابتدائی ایجنڈا تیار کیا گیا تھا اسے آگے بڑھائے۔
بدقسمتی سے ایم کیو ایم پر غیر ملکی ایجنڈے کے تھوپے جانے کی وجہ سے مہاجرین کے اصل مسائل یکسر نظر انداز ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کے لیے ناسازگار حالات ضرور ہیں مگر فاروق ستاراور ان کے رفقا اپنی ذہانت اور فراست کو بروئے کار لا کر حالات کو سازگار بنالیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم آج ان ہی کی جرأت ہمت اور استقامت کی وجہ سے قائم و دائم ہے ورنہ لندن کے بے ہنگم فیصلوں نے تو اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ مصطفیٰ کمال اور آفاق احمد بھی فاروق ستار اور ان کے احباب کو گلے لگالیں۔
یہ دونوں حضرات جس مشن پر گامزن تھے وہ اب اس میں سو فیصد کامیاب و کامران ہوچکے ہیں تو اب جب اختلاف کی جڑ ہی ختم ہوگئی تو پھر دوریاں کیسی؟ ان تینوں کے شیروشکر ہونے سے ایم کیو ایم اپنی پرانی عوامی طاقت حاصل کرلے گی۔ ایم کیو ایم کو صحیح راستے سے بھٹکانے والوں نے حقیقتاً مہاجروں کی نسلوں کو تباہ کردیا ہے۔ اب مہاجر کسی شخص کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے وہ اب اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے سارے پاکستانیوں سے مل جل کر سخت محنت کریں گے۔ یہ بات سب پر ہی عیاں ہے کہ مہاجرین پاکستان سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں آج بھی ہمارا ازلی دشمن انھیں اپنا اصل حریف گردانتا ہے۔
اندرا گاندھی پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ان بھگوڑوں (مہاجروں) نے پاکستان بنایا ہے اور وہی اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کی اصل جنگ ان ہی کے صوبوں میں لڑی گئی تھی اور اسی لیے قیام پاکستان کے بعد ان کا قتل عام ہوا۔ ان ہی قربانیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کے ہر صوبے کے مسلمانوں نے مہاجروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور مہمان نوازی کا حق ادا کردیا تھا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ 1946ء میں جب بہار میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو سندھ کے مسلمانوں نے انھیں سندھ میں آباد ہونے کی کھلی دعوت دی تھی۔ کراچی کی بہار کالونی آج بھی اس بھائی چارے کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس طرح سندھیوں نے مہاجروں کی قیام پاکستان سے پہلے سے ہی مہمان نوازی شروع کردی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی تشکیل میں تمام ہی مسلمانوں نے اپنے طور پر قربانیاں دی تھیں چنانچہ اسے قائم و دائم رکھنا اور ترقی دینا ہم سب کی ذمے داری ہے۔