راجا صاحب
مجھے بڑی پریشانی ہوتی ہے جب اتنے بڑے بڑے لوگ مجھے راجا صاحب کے نام سے پکار رہے ہوتے ہیں۔
وہ ماہ فروری کی ایک سرد اداس شام تھی، سرد اس لیے کہ کراچی شہر سائبیریا سے آنیوالی یخ بستہ ہواؤں کی لپیٹ میں تھا جسے عرف عام میں کوئٹہ کی ہواؤں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ میں دو تلوار کے قریب بس اسٹاپ پر پبلک ٹرانسپورٹ کا منتظر تھا کہ یکایک اذانِ مغرب بلند ہوئی۔ مجھ گناہگار کے کان پانچوں وقت کی اذانوں سے مانوس ہیں مگر اس اذان میں ایک مقناطیسی کشش تھی جس نے مجھے دنیا و مافیہا سے بیگانہ اور بے نیاز کردیا اور میں دیوانہ وار اس چھوٹی اور سادہ سی مسجد میں داخل ہوگیا جس کی تعمیر کا ثواب کراچی کی ٹریفک پولیس کے کھاتے میں جاتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ مؤذن کوئی درویش قسم کا باریش شخص ہوگا مگر وہ بندۂ خدا ایک کلین شیو ٹریفک پولیس کا اہلکار نکلا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس شخص سے ضرور ملا جائے جس کی آواز میں ربّ کریم نے اتنی تاثیر بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ اس کا تعاقب کرنے کے بعد میں نے یکایک اسے جالیا۔ خلاف توقع میں نے اسے انتہائی با اخلاق پایا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی پولیس والا بھی اتنا بااخلاق ہوسکتا ہے اور وہ بھی ایسا شخص جو ٹریفک پولیس سے تعلق رکھتا ہو۔ نہایت شیریں زبان اور مجسمہ خوش اخلاقی۔ اس نے اپنے آفس کا دروازہ کھولا اور ایک پیالی چائے پینے پر اصرار کیا...''آپ کا تعارف؟'' میں نے دھیرے سے پوچھا۔...''خادم کو راجا عبدالغفار کہتے ہیں مگر۔۔۔۔۔!'' وہ کہتے کہتے رک گیا۔
''ارے بھائی رک کیوں گئے؟'' میں نے کہا۔
''بزرگو! سب مجھے راجا صاحب، راجا صاحب کہہ کر پکارتے ہیں''۔ اس نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔''تو بھائی! اس میں حرج ہی کیا ہے؟ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے''۔ میں نے اس کا دل رکھتے ہوئے کہا۔
''سر جی! اس میں بڑے بڑے لوگ بھی شامل ہیں، بڑے بڑے وی آئی پی لوگ۔ وزیر، صدر اور اسپیکر وغیرہ، جن کی سواری کے آگے آگے میں بحیثیت سینئر پائلٹ چلا کرتا ہوں۔ مجھے بڑی پریشانی ہوتی ہے جب اتنے بڑے بڑے لوگ مجھے راجا صاحب کے نام سے پکار رہے ہوتے ہیں''۔ اس کے لہجے میں غیر معمولی لجاجت تھی، بلا کی انکساری اور خاکساری...''یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے''۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا...''بس سر جی! اﷲ جسے چاہے عزت دے۔ یہ میرے رب کا کرم اور میری ماں کی دعاؤں کا ثمر ہے۔
بزرگو! میری یہ نوکری بھی میری 'بے بے' ہی کی دعاؤں کا پھل ہے اور اسی کی دعاؤں کے طفیل مجھے اللہ نے حج کی سعادت بھی عطا کی تھی۔''...پھر اس نے مجھے یہ قصہ بھی سنایا کہ کس طرح وزیر اعظم کے خصوصی احکامات سے اسے اس طرح حج کا موقع میسر آگیا کہ وہ خود بھی حیران رہ گیا۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس کی بے بے نے اسے دو بڑی سخت ہدایات کر رکھی ہیں۔ پُتّر! کبھی ناجائز کمائی نہ کرنا اور کبھی کسی کا دل نہ دکھانا...''سر جی! اﷲ کا بڑا شکر ہے کہ میں نے آج تک اپنی ماں کی ان دونوں ہدایتوں کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔'' یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں پُرنم ہورہی تھیں۔
''مگر میرے بھائی! ایک پولیس والے سے متعلق یہ دونوں ہی باتیں ناقابل یقین ہیں اور پولیس والا بھی وہ کہ جس کا تعلق ٹریفک کے شعبے سے ہے۔'' میں نے راجا صاحب کی بات سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ میرا استدلال میرے روز مرہ کے مشاہدے پر مبنی تھا۔ بھلا وہ ٹریفک پولیس والا ہی کیا ہوا جو دن رات رشوت نہ لے اور دھونس دھمکی دینے کے علاوہ بدتمیزی سے پیش نہ آئے؟ گستاخی معاف! یہ دونوں خاصیتیں تو ہماری ٹریفک پولیس کا ٹریڈ مارک ہیں۔
''مگر سر جی! پانچوں انگلیاں تو برابر نہیں ہوتیں۔'' راجا صاحب کے لہجے کا زور اور آنکھوں کی چمک نمایاں تھی۔
''دیکھیں جی! اگر بندے کے دل میں خوف خدا ہو تو وہ نہ تو حرام کما سکتا ہے اور نہ کسی کا دل دُکھا سکتا ہے کیونکہ یہ دونوں ہی چیزیں اﷲ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں اور سر جی! سچی بات یہ ہے کہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے، ہے ناں سر جی؟ بزرگو! بندے دے نال کچھ نئیں جانا اودے اعمال دے سوا۔ تُسی دسو اے ہی گل ہے نا؟'' اس کی بات میں بڑا وزن تھا۔
''کاش سب اسی طرح سے سوچیں۔'' میں نے کہا۔
''او سرجی! سب نے اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے۔ نہ گھر والی نے وہاں ہماری مدد کو آنا ہے اور نہ بال بچوں نے ہمارا ساتھ دینا ہے۔ پھر ہم کس کے لیے اور کیوں اپنی عاقبت خراب کریں؟'' اس کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔
''او سر جی! سارا قصور لالچ اور طمع کا ہے۔ اﷲ کا شکر ہے میرا دل غنی ہے۔ آپ شاید یقین نہ کریں میرے پاس دو پہیے کی سائیکل بھی نہیں ہے۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں گاڑی والوں کو دیکھ کر خوش ضرور ہوتا ہوں مگر میرے دل میں یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ کاش میرے پاس بھی گاڑی ہوتی۔ سر جی! مجھ فقیر کا دل اپنے رب کے دیے ہوئے قلبی سکون سے مالا مال ہے۔'' راجا صاحب کی ان باتوں کو سن کر مجھے بھگت کبیر کے یہ الفاظ یاد آگئے:
دیکھ پرائی چُوپڑی' مت للچائے جی
روکھی سوکھی کھائے کے' ٹھنڈا پانی پی
''بڑے صاحب! اﷲ کی رضا اور ماں کی دعا میرے شامل حال ہے۔ بس میرے لیے یہی سب سے بڑی دولت ہے، یہ اسی کا صدقہ ہے کہ بڑے بڑے لوگوں میں میری بڑی عزت ہے، بڑی آؤبھگت ہے۔ وہ لوگ مجھے اپنا فیملی ممبر سمجھتے ہیں اور میری بہت قدر کرتے ہیں۔ سر جی! یہ پیسہ ویسہ کچھ قیمت نہیں رکھتا، پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے۔ گستاخی معاف سر جی! پیسہ تو گانے بجانے والیوں کے پاس بھی بہت ہوتا ہے۔ چوروں، لٹیروں اور حرام خوروں کے پاس بھی دھن دولت کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مگر نہ انھیں عزت نصیب ہے اور نہ سکھ چین۔ سچ سچ بتائیں کیا انھیں سکونِ قلب میسر ہوتا ہے؟ ان کا حال بس یہ ہوتا ہے کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
''بات تو راجا صاحب! آپ کی سولہ آنے درست ہے، مگر ہر کوئی دولت کے پیچھے دیوانہ ہے، اب دیکھیں ناں کتنے بڑے بڑے نام ہیں جن کی لوٹ مار کے قصے زبان زد عام ہیں۔'' راجا صاحب نے میرے اشارے کو سمجھ کر ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ''او سرجی! یہ سارا قصور گھٹّی کا ہے۔''
''گھٹی۔۔۔۔؟ کیا مطلب ہے آپ کا؟'' میں نے استفسار کیا۔...''بزرگو! آپ گھٹّی کو بھول گئے ہیں شاید۔'' راجا صاحب نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ''آپ کے اور ہمارے زمانے میں جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے گھٹّی پلائی جاتی تھی۔ ماں، خالہ، پھوپھی، دائی یا خاندان کی کوئی بڑی بوڑھی نوزائیدہ کو گھٹّی پلاتی تھی۔ بس جیسی اس گھٹّی پلانے والی کی فطرت ہوتی تھی اسی طرح کی فطرت کیساتھ بچہ بڑا ہوتا تھا۔ اسی لیے سر جی! ہمیشہ یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ بچے کو گھٹّی کسی نیک پروین سے پلوائی جائے۔''...''واﷲ! کیا بات یاد دلادی آپ نے۔'' میں راجا صاحب کی بات کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
''بس سر جی! ہم نے اپنی تمام اچھی روایات کو چھوڑ دیا ہے جس کا خمیازہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ سیانوں نے بالکل بجا فرمایا تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی۔''...''بالکل صحیح''۔ میں نے لقمہ دیا...''سر جی! ہم سال میں ایک بار Mother's Day مناتے ہیں اور مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ ماں کا احسان ہم عمر بھر کی خدمت کرکے بھی نہیں چکا سکتے۔''...دیر بہت ہوگئی تھی۔ میں نے راجا صاحب سے رخصتی طلب کی اور چلتے چلتے صرف اتنا کہا: ''تم راجا ہو، لوگوں کے دلوں پر تمہارا راج ہے، کیونکہ تمہارے سر پہ ماں کی دعاؤں کا تاج ہے۔''
میرا خیال تھا کہ مؤذن کوئی درویش قسم کا باریش شخص ہوگا مگر وہ بندۂ خدا ایک کلین شیو ٹریفک پولیس کا اہلکار نکلا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس شخص سے ضرور ملا جائے جس کی آواز میں ربّ کریم نے اتنی تاثیر بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ اس کا تعاقب کرنے کے بعد میں نے یکایک اسے جالیا۔ خلاف توقع میں نے اسے انتہائی با اخلاق پایا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی پولیس والا بھی اتنا بااخلاق ہوسکتا ہے اور وہ بھی ایسا شخص جو ٹریفک پولیس سے تعلق رکھتا ہو۔ نہایت شیریں زبان اور مجسمہ خوش اخلاقی۔ اس نے اپنے آفس کا دروازہ کھولا اور ایک پیالی چائے پینے پر اصرار کیا...''آپ کا تعارف؟'' میں نے دھیرے سے پوچھا۔...''خادم کو راجا عبدالغفار کہتے ہیں مگر۔۔۔۔۔!'' وہ کہتے کہتے رک گیا۔
''ارے بھائی رک کیوں گئے؟'' میں نے کہا۔
''بزرگو! سب مجھے راجا صاحب، راجا صاحب کہہ کر پکارتے ہیں''۔ اس نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔''تو بھائی! اس میں حرج ہی کیا ہے؟ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے''۔ میں نے اس کا دل رکھتے ہوئے کہا۔
''سر جی! اس میں بڑے بڑے لوگ بھی شامل ہیں، بڑے بڑے وی آئی پی لوگ۔ وزیر، صدر اور اسپیکر وغیرہ، جن کی سواری کے آگے آگے میں بحیثیت سینئر پائلٹ چلا کرتا ہوں۔ مجھے بڑی پریشانی ہوتی ہے جب اتنے بڑے بڑے لوگ مجھے راجا صاحب کے نام سے پکار رہے ہوتے ہیں''۔ اس کے لہجے میں غیر معمولی لجاجت تھی، بلا کی انکساری اور خاکساری...''یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے''۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا...''بس سر جی! اﷲ جسے چاہے عزت دے۔ یہ میرے رب کا کرم اور میری ماں کی دعاؤں کا ثمر ہے۔
بزرگو! میری یہ نوکری بھی میری 'بے بے' ہی کی دعاؤں کا پھل ہے اور اسی کی دعاؤں کے طفیل مجھے اللہ نے حج کی سعادت بھی عطا کی تھی۔''...پھر اس نے مجھے یہ قصہ بھی سنایا کہ کس طرح وزیر اعظم کے خصوصی احکامات سے اسے اس طرح حج کا موقع میسر آگیا کہ وہ خود بھی حیران رہ گیا۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس کی بے بے نے اسے دو بڑی سخت ہدایات کر رکھی ہیں۔ پُتّر! کبھی ناجائز کمائی نہ کرنا اور کبھی کسی کا دل نہ دکھانا...''سر جی! اﷲ کا بڑا شکر ہے کہ میں نے آج تک اپنی ماں کی ان دونوں ہدایتوں کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔'' یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں پُرنم ہورہی تھیں۔
''مگر میرے بھائی! ایک پولیس والے سے متعلق یہ دونوں ہی باتیں ناقابل یقین ہیں اور پولیس والا بھی وہ کہ جس کا تعلق ٹریفک کے شعبے سے ہے۔'' میں نے راجا صاحب کی بات سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ میرا استدلال میرے روز مرہ کے مشاہدے پر مبنی تھا۔ بھلا وہ ٹریفک پولیس والا ہی کیا ہوا جو دن رات رشوت نہ لے اور دھونس دھمکی دینے کے علاوہ بدتمیزی سے پیش نہ آئے؟ گستاخی معاف! یہ دونوں خاصیتیں تو ہماری ٹریفک پولیس کا ٹریڈ مارک ہیں۔
''مگر سر جی! پانچوں انگلیاں تو برابر نہیں ہوتیں۔'' راجا صاحب کے لہجے کا زور اور آنکھوں کی چمک نمایاں تھی۔
''دیکھیں جی! اگر بندے کے دل میں خوف خدا ہو تو وہ نہ تو حرام کما سکتا ہے اور نہ کسی کا دل دُکھا سکتا ہے کیونکہ یہ دونوں ہی چیزیں اﷲ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں اور سر جی! سچی بات یہ ہے کہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے، ہے ناں سر جی؟ بزرگو! بندے دے نال کچھ نئیں جانا اودے اعمال دے سوا۔ تُسی دسو اے ہی گل ہے نا؟'' اس کی بات میں بڑا وزن تھا۔
''کاش سب اسی طرح سے سوچیں۔'' میں نے کہا۔
''او سرجی! سب نے اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے۔ نہ گھر والی نے وہاں ہماری مدد کو آنا ہے اور نہ بال بچوں نے ہمارا ساتھ دینا ہے۔ پھر ہم کس کے لیے اور کیوں اپنی عاقبت خراب کریں؟'' اس کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔
''او سر جی! سارا قصور لالچ اور طمع کا ہے۔ اﷲ کا شکر ہے میرا دل غنی ہے۔ آپ شاید یقین نہ کریں میرے پاس دو پہیے کی سائیکل بھی نہیں ہے۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں گاڑی والوں کو دیکھ کر خوش ضرور ہوتا ہوں مگر میرے دل میں یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ کاش میرے پاس بھی گاڑی ہوتی۔ سر جی! مجھ فقیر کا دل اپنے رب کے دیے ہوئے قلبی سکون سے مالا مال ہے۔'' راجا صاحب کی ان باتوں کو سن کر مجھے بھگت کبیر کے یہ الفاظ یاد آگئے:
دیکھ پرائی چُوپڑی' مت للچائے جی
روکھی سوکھی کھائے کے' ٹھنڈا پانی پی
''بڑے صاحب! اﷲ کی رضا اور ماں کی دعا میرے شامل حال ہے۔ بس میرے لیے یہی سب سے بڑی دولت ہے، یہ اسی کا صدقہ ہے کہ بڑے بڑے لوگوں میں میری بڑی عزت ہے، بڑی آؤبھگت ہے۔ وہ لوگ مجھے اپنا فیملی ممبر سمجھتے ہیں اور میری بہت قدر کرتے ہیں۔ سر جی! یہ پیسہ ویسہ کچھ قیمت نہیں رکھتا، پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے۔ گستاخی معاف سر جی! پیسہ تو گانے بجانے والیوں کے پاس بھی بہت ہوتا ہے۔ چوروں، لٹیروں اور حرام خوروں کے پاس بھی دھن دولت کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مگر نہ انھیں عزت نصیب ہے اور نہ سکھ چین۔ سچ سچ بتائیں کیا انھیں سکونِ قلب میسر ہوتا ہے؟ ان کا حال بس یہ ہوتا ہے کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
''بات تو راجا صاحب! آپ کی سولہ آنے درست ہے، مگر ہر کوئی دولت کے پیچھے دیوانہ ہے، اب دیکھیں ناں کتنے بڑے بڑے نام ہیں جن کی لوٹ مار کے قصے زبان زد عام ہیں۔'' راجا صاحب نے میرے اشارے کو سمجھ کر ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ''او سرجی! یہ سارا قصور گھٹّی کا ہے۔''
''گھٹی۔۔۔۔؟ کیا مطلب ہے آپ کا؟'' میں نے استفسار کیا۔...''بزرگو! آپ گھٹّی کو بھول گئے ہیں شاید۔'' راجا صاحب نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ''آپ کے اور ہمارے زمانے میں جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے گھٹّی پلائی جاتی تھی۔ ماں، خالہ، پھوپھی، دائی یا خاندان کی کوئی بڑی بوڑھی نوزائیدہ کو گھٹّی پلاتی تھی۔ بس جیسی اس گھٹّی پلانے والی کی فطرت ہوتی تھی اسی طرح کی فطرت کیساتھ بچہ بڑا ہوتا تھا۔ اسی لیے سر جی! ہمیشہ یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ بچے کو گھٹّی کسی نیک پروین سے پلوائی جائے۔''...''واﷲ! کیا بات یاد دلادی آپ نے۔'' میں راجا صاحب کی بات کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
''بس سر جی! ہم نے اپنی تمام اچھی روایات کو چھوڑ دیا ہے جس کا خمیازہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ سیانوں نے بالکل بجا فرمایا تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی۔''...''بالکل صحیح''۔ میں نے لقمہ دیا...''سر جی! ہم سال میں ایک بار Mother's Day مناتے ہیں اور مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ ماں کا احسان ہم عمر بھر کی خدمت کرکے بھی نہیں چکا سکتے۔''...دیر بہت ہوگئی تھی۔ میں نے راجا صاحب سے رخصتی طلب کی اور چلتے چلتے صرف اتنا کہا: ''تم راجا ہو، لوگوں کے دلوں پر تمہارا راج ہے، کیونکہ تمہارے سر پہ ماں کی دعاؤں کا تاج ہے۔''