پہلا ایسگارڈیا ’خلائی قوم‘ تشکیل دینے کا منصوبہ

خلائی قوم‘ کی بنیاد آئندہ برس ایک مصنوعی سیارہ خلا میں بھیج کر رکھی جائے گی

خلا میں انسانی ساختہ بیس ہزار سے زائد ناکارہ مصنوعی سیارے، پرانے خلائی جہاز، راکٹ اور اسپیس وہیکلز شامل ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ ایک ایسا تصور ہے جو سائنس فکشن سے لیا گیا معلوم ہوتا ہے، مگر یہ جلد ہی حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ یہ تذکرہ ہے ' اسپیس نیشن' یعنی ' خلائی قوم ' کا۔ 'خلائی قوم' سے مراد ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے تحت خلا میں ملکیت اور قومیت کا نیا فریم تشکیل دیا جائے گا۔ یہ تصور سائنس دانوں کے ایک بین الاقوامی گروپ نے پیش کیا ہے۔

چند روز قبل اس گروپ نے اعلان کیا ہے کہ 'خلائی قوم' کی بنیاد آئندہ برس ایک مصنوعی سیارہ خلا میں بھیج کر رکھی جائے گی۔ سائنس دانوں نے خلائی قوم کو Asgardia کا نام دیا ہے۔ ابتدائی طور پر 'قوم' کے افراد کی تعداد ایک لاکھ تک محدود رکھی جائے گی۔ اگر آپ بھی اس قوم کے فرد کہلانا چاہتے ہیں تو Asgardia کی ویب سائٹ پر جاکر سائن اپ ہوسکتے ہیں۔

اس عجیب وغریب منصوبے کے روح رواں ایرواسپیس انٹرنیشنل ریسرچ سینٹر کے بانی ڈاکٹر ایغور اشوربیلی ہیں جو معروف روسی سائنس داں اور کاروباری شخصیت ہیں۔ گذشتہ دنوں پیرس میں کانفرنس کے دوران اس منصوبے کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ 'خلائی قوم' کی تشکیل کے ابتدائی مرحلے میں بنی نوع انسان کی حفاظت کے لیے جدید ڈھال تخلیق کی جائے گی۔

یہ ڈھال کرۂ ارض پر حیات کو خلا سے ' نازل' ہونے والے قدرتی اور انسانی خطرات سے بچائے گی۔ ان خطرات میں ناکارہ مصنوعی سیاروں، خلائی راکٹوں کے ٹکڑوں وغیرہ پر مشتمل خلائی کچرا، شمسی طوفان، اور زمین سے سیارچوں کے ٹکرانے کے خطرات شامل ہیں۔


خلا میں انسانی ساختہ بیس ہزار سے زائد ناکارہ مصنوعی سیارے، پرانے خلائی جہاز، راکٹ اور اسپیس وہیکلز شامل ہیں۔ خلائے بسیط میں گھومتے اجرام فلکی بھی سطح ارض پر پائی جانے والی حیات کے لیے کسی بھی لمحے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2013ء میں ایک روسی قصبے میں گرنے والے جسیم حجر شہابی نے تباہی مچادی تھی۔ اس واقعے میں گیارہ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے اور چار ہزار کے لگ بھگ مکانات اور عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں۔

ڈاکٹرایغور اشوربیلی کے مطابق یہ منصوبہ تین حصوں پر مشتمل ہے؛ فلسفیانہ، قانونی اور سائنسی۔ منصوبے کا آغاز ہونے کے بعد ڈاکٹر ایغور اپنی تشکیل دی گئی قوم یعنی Asgardiaکو باقاعدہ اقوام متحدہ کا رُکن بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ آئندہ برس منصوبے کے پہلے مرحلے ( مصنوعی سیارے کی لانچ) پر عمل درآمد ہونے کے بعد یہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔ پروجیکٹ میں شامل ایک اور سائنس داں اور ہوسٹن میں واقع رائس یونی ورسٹی کے خلائی مرکز کے ڈائریکٹر، پروفیسر ڈیوڈ الیگزینڈر کے مطابق مصنوعی سیارہ زمین کے زیریں مدار تک محدود رکھا جائے گا کہ کیوں کہ زیریں مدار بہ آسانی قابل رسائی ہے اور مستقبل میں بڑی طاقتوں کے مابین خلائی جنگ کا میدان بھی یہی مدار ہوگا۔

سائنس داں کہتے ہیں کہ Asgardia کی تشکیل اور اس منصوبے کے تمام مراحل کی تکمیل کے بعد وہ اس قابل ہوجائیں گے کہ خلا میں کسی بھی منفی انسانی سرگرمی کا راستہ روک کر ارضی مدار کے مثبت استعمال کو یقینی بنا سکیں۔

 
Load Next Story