اچھی بات یہ کہ فضاء مسلسل خوشگوار ہورہی ہے
پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں اسلئے بھی اہمیت کی حامل ہےکیونکہ ان مشقوں سے بھارت کا خطے میں چوہدراہٹ کا خواب چکنا چورہوگیا
ISLAMABAD:
سرد جنگ کی برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے۔ 2012ء میں جب روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دورہ پاکستان منسوخ کیا تو حالات پھر سے 60 کی دہائی میں جاتے محسوس ہوئے۔ جب پاکستان کا جھکاؤ مغرب کی جانب بڑھا۔ اس کے علاوہ یہ سمجھا گیا کہ یہ دورہ بھارت کے دباؤ کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ہے۔ کیوںکہ بھارت کسی صورت نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے تعلقات روس کے ساتھ بہتر ہوں، اور ایسا نہ چاہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت جانتا ہے کہ جب بھی پاکستان کے تعلقات روس کے ساتھ بہتر ہوئے تو کراچی میں پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان آئل فیلڈز جیسے منصوبے پروان چڑھے لہذا دشمن تو کبھی نہیں چاہے گا کہ ان دو ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے، خدشات عارضی اس لئے رہے کہ اُسی برس روسی وزیر خارجہ نے پاکستان کا مفید دورہ کیا جس نے کسی قدر قیاس آرائیوں کو ختم کرنے میں مدد دی۔
2003ء میں مشرف کے دورہَِ روس اور روسی وزیر اعظم کے 2007ء میں دورہِ پاکستان سے بھی سرد مہری ختم کرنے میں بہت مدد ملی۔ 47ء سے 58ء تک کا دور کسی حد تک حوصلہ افزاء رہا لیکن پھر بتدریج سرد مہری بڑھتی گئی اور 60 کی دہائی میں عروج پر پہنچ گئی۔ اگرچہ بعد میں تلخیوں میں کمی ہونا شروع ہوئی تھی لیکن افغان جنگ نے دونوں ممالک کو بہت دور کردیا۔
لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ طویل عرصے بعد دونوں ممالک کو احساس ہونا شروع ہوا کہ باہمی اچھے تعلقات دونوں ممالک کے لئے ناگزیر ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا جون 2015ء میں روس کا دورہِ باہمی تعلقات کے حوالے سے نئے دور کا نقطہ آغاز ثابت ہورہا ہے۔ اس دورے کے بعد پاکستان اور روس میں ایک عرصے سے رکے ہوئے فوجی تعلقات بحال ہونا شروع ہوگئے۔ دورے کے ثمرات تھے کہ روس نے پاکستان کو چار MI-35 ہیلی کاپٹرز دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس کے علاوہ دفاعی نمائش میں آرمی چیف کی موجودگی اور دیرپا باہمی تعلقات کی ضرورت پر دونوں ممالک کے اتفاق بھی اس دورے کا خاصہ رہا۔ 2015ء میں ہی روس میں آرمی وار گیمز میں شرکت بھی بدلتے ہوئے منظر نامے کو واضح کرنے کے لئے کافی تھے۔
اڑی حملے، وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے اقوام متحدہ میں جاندار خطاب اور آرمی چیف آف پاکستان کے ٹھوس موقف کے بعد ناقدین کا خیال تھا کہ بھارت کا دیرینہ دوست روس مشترکہ فوجی مشقوں کے لئے اپنے فوجی جوان پاکستان نہیں بھیجے گا۔ اس کا پسِ منظر وہ بھارتی دباؤ بھی تھا جو بھارت نے روس پر ڈالا ہوا تھا لیکن امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کے بعد بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات میں وہ گرمجوشی باقی نہیں ہے جو ان تعلقات کا خاصہ تھی۔ اس کا واضح ثبوت روس کا بھارتی دباؤ کے باجود اپنا فوجی دستہ مشترکہ فوجی مشقوں کے لئے پاکستان بھیجنا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ کسی بھی قسم کی پہلی فوجی مشقیں تھیں۔ جو 10 اکتوبر تک جاری رہیں۔ ان مشقوں کے پیچھے کم و بیش 10 سال کی سفارت کاری ہے اور یہ اس بات کا غماز ہے کہ اختلافات کبھی بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتے، بلکہ اِن کے خاتمے کے لئے کوششیں جاری رہنی چاہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ روسی فوجی دستے کے دورے کو چند اپنوں نے بھی طنزیہ نظروں سے دیکھا اور اس پر روس افغان جنگ کے حوالے سے فقرے بھی کسے لیکن عالمی میڈیا نے اس دستے کے دورہِ پاکستان کو جو اہمیت دی وہ اس بات کا غماز تھا کہ یہ تعلقات میں اہم سنگ میل ہے۔
دوسری جانب اس فوجی دستے کی آمد اس لئے بھی اہم تھی کہ بھارت خطے میں چوہدراہٹ کا جو خواب دیکھ رہا تھا وہ چکنا چور ہوگیا ہے، ساتھ ہی چین کے مقابل آنے کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔ 60 کی دہائی، افغان جنگ کے بعد کے حالات کے بعد سے چھائی سرد مہری آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی نئی راہیں استوار ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا عرصہ تقسیمِ برصغیر کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا مگر حالیہ وقتوں میں امریکہ سے قربت نے ان تعلقات پر کاری ضرب لگائی ہے اور پاکستان سے روس کے تعلقات بھارت کی آنکھ میں کانٹے کی مانند چبھ رہے ہیں۔
گرم پانیوں تک پہنچنے کی جنگ میں پاکستان اور روس کے تعلقات نے جو بُرا وقت دیکھا تھا وہ اب روسی فوجی دستے کی پاکستان آمد کے بعد ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں پاکستان اور روس کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ اگر اقوام عالم میں اپنی مضبوط شناخت قائم کرنی ہے تو آپس کے تعلقات کی بہتری کی جانب توجہ دینا ضروری ہے۔ روس اب بھی عالمی طاقت کے طور پر اپنی شناخت رکھتا ہے اور پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایسے خطے میں واقع ہے جس کی اہمیت سے پوری دنیا کو انکار نہیں ہے۔ لہذا یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ جو تعلقات مہم جوئی سے خراب ہوئے تھے وہی تعلقات اب ہاتھ ملا کر بہتری کی جانب تیزی سے جائیں گے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاک روس تعلقات کی فضاء اس وقت بہت خوشگوار ہوچکی ہے اور اُمید ہے کہ مستقبل میں یہ تعلقات مزید بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔
[poll id="1248"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سرد جنگ کی برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے۔ 2012ء میں جب روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دورہ پاکستان منسوخ کیا تو حالات پھر سے 60 کی دہائی میں جاتے محسوس ہوئے۔ جب پاکستان کا جھکاؤ مغرب کی جانب بڑھا۔ اس کے علاوہ یہ سمجھا گیا کہ یہ دورہ بھارت کے دباؤ کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ہے۔ کیوںکہ بھارت کسی صورت نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے تعلقات روس کے ساتھ بہتر ہوں، اور ایسا نہ چاہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت جانتا ہے کہ جب بھی پاکستان کے تعلقات روس کے ساتھ بہتر ہوئے تو کراچی میں پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان آئل فیلڈز جیسے منصوبے پروان چڑھے لہذا دشمن تو کبھی نہیں چاہے گا کہ ان دو ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے، خدشات عارضی اس لئے رہے کہ اُسی برس روسی وزیر خارجہ نے پاکستان کا مفید دورہ کیا جس نے کسی قدر قیاس آرائیوں کو ختم کرنے میں مدد دی۔
2003ء میں مشرف کے دورہَِ روس اور روسی وزیر اعظم کے 2007ء میں دورہِ پاکستان سے بھی سرد مہری ختم کرنے میں بہت مدد ملی۔ 47ء سے 58ء تک کا دور کسی حد تک حوصلہ افزاء رہا لیکن پھر بتدریج سرد مہری بڑھتی گئی اور 60 کی دہائی میں عروج پر پہنچ گئی۔ اگرچہ بعد میں تلخیوں میں کمی ہونا شروع ہوئی تھی لیکن افغان جنگ نے دونوں ممالک کو بہت دور کردیا۔
لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ طویل عرصے بعد دونوں ممالک کو احساس ہونا شروع ہوا کہ باہمی اچھے تعلقات دونوں ممالک کے لئے ناگزیر ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا جون 2015ء میں روس کا دورہِ باہمی تعلقات کے حوالے سے نئے دور کا نقطہ آغاز ثابت ہورہا ہے۔ اس دورے کے بعد پاکستان اور روس میں ایک عرصے سے رکے ہوئے فوجی تعلقات بحال ہونا شروع ہوگئے۔ دورے کے ثمرات تھے کہ روس نے پاکستان کو چار MI-35 ہیلی کاپٹرز دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس کے علاوہ دفاعی نمائش میں آرمی چیف کی موجودگی اور دیرپا باہمی تعلقات کی ضرورت پر دونوں ممالک کے اتفاق بھی اس دورے کا خاصہ رہا۔ 2015ء میں ہی روس میں آرمی وار گیمز میں شرکت بھی بدلتے ہوئے منظر نامے کو واضح کرنے کے لئے کافی تھے۔
اڑی حملے، وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے اقوام متحدہ میں جاندار خطاب اور آرمی چیف آف پاکستان کے ٹھوس موقف کے بعد ناقدین کا خیال تھا کہ بھارت کا دیرینہ دوست روس مشترکہ فوجی مشقوں کے لئے اپنے فوجی جوان پاکستان نہیں بھیجے گا۔ اس کا پسِ منظر وہ بھارتی دباؤ بھی تھا جو بھارت نے روس پر ڈالا ہوا تھا لیکن امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کے بعد بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات میں وہ گرمجوشی باقی نہیں ہے جو ان تعلقات کا خاصہ تھی۔ اس کا واضح ثبوت روس کا بھارتی دباؤ کے باجود اپنا فوجی دستہ مشترکہ فوجی مشقوں کے لئے پاکستان بھیجنا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ کسی بھی قسم کی پہلی فوجی مشقیں تھیں۔ جو 10 اکتوبر تک جاری رہیں۔ ان مشقوں کے پیچھے کم و بیش 10 سال کی سفارت کاری ہے اور یہ اس بات کا غماز ہے کہ اختلافات کبھی بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتے، بلکہ اِن کے خاتمے کے لئے کوششیں جاری رہنی چاہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ روسی فوجی دستے کے دورے کو چند اپنوں نے بھی طنزیہ نظروں سے دیکھا اور اس پر روس افغان جنگ کے حوالے سے فقرے بھی کسے لیکن عالمی میڈیا نے اس دستے کے دورہِ پاکستان کو جو اہمیت دی وہ اس بات کا غماز تھا کہ یہ تعلقات میں اہم سنگ میل ہے۔
دوسری جانب اس فوجی دستے کی آمد اس لئے بھی اہم تھی کہ بھارت خطے میں چوہدراہٹ کا جو خواب دیکھ رہا تھا وہ چکنا چور ہوگیا ہے، ساتھ ہی چین کے مقابل آنے کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔ 60 کی دہائی، افغان جنگ کے بعد کے حالات کے بعد سے چھائی سرد مہری آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی نئی راہیں استوار ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا عرصہ تقسیمِ برصغیر کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا مگر حالیہ وقتوں میں امریکہ سے قربت نے ان تعلقات پر کاری ضرب لگائی ہے اور پاکستان سے روس کے تعلقات بھارت کی آنکھ میں کانٹے کی مانند چبھ رہے ہیں۔
گرم پانیوں تک پہنچنے کی جنگ میں پاکستان اور روس کے تعلقات نے جو بُرا وقت دیکھا تھا وہ اب روسی فوجی دستے کی پاکستان آمد کے بعد ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں پاکستان اور روس کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ اگر اقوام عالم میں اپنی مضبوط شناخت قائم کرنی ہے تو آپس کے تعلقات کی بہتری کی جانب توجہ دینا ضروری ہے۔ روس اب بھی عالمی طاقت کے طور پر اپنی شناخت رکھتا ہے اور پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایسے خطے میں واقع ہے جس کی اہمیت سے پوری دنیا کو انکار نہیں ہے۔ لہذا یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ جو تعلقات مہم جوئی سے خراب ہوئے تھے وہی تعلقات اب ہاتھ ملا کر بہتری کی جانب تیزی سے جائیں گے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاک روس تعلقات کی فضاء اس وقت بہت خوشگوار ہوچکی ہے اور اُمید ہے کہ مستقبل میں یہ تعلقات مزید بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔
[poll id="1248"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔