پاناما لیکس پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے گھر والوں سے جواب طلب
سپریم کورٹ نے وزیراعظم سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
عدالت عظمٰی نے پاناما پیپرز كی تحقیقات كرانے كے لیے دائر آئینی درخواستوں پر وزیر اعظم نواز شریف سمیت تمام فریقین كو نوٹس جاری كردیا جب كہ معاملہ پارلیمنٹ كے ذریعے حل كرانے كی وطن پارٹی كی درخواست مسترد كردی ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی كی سربراہی میں تین ركنی بینچ نے پاناما لیكس كی تحقیقات كے لیے دائر تحریك انصاف، جماعت اسلامی، شیخ رشید اور دیگر كی درخواستوں كی ابتدائی سماعت كے بعد وزیر اعظم نواز شریف، چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان ، مریم نواز ،حسن نواز ، حسین نواز ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، چیئرمین ایف بی آر اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین سے جواب طلب كر لیا ہے جب كہ دو نومبر كا تحریك انصاف كا مجوزہ دھرنا روكنے كیلیے دائر درخواست پر فریقین كو نوٹس جاری كرتے ہوئے ان سے جواب مانگا ہے اور قرار دیا ہے كہ درخواستوں كے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے كا فیصلہ دونوں طرف كے فریقین كو سننے كے بعد كیا جائے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں، وزیراعظم
چیف جسٹس نے ریماركس دیئے كہ دھرنا ایك سیاسی ایشو ہے اور عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں كرے گی لیكن اگر حكومت بنیادی حقوق كے تحفظ میں ناكام ہو تومداخلت كی جائے گی۔ چیف جسٹس نے كہا دھرنا روكنا جس كا كام ہے وہ اپنا كام كرے گا۔
سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی كے وكیل نے پاناما لیكس كی بلا امتیاز تحقیقات كی استدعا كی جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ ہم فریقین كو نوٹس جاری كردیتے ہیں اور ان سے جواب طلب كرلیتے ہیں۔ تحریك انصاف كے وكیل حامد خان نے عدالت كو بتایا كہ اپریل میں پاناما لیكس كا معاملہ سامنے آیا اس میں وزیراعظم اور ان كے اہل خانہ كا نام آیا، اعلان كے باوجود جوڈیشل كمیشن كے قیام كے لیے عمل اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ انہوں نے كہا کہ آئس لینڈ كے وزیراعظم پاناما لیكس میں نام آنے پر مستعفی ہوگئے، پاناما لیكس كے انكشاف كے بعد وزیراعظم نے دو مرتبہ قوم سے خطاب كیا اور جوڈیشل كمیشن كے قیام كا اعلان بھی كیا لیكن تاحال قوم انكوائری كی منتظر ہے۔ چیف جسٹس نے تحریك انصاف كے وكیل سے استفسار كیا كہ آپ عدالت سے كیا داد رسی چاہتے ہیں جس پر حامد خان نے كہا كہ ہم پاناما لیكس اسكینڈل كی تحقیقات كرانا چاہتے ہیں۔ ان كا كہنا تھا كہ حج كرپشن اور پاكستان اسٹیل ملزكرپشن كیس میں انكوائری كمیشن بنانے اور ذمہ داران كا تعین كرنے كی روایت موجود ہے۔
شیخ رشید نے كہا كہ پوری دنیا سپریم كورٹ كی طرف دیكھ رہی ہے، قوم كو بدعنوان حكمرانوں سے بچانے كا وقت آپہنچا ہے۔ انہوں نے استدعا كی كہ سپریم كورٹ وزیراعظم اور اسحاق ڈار سمیت فریقین كو شو كاز نوٹس جاری كرے۔ درخواست گزار طارق اسد نے استدعا كی كہ پہلے عدالت درخواستوں كے قابل سماعت ہونے كا فیصلہ كرے جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ دیگر فریقین كو سن كر فیصلہ كریں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا نوٹس بادشاہ کو قانون کے نیچے لانے کیلئے پہلا قدم ہے، عمران خان
عدالت نے تحریك انصاف كے دو نومبر كے مجوزہ احتجاجی دھرنے كو روكنے كیلیے دائر درخواستوں كی سماعت كی تو چیف جسٹس نے ریماركس دیئے كہ ہم سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں كریں گے تاہم اگر حكومت بنیادی حقوق كے نفاذ میں ناكام ہوتی ہے تو ہم مداخلت كریں گے۔ ایڈووكیٹ طارق اسد نے استدعا كی كہ دو نومبر كے احتجاجی دھرنے كو روكنے كیلیے دائر متفرق درخواست كی سماعت كے لیے مختصر تاریخ مقرر كركے اس كا فیصلہ كیا جائے جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ كیا اب یہ كام بھی ہم نے كرنا ہے، جن كا كام ہے وہ خود كریں، ہم نوٹس جاری كردیتے ہیں۔ عدالت نے وفاق، وزارت اطلاعات و نشریات، چیئرمین پیمرا سمیت فریقین كو نوٹسسز جاری كردیئے۔
پاناما لیكس معاملے كو پارلیمنٹ كے ذریعے حل كروانے سے متعلق وطن پارٹی كی درخواست پر سماعت ہوئی تو وكیل بیرسٹر ظفر اللہ نے كہا كہ حكومت كو جوڈیشل كمیشن بنانے كی اجازت نہ دی جائے یہ كام پارلیمنٹ كو كرنا چاہیے، ملك كی عوام كو خوف زدہ كیا جارہا ہے، عدالتوں كو دھمكایا جا رہا ہے۔ انہوں نے كہا تحریك انصاف كو دھرنا دینے سے روكا جائے جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے كہا كہ ہمیں كوئی نہیں دھمكا سكتا۔ چیف جسٹس نے ریماركس دیئے كہ ہم نے بار ہا واضح كیا ہے كہ ہم كسی سیاسی معاملے میں ملوث نہیں ہونگے لیكن اگر انتظامیہ بنیادی حقوق كی فراہمی میں ناكام ہوئی تو ہم ضرور مداخلت كریں گے، جوڈیشل كمیشن كا معاملہ تو ہم پہلے ہی واپس كرچكے ہیں۔ جسٹس اعجا ز الااحسن نے كہا كہ جوڈیشل كمیشن كا معاملہ عدالت میں نہیں ہے، عدالت نے وطن پارٹی كی درخواست كو خارج كرتے ہوئے قرار دیا كہ درخواست قبل از وقت او رمفاد عامہ كے تحت نہیں ہے۔ عدالت نے دیگر درخواستوں میں نوٹس جاری كرتے ہوئے سماعت دو ہفتے كے لیے ملتوی كردی۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی كی سربراہی میں تین ركنی بینچ نے پاناما لیكس كی تحقیقات كے لیے دائر تحریك انصاف، جماعت اسلامی، شیخ رشید اور دیگر كی درخواستوں كی ابتدائی سماعت كے بعد وزیر اعظم نواز شریف، چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان ، مریم نواز ،حسن نواز ، حسین نواز ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، چیئرمین ایف بی آر اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین سے جواب طلب كر لیا ہے جب كہ دو نومبر كا تحریك انصاف كا مجوزہ دھرنا روكنے كیلیے دائر درخواست پر فریقین كو نوٹس جاری كرتے ہوئے ان سے جواب مانگا ہے اور قرار دیا ہے كہ درخواستوں كے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے كا فیصلہ دونوں طرف كے فریقین كو سننے كے بعد كیا جائے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں، وزیراعظم
چیف جسٹس نے ریماركس دیئے كہ دھرنا ایك سیاسی ایشو ہے اور عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں كرے گی لیكن اگر حكومت بنیادی حقوق كے تحفظ میں ناكام ہو تومداخلت كی جائے گی۔ چیف جسٹس نے كہا دھرنا روكنا جس كا كام ہے وہ اپنا كام كرے گا۔
سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی كے وكیل نے پاناما لیكس كی بلا امتیاز تحقیقات كی استدعا كی جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ ہم فریقین كو نوٹس جاری كردیتے ہیں اور ان سے جواب طلب كرلیتے ہیں۔ تحریك انصاف كے وكیل حامد خان نے عدالت كو بتایا كہ اپریل میں پاناما لیكس كا معاملہ سامنے آیا اس میں وزیراعظم اور ان كے اہل خانہ كا نام آیا، اعلان كے باوجود جوڈیشل كمیشن كے قیام كے لیے عمل اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ انہوں نے كہا کہ آئس لینڈ كے وزیراعظم پاناما لیكس میں نام آنے پر مستعفی ہوگئے، پاناما لیكس كے انكشاف كے بعد وزیراعظم نے دو مرتبہ قوم سے خطاب كیا اور جوڈیشل كمیشن كے قیام كا اعلان بھی كیا لیكن تاحال قوم انكوائری كی منتظر ہے۔ چیف جسٹس نے تحریك انصاف كے وكیل سے استفسار كیا كہ آپ عدالت سے كیا داد رسی چاہتے ہیں جس پر حامد خان نے كہا كہ ہم پاناما لیكس اسكینڈل كی تحقیقات كرانا چاہتے ہیں۔ ان كا كہنا تھا كہ حج كرپشن اور پاكستان اسٹیل ملزكرپشن كیس میں انكوائری كمیشن بنانے اور ذمہ داران كا تعین كرنے كی روایت موجود ہے۔
شیخ رشید نے كہا كہ پوری دنیا سپریم كورٹ كی طرف دیكھ رہی ہے، قوم كو بدعنوان حكمرانوں سے بچانے كا وقت آپہنچا ہے۔ انہوں نے استدعا كی كہ سپریم كورٹ وزیراعظم اور اسحاق ڈار سمیت فریقین كو شو كاز نوٹس جاری كرے۔ درخواست گزار طارق اسد نے استدعا كی كہ پہلے عدالت درخواستوں كے قابل سماعت ہونے كا فیصلہ كرے جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ دیگر فریقین كو سن كر فیصلہ كریں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا نوٹس بادشاہ کو قانون کے نیچے لانے کیلئے پہلا قدم ہے، عمران خان
عدالت نے تحریك انصاف كے دو نومبر كے مجوزہ احتجاجی دھرنے كو روكنے كیلیے دائر درخواستوں كی سماعت كی تو چیف جسٹس نے ریماركس دیئے كہ ہم سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں كریں گے تاہم اگر حكومت بنیادی حقوق كے نفاذ میں ناكام ہوتی ہے تو ہم مداخلت كریں گے۔ ایڈووكیٹ طارق اسد نے استدعا كی كہ دو نومبر كے احتجاجی دھرنے كو روكنے كیلیے دائر متفرق درخواست كی سماعت كے لیے مختصر تاریخ مقرر كركے اس كا فیصلہ كیا جائے جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ كیا اب یہ كام بھی ہم نے كرنا ہے، جن كا كام ہے وہ خود كریں، ہم نوٹس جاری كردیتے ہیں۔ عدالت نے وفاق، وزارت اطلاعات و نشریات، چیئرمین پیمرا سمیت فریقین كو نوٹسسز جاری كردیئے۔
پاناما لیكس معاملے كو پارلیمنٹ كے ذریعے حل كروانے سے متعلق وطن پارٹی كی درخواست پر سماعت ہوئی تو وكیل بیرسٹر ظفر اللہ نے كہا كہ حكومت كو جوڈیشل كمیشن بنانے كی اجازت نہ دی جائے یہ كام پارلیمنٹ كو كرنا چاہیے، ملك كی عوام كو خوف زدہ كیا جارہا ہے، عدالتوں كو دھمكایا جا رہا ہے۔ انہوں نے كہا تحریك انصاف كو دھرنا دینے سے روكا جائے جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے كہا كہ ہمیں كوئی نہیں دھمكا سكتا۔ چیف جسٹس نے ریماركس دیئے كہ ہم نے بار ہا واضح كیا ہے كہ ہم كسی سیاسی معاملے میں ملوث نہیں ہونگے لیكن اگر انتظامیہ بنیادی حقوق كی فراہمی میں ناكام ہوئی تو ہم ضرور مداخلت كریں گے، جوڈیشل كمیشن كا معاملہ تو ہم پہلے ہی واپس كرچكے ہیں۔ جسٹس اعجا ز الااحسن نے كہا كہ جوڈیشل كمیشن كا معاملہ عدالت میں نہیں ہے، عدالت نے وطن پارٹی كی درخواست كو خارج كرتے ہوئے قرار دیا كہ درخواست قبل از وقت او رمفاد عامہ كے تحت نہیں ہے۔ عدالت نے دیگر درخواستوں میں نوٹس جاری كرتے ہوئے سماعت دو ہفتے كے لیے ملتوی كردی۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔