ہماری ’’مجبوریاں‘‘
ٹھیک ایک سال قبل فیصل آباد میں ہمارے ایک نہائیت قریبی عزیز اچانک ہمیں داغِ مفارقت دے گئے
BAHAWALPUR:
ٹھیک ایک سال قبل فیصل آباد میں ہمارے ایک نہائیت قریبی عزیز اچانک ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ چند دن پہلے اُن کی پہلی برسی تھی۔ مجھے بھی شرکت کرنا پڑی۔
لاہور سے فیصل آباد اور پھر فیصل آباد سے اسلام آباد تک کا سفر مَیں نے پرائیویٹ بسوں میں طے کیا۔ سب میں انڈین گانے اور انڈین فلمیں چل رہی تھیں اور تقریباً سبھی مسافر خاموشی اور محویت سے یہ گانے بھی سن رہے تھے اور فلمیں بھی دیکھ رہے تھے۔ کسی کو بھی ناراضی اور بیزاری کا اظہار کرتے نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ یہ بھی ہوا کہ درمیان میں اگر ایک دوبا ر فلم یا گانے کی آواز مدہم پڑی تو کئی مسافروں نے اُٹھ کر ڈرائیور اور کنڈکٹر سے احتجاج کیا۔
فیصل آباد سے راولپنڈی آتے ہوئے مَیں اس صاف سُتھری بس کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ڈرائیور کے عین بائیں جانب۔ بس میں دو ٹی وی نصب تھے۔ ایک سامنے، ونڈ سکرین سے منسلک اور دوسرا بس کے بالکل وسط میں۔ بھارتی مووی چل رہی تھی۔ اس کے گانے، ڈانس اور مکالمے بڑے ہی بیہودہ اور لچر تھے۔ گردن گھما کر عقب کی جانب دیکھا۔ سبھی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
مَیں نے بھاری بھر کم ڈرائیور سے پوچھا: استاد جی، سنا ہے حکومتِ پاکستان نے ٹی وی پر بھارتی فلمیں اور ڈرامے دکھانے بند کر دیے ہیں لیکن آپ چلا رہے ہیں، آپ لوگوں کو پولیس وغیرہ نے اس معاملے میں منع نہیں کیا؟ ''استاد جی'' اور کنڈکٹر نے مجھے اچنبھے سے دیکھا اور پھر بیک زبان بولے: ''کس نے منع کرنا ہے؟ ہمیں تو کسی نے اس بارے میں بولا ہے نہ حکم دیا ہے۔ آپ ہی ۔۔۔'' پھر نت نئے رنگ کی انگوٹھیوں بھرے بائیں ہاتھ سے ڈرائیور نے ہوا میں تلوار چلاتے ہوئے کہا: ''جی، ہندوستان کی فلمیں اور گانے نہ چلائیں تو سواری بس میں بیٹھتی ہی نہیں ہے صوفی جی۔ سواریاں زور دیتی ہیں۔ یہ فلمیں چلانا پڑتی ہیں۔ ساری دنیا یہی دیکھتی ہے۔ یہ ہماری اب مجبوری بن چکی ہیں۔'' مَیں خاموش ہو گیا اور پنڈی تک نہ بولا۔
کیا واقعی بھارتی فلمیں دیکھنا پاکستانیوں کی مجبوری بن چکی ہے؟ کیا اس کے بغیر گزارہ دشوار ہے؟ اندرا گاندھی کی اطالوی نژاد بہو، سونیا گاندھی، نے ایک بار کہا تھا کہ ''بھارت کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب بھارتی حملوں کا کام بھارتی فلمیں انجام دے رہی ہیں، پاکستانیوں کو ثقافتی، نفسیاتی اور ذہنی اعتبار سے تباہ کرنے کے لیے اب بھارتی فلمیں ہی کافی ہیں۔''
یہ تو پاکستان کے ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ سماجیات ہی صحیح طور پر بتا سکتے ہیں کہ بھارتی فلموں نے پاکستانی سوسائٹی کو کس قدر گزند پہنچایا ہے لیکن اب غیر ممالک کا آزاد میڈیا بھی اس امر کی بہرحال گواہی دے رہا ہے کہ انڈین فلمیں پاکستانی سماج کا جزوِ ناگزیر بن چکی ہیں۔ پاکستانی سوسائٹی کو یہ عارضہ ایک ہی رات میں لاحق نہیں ہوا بلکہ اس مرض نے دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ پاکستانی سماج کو اپنی گرفت میں جکڑا ہے۔
ایک ہشت پا کی طرح۔ اس کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہواجو ایک طرف تو دانستہ پاکستانی فلم اور فلمی فنکاروں کا بیڑا غرق کر رہے تھے اور دوسری طرف بھارتی اداکاروں کو اپنے سرکاری گھر میں مہمان بنا کر اُن کی خوب آؤ بھگت کر رہے تھے۔
یہ عجب تماشہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق تو شتروگھن سنہا ایسے بھارتی اداکاروں (جو اب بی جے پی کا رکنِ اسمبلی بن کر پاکستان کو گالیاں دیتا ہے) کو اپنے ہاں مدعو کر کے اُنہیں اعلیٰ سرکاری پروٹوکول سے نوازیں اور جنرل پرویز مشرف بھارتی دورے میں خصوصی طور پر رانی مکھرجی ایسی بھارتی اداکارہ کے ساتھ ناشتہ کرنے کی خواہش کا اظہار کریں لیکن اگر نوازشریف ایسا کوئی منتخب وزیراعظم بھارت جا کر مبینہ طور پر جندل ایسے کاروباری شخص کے ساتھ چائے پی لیں تو ہمارے ہاں کئی لوگ چائے کی پیالی میں طوفان بپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے قومی بیانئے میں بروئے کار یہ متضاد عنصر عوام کو یکجہتی کے عمل سے محروم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے میں اگر عوام، اپنے حکمرانوں کی دیکھا دیکھی، بھارتی فلموں اور بھارتی اداکاروں کو اپنے دل میں بٹھاتے اور جگہ دیتے ہیں تو پھر گلہ کیوں اور کیسے؟
اس بحث سے قطع نظر کہ مذہبی نقطۂ نظر سے فلم کی پاکستان کے نظریاتی سماج میں کتنی گنجائش ہے، کاروباری لحاظ سے بھارتی فلموں کے بغیر اب پاکستان کے سینما ہاؤسز کا زندہ رہنا محال ہے۔ انھیں اُس وقت تک ان سینماؤں میں چلانا پڑے گا جب تک پاکستان کی اپنی فلم انڈسٹری انتہائی ترقی کر کے سالانہ پچاس بہترین فلمیں پاکستان کی مارکیٹ میں لانا شروع نہ کر دے۔ یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری فلم انڈسٹری کی موت واقع ہو چکی ہے۔
پاکستان نے بھارتی فلموں پر چار عشروں پر محیط پابندی کے بعد انھیں دوبارہ پاکستانی سینماؤں میں نمائش کی اجازت دی تھی۔ انھی بھارتی فلموں کی شروعات کی وجہ سے پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں کاروباری شخصیات نے نئے اور جدید طرز کے سینماز بنائے۔ اور یوں رونقوں میں اضافہ بھی ہوا اور کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھیں، اگرچہ ان فلموں کی مسلسل نمائش سے بھارت کو بھی مالی فوائد پہنچے ہیں لیکن اس کاروبار میں تو ظاہر ہے تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بجتی ہے۔
بگاڑ اُس وقت ظہور میں آیا جب جولائی 2016ء میں مقبوضہ کشمیر میں حریت کی تازہ لہریں اُٹھیں اور پاکستان نے کشمیری بھائیوں کی حسب ِ معمول حمایت کی تو بھارتیوں نے ردِعمل میں سخت غصے کا اظہار کیا۔ اس ردِعمل میں بالی وڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کو بھارتی تشدد پسندوں نے خصوصی طور پر ہدف بنایا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے تو مذکورہ پاکستانی فنکاروں سے واقعی معنوں میں بہت زیادتی کی۔ آر ایس ایس کے فلمی بازو، ایم این ایس اور آئی ایم پی پی اے، نے نہایت قابلِ اعتراض لہجہ اختیار کیا۔
عالمی میڈیا نے بھی اس بھارتی لہجے کی مذمت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مگر بھارت میں ایسے فنکار بھی سامنے آئے جنہوں نے سود و زیاں کی پرواہ کیے بغیر بھارتی فلموں میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کی مذمت کرنے اور اُنہیں ''دہشتگرد'' قرار دینے سے صاف انکار کر دیا۔ مثال کے طور پر اداکارہ و معروف رکنِ اسمبلی دیویاسپندا عرف رمیا، سلمان خان، اوم پوری، پریانکا چوپڑا وغیرہ۔ رمیا اور اوم پوری کو تو یہ دھمکیاں بھی دی گئیں کہ اگر انھوں نے پاکستانی فنکاروں کی حمایت میں دیے گئے بیانات واپس نہ لیے تو ان کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر ہو سکتا ہے۔
اس دباؤ کے باوجود وہ اپنے بیانات سے دستکش ہونے پر تیا ر نہ ہوئے۔ اسی دوران کئی بھارتی اینکر پرسنز بھی پاکستانی فنکاروں کے خلاف دھول اڑانے کی بھونڈی کوششیں کرتے رہے (مثال کے طور پر ارنب گوسوامی) لیکن عالمی میڈیا میں ایسے عناصر کو قطعی قبولیت نہ مل سکی۔کارگل کی جنگ کے دوران بھی پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کی فلموں، ڈراموں اور ٹاک شوز پر پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن اس بحران کے خاتمے کے ساتھ ہی فریقین نے آرٹ کی دنیا میں یہ دو طرفہ ٹریفک بحال کر دی۔ اب بھی ایسا ہی ہونے کی امکانات ہیں کہ پاکستان اور بھارت طویل عرصہ تک باہمی کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
نریندر مودی بھی اپنی تمام تر اسلام اور پاکستان دشمنی کے باوجود اس حقیقت سے باخبر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اور قضیہ آج نہیں تو کل حل ہو جائے گا کہ اس کے کسی حل کے اندر ہی دونوں ہمسایہ ممالک کا امن اور خوشحالی کی دنیا پوشیدہ ہے؛ چنانچہ بھارت کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ پاکستانی فنکاروں کے بارے میں بیہودہ زبان استعمال کرنے کے بجائے، پاکستانی آرٹسٹک ٹیلنٹ کی قدر کرے۔
پاکستان اور بھارت کا عام آدمی تو سیاسی تعصبات سے بلند ہو کر ایک دوسرے کے فن سے محظوظ ہونا چاہتا ہے۔ اس کا تازہ ثبوت وہ میوزک کنسرٹ ہیں جو آجکل امریکا اور کینیڈا میں منعقد ہو رہے ہیں اور جن میں پاکستان اور بھارت کے دو نوجوان گلوکار، سونونگم اور عاطف اسلم، اکٹھے گا کر لاکھوں افراد میں خوشیاں بانٹ رہے ہیں۔