پنجاب میں بدلتی بلدیاتی صورتحال
پنجاب میں مسلم لیگ ن کو دس ماہ قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کامیابی ملی تھی
ملک کے تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں اور پنجاب واحد صوبہ رہ گیا ہے جہاں بلدیاتی انتخابات مکمل نہیں کرائے جارہے اور سیاسی مجبوری کے باعث پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات میں تاخیر چاہتی ہے جس کی وجہ سے منتخب یوسیز، چیئرمینوں اور کونسلروں میں بے چینی اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کو دس ماہ قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کامیابی ملی تھی اور پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ نشستیں بھی ن لیگ نے ہی جیتی ہیں ضمنی الیکشن میں ویسے بھی حکمران پارٹی ہی جیتتی ہے اور وفاق کے ساتھ پنجاب کا اقتدار بھی مسلم لیگ ن کے پاس ہے اور اسی وجہ سے پنجاب کے سیاسی حلقوں اور عوام نے اسی اقتدار کے باعث ن لیگ کو پنجاب میں بلدیاتی کامیابی دلائی تھی تاکہ ان کے مسائل حل ہوں مگر دس ماہ گزرنے کے بعد بھی بلدیاتی انتخابات مکمل نہیں ہورہے اور عوام سے وعدے کرکے بیٹھے ہوئے یوسی چیئرمین اور کونسلرز بے بس ہیں اور وہ اپنے ووٹروں کے کام نہیں کر پا رہے اور بلدیاتی ادارے کمشنری نظام کے ماتحت ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
پنجاب میں حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی تھی اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ با اثر سیاسی خاندانوں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انھیں ضلع کونسلوں، میونسپل کارپوریشنوں اور میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ گزشتہ عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ ن کے متعدد رہنماؤں نے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنے لوگوں سے ن لیگ کے نامزد امیدوار کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور وہ اگر الیکشن لڑتے تو ن لیگ والوں کے ووٹ تقسیم ہوجاتے اور پی ٹی آئی کا امیدوار جیت جاتا اسی لیے ضروری سمجھا گیا کہ ناراض گروپوں کو کسی بھی طرح منایا جائے تاکہ ن لیگ کے ووٹ تقسیم نہ ہوں اور پارٹی قیادت کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ بھی برقرار رہے اسی لیے علاقوں کے بااثر اور برادری اثر و رسوخ کے حامل افراد کو بلدیاتی اداروں کی سربراہی دینے کے وعدے کیے گئے تھے۔
ایسی ہی ایک مثال ملتان کی ہے جہاں وزیر جیل خانہ جات نا اہل قرار پائے تھے اور ن لیگ نے ضمنی الیکشن میں اپنے سابق وزیر کے کہنے پر ان کے بھائی کی بجائے کسی دوسرے کو ٹکٹ دے دیا جس پر سابق وزیر کا بھائی آزاد الیکشن لڑنے لگا اور پی ٹی آئی کی مضبوط پوزیشن کے باعث ن لیگ ووٹ تقسیم ہونے سے ہار جاتی اس لیے سابق وزیر کو یقین دلایاگیا کہ وہ اپنے بھائی کو دستبردار کرالیں تو انھیں بلدیاتی سربراہی دے کر ایڈجسٹ کرایا جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات کو گزرے دس ماہ ہوچکے ہیں اور ن لیگ کی حکومتوں کی مدت کم ہوکر باقی ڈیڑھ سال رہ گئی ہے اور 2018 کے انتخابات کے بعد بھی بلدیاتی ادارے ڈھائی سال برقرار رہیں گے اور 2018 کے انتخابات میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوںگے جنھیں اگر ناراض کیا گیا تو ن لیگ بری طرح متاثر ہوگی۔
ن لیگ کی قیادت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حقائق کے برعکس اپنی من مانی یا اپنوں کی سفارش مان کر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے دیتی ہے جو جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں نہ ان کی اپنی برادری ہوتی ہے، ایسے فرد کو ٹکٹ دے کر دیگر بااثر امیدواروں کو ناراض کردیا جاتا ہے تو وہ پارٹی بدل دیتے ہیں یا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے ہیں۔
2013 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور بہت سے رہنماؤں نے ٹکٹ نہ ملنے پر آزادانہ الیکشن لڑا اور جیت گئے اور بعد میں ن لیگ میں شامل ہوئے پنجاب میں مسلم لیگ ن اکثر جگہوں پر غلط ٹکٹ کی وجہ سے بھی ہاری ہے قیادت امیدوار کی پوزیشن دیکھے بغیر دوستی پر فیصلہ کردیتی ہے۔پنجاب میں برادری ازم اہمیت کا حامل ہے اور جن کی اپنے حلقے میں اپنی مضبوط برادری ہو ویسے وہ کیوں چاہیں گے کہ انھیں ٹکٹ نہ ملے اور دوسری برادری والا جیت جائے۔
ماضی میں نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے صدر غلام اسحاق کی دلچسپی سے منظور وٹو وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ ن کے ارکان خرید کر ایک رات ہی میں تبدیلی لائی گئی تھی۔ راتوں رات سیاسی وفاداری تبدیل کرلینے کا ریکارڈ بھی پنجاب اسمبلی کے ارکان ماضی میں بناچکے ہیں جس کی وجہ سے ن لیگ کے قائدین کو خدشہ ہے کہ بلدیاتی عہدیداروں کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عمل نہ ہوا تو ن لیگ میں اندرونی طور پر ناراضگیاں ہوجائیںگی جس کا ن لیگ کو 2018 کے عام انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے۔
حقائق کے برعکس فیصلے کرکے ناراضگیاں پیدا کی جاتی ہیں ماضی میں غلط فیصلوں کے باعث ن لیگ کے امیدوار ہارے بھی ہیں۔ لاہور کی مثال واضح ہے بعض حلقے آرائیں برادری کا گڑھ ہیں جہاں قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی میئر آرائیں برادری کے منتخب ہوتے آئے ہیں جس کی مثال میاں شجاع الرحمن، میاں اظہر اور میاں عامر محمود ہیں مگرن لیگ ماضی کی طرح اب بھی آرائیں برادری کی بجائے خواجہ برادری کا میئر لانا چاہ رہی ہے جس کی وجہ سے ن لیگ کو غلط فیصلے کی وجہ سے عام انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے۔
عمران خان آرائیں برادری کے ووٹوں کے لیے پہلے ہی میاں محمود الرشید کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر لاچکے ہیں، میاں اظہر کی وجہ سے میاں صاحبان آرائیں برادری کو نظر انداز کررہے ہیں جس کا انھیں مستقبل میں نقصان اور عمران خان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔لاہور اب ن لیگ کا مضبوط گڑھ نہیں رہا جہاں ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کا امیدوار صوبائی نشست ہار بھی چکا ہے، پی ٹی آئی اب لاہور میں ن لیگ کی سخت حریف ہے جہاں اس کے ارکان اسمبلی بھی ہیں اور اس کا ووٹ بینک بڑھا ہے اور ن لیگ کی حکومتوں کے باوجود ن لیگ کا امیدوار ہار جانا اہمیت رکھتا ہے۔ لاہور ن لیگ کے ہاتھوں سے نکل سکتا ہے اور اسی لیے ن لیگ پریشان بھی ہے۔
پنجاب میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے وہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے مہنگے انتخابات تھے جہاں یوسی چیئرمینوں کو کامیابی کے لیے چار پانچ کروڑ روپے تک خرچہ کرنا پڑا تھا اور مقابلہ بھی سب سے سخت پنجاب ہی میں ہوا اور اب بلدیاتی عہدیداروں کے الیکشن میں بھی یہی ہونا ہے۔ سندھ میں پی پی اپنی حکومت اور اکثریت کے باوجود بعض جگہوں پر اپنے چیئرمین منتخب نہ کرواسکی اور یہی کچھ پنجاب میں متوقع ہے اور ن لیگ میں بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ جو ن لیگ کے لیے دھچکا ثابت ہوںگی اور فائدہ پی ٹی آئی لے جائے گی۔
بے دریغ پیسے کا استعمال پنجاب میں ن لیگ کی توقع کے برعکس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے جہاں ن لیگ میں گروپنگ زیادہ ہے اور بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب اب ن لیگ کے لیے امتحان بنا ہوا ہے اور اسی وجہ سے تاخیر پہ تاخیر ہو رہی ہے اور پنجاب میں بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب نہیں کرایا جارہا اور جتنی مزید تاخیر ہوگی وہ مسلم لیگ ن کے لیے نقصان دہ اور پارٹی کے اندر گروپنگ مزید بڑھے گی اور برادری ازم اور پیسہ ن لیگ کو شکست سے دو چار بھی کرسکتا ہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کو دس ماہ قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کامیابی ملی تھی اور پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ نشستیں بھی ن لیگ نے ہی جیتی ہیں ضمنی الیکشن میں ویسے بھی حکمران پارٹی ہی جیتتی ہے اور وفاق کے ساتھ پنجاب کا اقتدار بھی مسلم لیگ ن کے پاس ہے اور اسی وجہ سے پنجاب کے سیاسی حلقوں اور عوام نے اسی اقتدار کے باعث ن لیگ کو پنجاب میں بلدیاتی کامیابی دلائی تھی تاکہ ان کے مسائل حل ہوں مگر دس ماہ گزرنے کے بعد بھی بلدیاتی انتخابات مکمل نہیں ہورہے اور عوام سے وعدے کرکے بیٹھے ہوئے یوسی چیئرمین اور کونسلرز بے بس ہیں اور وہ اپنے ووٹروں کے کام نہیں کر پا رہے اور بلدیاتی ادارے کمشنری نظام کے ماتحت ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
پنجاب میں حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی تھی اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ با اثر سیاسی خاندانوں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انھیں ضلع کونسلوں، میونسپل کارپوریشنوں اور میونسپل اور ٹاؤن کمیٹیوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ گزشتہ عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ ن کے متعدد رہنماؤں نے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنے لوگوں سے ن لیگ کے نامزد امیدوار کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور وہ اگر الیکشن لڑتے تو ن لیگ والوں کے ووٹ تقسیم ہوجاتے اور پی ٹی آئی کا امیدوار جیت جاتا اسی لیے ضروری سمجھا گیا کہ ناراض گروپوں کو کسی بھی طرح منایا جائے تاکہ ن لیگ کے ووٹ تقسیم نہ ہوں اور پارٹی قیادت کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ بھی برقرار رہے اسی لیے علاقوں کے بااثر اور برادری اثر و رسوخ کے حامل افراد کو بلدیاتی اداروں کی سربراہی دینے کے وعدے کیے گئے تھے۔
ایسی ہی ایک مثال ملتان کی ہے جہاں وزیر جیل خانہ جات نا اہل قرار پائے تھے اور ن لیگ نے ضمنی الیکشن میں اپنے سابق وزیر کے کہنے پر ان کے بھائی کی بجائے کسی دوسرے کو ٹکٹ دے دیا جس پر سابق وزیر کا بھائی آزاد الیکشن لڑنے لگا اور پی ٹی آئی کی مضبوط پوزیشن کے باعث ن لیگ ووٹ تقسیم ہونے سے ہار جاتی اس لیے سابق وزیر کو یقین دلایاگیا کہ وہ اپنے بھائی کو دستبردار کرالیں تو انھیں بلدیاتی سربراہی دے کر ایڈجسٹ کرایا جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات کو گزرے دس ماہ ہوچکے ہیں اور ن لیگ کی حکومتوں کی مدت کم ہوکر باقی ڈیڑھ سال رہ گئی ہے اور 2018 کے انتخابات کے بعد بھی بلدیاتی ادارے ڈھائی سال برقرار رہیں گے اور 2018 کے انتخابات میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوںگے جنھیں اگر ناراض کیا گیا تو ن لیگ بری طرح متاثر ہوگی۔
ن لیگ کی قیادت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حقائق کے برعکس اپنی من مانی یا اپنوں کی سفارش مان کر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے دیتی ہے جو جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں نہ ان کی اپنی برادری ہوتی ہے، ایسے فرد کو ٹکٹ دے کر دیگر بااثر امیدواروں کو ناراض کردیا جاتا ہے تو وہ پارٹی بدل دیتے ہیں یا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے ہیں۔
2013 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور بہت سے رہنماؤں نے ٹکٹ نہ ملنے پر آزادانہ الیکشن لڑا اور جیت گئے اور بعد میں ن لیگ میں شامل ہوئے پنجاب میں مسلم لیگ ن اکثر جگہوں پر غلط ٹکٹ کی وجہ سے بھی ہاری ہے قیادت امیدوار کی پوزیشن دیکھے بغیر دوستی پر فیصلہ کردیتی ہے۔پنجاب میں برادری ازم اہمیت کا حامل ہے اور جن کی اپنے حلقے میں اپنی مضبوط برادری ہو ویسے وہ کیوں چاہیں گے کہ انھیں ٹکٹ نہ ملے اور دوسری برادری والا جیت جائے۔
ماضی میں نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے صدر غلام اسحاق کی دلچسپی سے منظور وٹو وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ ن کے ارکان خرید کر ایک رات ہی میں تبدیلی لائی گئی تھی۔ راتوں رات سیاسی وفاداری تبدیل کرلینے کا ریکارڈ بھی پنجاب اسمبلی کے ارکان ماضی میں بناچکے ہیں جس کی وجہ سے ن لیگ کے قائدین کو خدشہ ہے کہ بلدیاتی عہدیداروں کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عمل نہ ہوا تو ن لیگ میں اندرونی طور پر ناراضگیاں ہوجائیںگی جس کا ن لیگ کو 2018 کے عام انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے۔
حقائق کے برعکس فیصلے کرکے ناراضگیاں پیدا کی جاتی ہیں ماضی میں غلط فیصلوں کے باعث ن لیگ کے امیدوار ہارے بھی ہیں۔ لاہور کی مثال واضح ہے بعض حلقے آرائیں برادری کا گڑھ ہیں جہاں قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی میئر آرائیں برادری کے منتخب ہوتے آئے ہیں جس کی مثال میاں شجاع الرحمن، میاں اظہر اور میاں عامر محمود ہیں مگرن لیگ ماضی کی طرح اب بھی آرائیں برادری کی بجائے خواجہ برادری کا میئر لانا چاہ رہی ہے جس کی وجہ سے ن لیگ کو غلط فیصلے کی وجہ سے عام انتخابات میں نقصان ہوسکتا ہے۔
عمران خان آرائیں برادری کے ووٹوں کے لیے پہلے ہی میاں محمود الرشید کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر لاچکے ہیں، میاں اظہر کی وجہ سے میاں صاحبان آرائیں برادری کو نظر انداز کررہے ہیں جس کا انھیں مستقبل میں نقصان اور عمران خان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔لاہور اب ن لیگ کا مضبوط گڑھ نہیں رہا جہاں ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کا امیدوار صوبائی نشست ہار بھی چکا ہے، پی ٹی آئی اب لاہور میں ن لیگ کی سخت حریف ہے جہاں اس کے ارکان اسمبلی بھی ہیں اور اس کا ووٹ بینک بڑھا ہے اور ن لیگ کی حکومتوں کے باوجود ن لیگ کا امیدوار ہار جانا اہمیت رکھتا ہے۔ لاہور ن لیگ کے ہاتھوں سے نکل سکتا ہے اور اسی لیے ن لیگ پریشان بھی ہے۔
پنجاب میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے وہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے مہنگے انتخابات تھے جہاں یوسی چیئرمینوں کو کامیابی کے لیے چار پانچ کروڑ روپے تک خرچہ کرنا پڑا تھا اور مقابلہ بھی سب سے سخت پنجاب ہی میں ہوا اور اب بلدیاتی عہدیداروں کے الیکشن میں بھی یہی ہونا ہے۔ سندھ میں پی پی اپنی حکومت اور اکثریت کے باوجود بعض جگہوں پر اپنے چیئرمین منتخب نہ کرواسکی اور یہی کچھ پنجاب میں متوقع ہے اور ن لیگ میں بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ جو ن لیگ کے لیے دھچکا ثابت ہوںگی اور فائدہ پی ٹی آئی لے جائے گی۔
بے دریغ پیسے کا استعمال پنجاب میں ن لیگ کی توقع کے برعکس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے جہاں ن لیگ میں گروپنگ زیادہ ہے اور بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب اب ن لیگ کے لیے امتحان بنا ہوا ہے اور اسی وجہ سے تاخیر پہ تاخیر ہو رہی ہے اور پنجاب میں بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب نہیں کرایا جارہا اور جتنی مزید تاخیر ہوگی وہ مسلم لیگ ن کے لیے نقصان دہ اور پارٹی کے اندر گروپنگ مزید بڑھے گی اور برادری ازم اور پیسہ ن لیگ کو شکست سے دو چار بھی کرسکتا ہے۔