مرثیہ… دکن سے کراچی تک
اردو زبان و ادب میں آغاز ہی سے مرثائی ادب کے آثار موجود رہے ہیں
اردو زبان و ادب میں آغاز ہی سے مرثائی ادب کے آثار موجود رہے ہیں، اردو ادب کا آغاز دکن سے ثابت ہے اور مرثائی ادب بھی اس کا اہم حصہ رہا ہے بلکہ دکنی شاعری کی ابتدا ہی رثائی شاعری سے ہوئی، ولی دکنی سے قبل ہی قلی قلب شاہ کے یہاں مرثائی اشعار خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔
کربلا کتھا اور رہ مجلس سے ہی مرثائی ادب کا ذخیرہ دکنی ادب میں ملتا ہے دکن سے دلی اور پھر لکھنؤ بھرپور انداز میں نثر و نظم کی صورت میں اضافے ہوتے رہے جہاں تک مرثائی ادب میں نظم کا تعلق ہے، سوز، سلام، رباعی، قطعہ، نوحہ کے علاوہ مرثیہ ان تمام مقامات پر کسی نہ کسی ہیئت شعری میں موجود رہا، مرثیے کا اصل رنگ اور شہرت انیسؔ و دبیرؔ کی مرثیہ نگاری سے سامنے آیا۔ خانوادہ انیس نے مرثیے کی موجودہ شکل نکھاری اور صنف مرثیہ کو چار چاند لگائے۔
میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ نے مرثیے میں کئی تجربات اپنے اپنے انداز سے کیے اور مرثیہ کو اس مقام پر پہنچایا کہ لگتا تھا کہ اب اس میں مزید کسی اضافے کی گنجائش نہیں رہی جو کسی حد تک درست بھی ہے مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ فن کوئی بھی ہو اس کا ارتقا جاری رہتا ہے مزید گنجائش پیدا ہوتی رہتی ہے کیوںکہ فنون لطیفہ کا تعلق ہمیشہ انسان کے احساسات، جذبات اور حالات سے رہتا ہے اگر انسانی حیات جمود کا شکار ہوجائے تو فنون لطیفہ بھی رک جائے۔ مگر حیات انسانی جاری و ساری ہے تو تمام فنون بالخصوص شاعری میں بھی آگے بڑھنے اور موجودہ حالات، خیالات، آلام و مصائب کا اظہار تمام شعری اصناف میں ہوتا رہے گا۔
ابتدا میں مرثیہ محض مصائب کربلا اور شہادت حسینؓ کے ذکر تک محدود تھا مگر بعد میں شعرا نے مختلف اجزا مصائب و بین کے علاوہ بھی مرثیے میں متعارف کرائے، چہرہ سراپا، اجز، مقابلہ، کردار و منظر نگاری وغیرہ یعنی مرثیے کی موجودہ ہیئت دبیرؔ و انیسؔ سے قبل ہی متعین ہوچکی تھی میر ضاحکؔ سے انیسؔ تک بلکہ ان کے بعد بھی اسی انداز میں مرثیہ لکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے مرثیے کے علاوہ مرثائی ادب کا (شعری) دیگر اصناف شعری میں وافر ذخیرہ موجود ہے مگر ہمارا موضوع مرثیہ کا ارتقا ہے اس لیے ان اضاف کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے یہ واضح کرنا اہم ہے کہ مرثیہ اردو شاعری کی وہ صنف ہے جس میں تمام شعری اضاف کم و بیش موجود ہیں۔
حتیٰ کہ انیسؔ کے کلام میں غزل کا رنگ بھی جا بجا ملتا ہے، بے حد اختصار کے ساتھ مثال پیش کرتی ہوں۔ جب حضرت عباسؓ کو امام عالی مقام نے اپنی سپاہ کا علم دار منتخب کیا تو سب اظہار اطمینان و خوشی کے لیے امام حسینؓ کے خیمے میں موجود ہوتے ہیں، حضرت عباسؓ کی زوجہ بھی یہ خبر سن کر خیمہ حسینیؓ میں آتی ہیں اس وقت کے منظر کو انیسؔ نے بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے کہ شوہر کے مرثیے میں اضافے پر بیوی کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے۔مرثیہ میں یہ منظر کئی بندوں پر مشتمل ہے مگر ادائے مطلب کے لیے میں صرف ایک مصرعے پر اکتفا کرتی ہوں :
شوہر کی جانب پہلے کنکھوں سے کی نظر
یا مندرجہ ذیل شعر کسی غزل ہی کا معلوم ہوتا ہے
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹتے ہیں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
وغیرہ۔ میر خلیق، میر حسن، میر انیس اور مرزا دبیر کے بعد بھی عرصے تک مسدس ہی مرثیہ کے لیے مروج رہی بلکہ آج بھی زیادہ تر مراثی اس ہیئت میں کہے جارہے ہیں، یوں تو آزاد مرثیے بھی لکھے گئے مگر مروجہ ہیئت کی مقبولیت میں وہ زیادہ پر اثر ثابت نہ ہوسکے مگر اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ مرثیہ جمود کا شکار ہے۔
اس میں مزید ارتقا کی گنجائش ہی نہیں۔ مرثیہ جدید قدیم مرثیے سے کئی لحاظ سے مختلف بھی ہے اول تو یہ فرق ہے کہ قدیم مراثی کئی کئی سو بندوں پر مشتمل ہوتے تھے جب کہ جدید مرثیہ اختصار کے علاوہ حالات حاظرہ، جدید خیالات و افکار کی عکاسی بھی کررہے ہیں پھر یہ کہ جدید مرثیے باقاعدہ عنوان کے تحت کہے جارہے ہیں موضوع سے ہٹے بغیر مرثیے کے تمام تقاضوں کو بھی پورا کیا جارہاہے جوکہ قدیم مرثیے کی نسبت ذرا مشکل کام ہے، شاداں دہلوی، ہلال نقوی کے علاوہ ہداﷲ حیدر زیدی نے بھی موضوعاتی مرثیے کہے ہیں۔
تقسیم برصغیر کے فوراً بعد ماحول اور حالات مرثیہ گوئی کے لیے خاصے سازگار تھے اپنے اجداد کی قبریں اور قدریں چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والوں کے دل درد و یاس سے بھرے ہوئے تھے، ہجرت کے مصائب اور غیر یقینی مستقبل نے دلوں میں سوز و گداز پیدا کردیا تھا۔ کربلا ہر طرح کے انسانی مصائب و آلام پر صبر کرنے کا نہ صرف درس دیتا ہے بلکہ اس صورتحال سے نکلنے کا سلیقہ بھی عطا کرتا ہے۔ لہٰذا اس صورتحال میں بھارت کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے شعرا مرثیہ گوئی کی طرف راغب ہوئے ان میں کچھ تو تقسیم سے قبل ہی اس میدان میں قدم رکھ چکے تھے اور کچھ جو دوسری شعری اضاف میں طبع آزمائی کررہے تھے وہ بھی مرثیہ گوئی کی طرف آئے کیوںکہ مرثیہ ظلم، غریب الدیاری، بے سروسامانی، پیاروں اور وطن سے بچھڑنے کے درد و اندوہ کو انتہائی مہذب انداز میں رضائے الٰہی کے لیے سر تسلیم خم کرنے کا درس دیتا ہے۔
مرثیہ دنیاوی جاہ و جلال، دولت و ثروت کے بجائے توکل، استغنا، اظہار بندگی ہے۔ دنیا کی بے ثباتی سے حوصلہ وار گزرنے کی ہمت و جرأت بھی عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب علاقوں اور شہروں کے بے سروسامان شعرا کراچی میں یکجا ہوئے تو اپنے مصائب ہجرت کے باعث اپنی شاعری کا رخ مرثیہ گوئی کی جانب موڑنے میں خاصے کامیاب رہے لہٰذا یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تقسیم کے فوراً بعد کراچی میں شعر و ادب کا آغاز دکن کی طرح رثائی شاعری بالخصوص مرثیہ سے ہوا، دوسری اضاف سخن بعد میں سامنے آئیں۔
کراچی کی ابتدائی ادبی فضا میں مرثیہ گو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے۔ پہلے سے مرثیہ کہنے والے شعرا نے نہ صرف مرثیہ گوئی کو آگے بڑھایا بلکہ نئے شعرا کو بھی اس طرف راغب کیا، بزرگوں کی راہنمائی اور ہمت افزائی و قدر دانی سے نئے شعرا کے حوصلوں کو مہمیز کیا۔
قیام پاکستان سے اب تک مرثیہ گو شعرا کی جو طویل فہرست ہے وہ اپنی جگہ مگر کچھ ایسے شعرا بھی ہیں جو مرثیہ (مختصر یا طویل) کہہ رہے ہیں مگر لفافہ کلچر اور سینئرز کے کلام کو بلا کسی دقت کے اخبارات و رسائل میں جگہ دینے کے رواج نے ان نو آزمودہ شعرا کے کلام کو منظر عام پر آنے سے محروم رکھا ہوا ہے۔
بہر حال دبستانِ کراچی کے ابتدا سے اب تک کے شعرا کی فہرست میں جو مقبول اور معلوم اسمائے گرامی شامل ہیں ان میں جوش ملیح آبادی، سید آلِ رضا، نسیم ام وہوی، ڈاکٹر یاور عباس، آرزو لکھنوی، صبا اکبر آبادی، ثمر لکھنوی، کامل جوناگڑھی، منظر عظمی موجودہ سرسوی، شوکت تھانوی، رئیس امرو ہوی، کوکب شادانی، راغب مراد آبادی، قمر جلالوی، جمیل نقوی امروہوی، امیر امام حر، ریبارو دلوی، ضیاالحسن موسوی، وصی فیض آبادی، عدیم امرو ہوی، عزم جونپوری، محسن اعظمی، مصطفی زیدی، میر رضی میر جونپوری، مقبول حسین نیئر، کرار جونپوری، ساحر لکھنوی، خمار ناروی، صہبا اختر، امیر فاضلی، خاور ربگرامی شامل ہیں۔
کراچی کے کئی اہم مرثیہ نگاروں میں کرار نوری، حسین اعظمی، کوثر الٰہ آبادی، ظلِ صادق، نعیم نقوی، عزت لکھنوی، مسرور شکوہ آبادی، زاہد فتح پوری، بصیر بنارسی، بیدار نجفی، رفیق رضوی، سالک نقوی کے علاوہ ہلال نقوی، تازہ ترین نام ہداﷲ حیدر کا ہے جو کرار جونپوری کے صاحبزادے ہیں۔ یہ سب شعرا افق مرثیہ پر جگمگاتے ستاروں کی مانند ہیں۔
مرثیے کا سفر ہنوز جاری ہے۔ مرثیہ کے ارتقائی سفر نے کئی موڑ کاٹے ہیں مرثیے کے مستقبل البتہ روشن ہے کہ یہ جن کردار اور ہیئتوں کی اسلامی و انسانی خدمات و قربانیوں کے لیے وقف ہے ان کا نام، کام اور قربانیاں رہتی دنیا تک باقی رہنے والی ہیں لہٰذا ان کا تذکرہ بھی شعری و نثری اضاف میں ہوتا رہے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ آنیوالی نسلیں مرثیے کے لیے کس ہیئت انداز اور عنوانات کا انتخاب کرتی ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ مرثیے کو ایک مخصوص فقہی و مذہبی صنف تک محدود کر کے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا ہے حالانکہ تمام اصناف شعری میں مرثیہ ہی اس مقام پر فائز ہے کہ جس کو دنیا بھر کی شاعری کے مقابلے میں فخریہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
کربلا کتھا اور رہ مجلس سے ہی مرثائی ادب کا ذخیرہ دکنی ادب میں ملتا ہے دکن سے دلی اور پھر لکھنؤ بھرپور انداز میں نثر و نظم کی صورت میں اضافے ہوتے رہے جہاں تک مرثائی ادب میں نظم کا تعلق ہے، سوز، سلام، رباعی، قطعہ، نوحہ کے علاوہ مرثیہ ان تمام مقامات پر کسی نہ کسی ہیئت شعری میں موجود رہا، مرثیے کا اصل رنگ اور شہرت انیسؔ و دبیرؔ کی مرثیہ نگاری سے سامنے آیا۔ خانوادہ انیس نے مرثیے کی موجودہ شکل نکھاری اور صنف مرثیہ کو چار چاند لگائے۔
میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ نے مرثیے میں کئی تجربات اپنے اپنے انداز سے کیے اور مرثیہ کو اس مقام پر پہنچایا کہ لگتا تھا کہ اب اس میں مزید کسی اضافے کی گنجائش نہیں رہی جو کسی حد تک درست بھی ہے مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ فن کوئی بھی ہو اس کا ارتقا جاری رہتا ہے مزید گنجائش پیدا ہوتی رہتی ہے کیوںکہ فنون لطیفہ کا تعلق ہمیشہ انسان کے احساسات، جذبات اور حالات سے رہتا ہے اگر انسانی حیات جمود کا شکار ہوجائے تو فنون لطیفہ بھی رک جائے۔ مگر حیات انسانی جاری و ساری ہے تو تمام فنون بالخصوص شاعری میں بھی آگے بڑھنے اور موجودہ حالات، خیالات، آلام و مصائب کا اظہار تمام شعری اصناف میں ہوتا رہے گا۔
ابتدا میں مرثیہ محض مصائب کربلا اور شہادت حسینؓ کے ذکر تک محدود تھا مگر بعد میں شعرا نے مختلف اجزا مصائب و بین کے علاوہ بھی مرثیے میں متعارف کرائے، چہرہ سراپا، اجز، مقابلہ، کردار و منظر نگاری وغیرہ یعنی مرثیے کی موجودہ ہیئت دبیرؔ و انیسؔ سے قبل ہی متعین ہوچکی تھی میر ضاحکؔ سے انیسؔ تک بلکہ ان کے بعد بھی اسی انداز میں مرثیہ لکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے مرثیے کے علاوہ مرثائی ادب کا (شعری) دیگر اصناف شعری میں وافر ذخیرہ موجود ہے مگر ہمارا موضوع مرثیہ کا ارتقا ہے اس لیے ان اضاف کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے یہ واضح کرنا اہم ہے کہ مرثیہ اردو شاعری کی وہ صنف ہے جس میں تمام شعری اضاف کم و بیش موجود ہیں۔
حتیٰ کہ انیسؔ کے کلام میں غزل کا رنگ بھی جا بجا ملتا ہے، بے حد اختصار کے ساتھ مثال پیش کرتی ہوں۔ جب حضرت عباسؓ کو امام عالی مقام نے اپنی سپاہ کا علم دار منتخب کیا تو سب اظہار اطمینان و خوشی کے لیے امام حسینؓ کے خیمے میں موجود ہوتے ہیں، حضرت عباسؓ کی زوجہ بھی یہ خبر سن کر خیمہ حسینیؓ میں آتی ہیں اس وقت کے منظر کو انیسؔ نے بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے کہ شوہر کے مرثیے میں اضافے پر بیوی کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے۔مرثیہ میں یہ منظر کئی بندوں پر مشتمل ہے مگر ادائے مطلب کے لیے میں صرف ایک مصرعے پر اکتفا کرتی ہوں :
شوہر کی جانب پہلے کنکھوں سے کی نظر
یا مندرجہ ذیل شعر کسی غزل ہی کا معلوم ہوتا ہے
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹتے ہیں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
وغیرہ۔ میر خلیق، میر حسن، میر انیس اور مرزا دبیر کے بعد بھی عرصے تک مسدس ہی مرثیہ کے لیے مروج رہی بلکہ آج بھی زیادہ تر مراثی اس ہیئت میں کہے جارہے ہیں، یوں تو آزاد مرثیے بھی لکھے گئے مگر مروجہ ہیئت کی مقبولیت میں وہ زیادہ پر اثر ثابت نہ ہوسکے مگر اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ مرثیہ جمود کا شکار ہے۔
اس میں مزید ارتقا کی گنجائش ہی نہیں۔ مرثیہ جدید قدیم مرثیے سے کئی لحاظ سے مختلف بھی ہے اول تو یہ فرق ہے کہ قدیم مراثی کئی کئی سو بندوں پر مشتمل ہوتے تھے جب کہ جدید مرثیہ اختصار کے علاوہ حالات حاظرہ، جدید خیالات و افکار کی عکاسی بھی کررہے ہیں پھر یہ کہ جدید مرثیے باقاعدہ عنوان کے تحت کہے جارہے ہیں موضوع سے ہٹے بغیر مرثیے کے تمام تقاضوں کو بھی پورا کیا جارہاہے جوکہ قدیم مرثیے کی نسبت ذرا مشکل کام ہے، شاداں دہلوی، ہلال نقوی کے علاوہ ہداﷲ حیدر زیدی نے بھی موضوعاتی مرثیے کہے ہیں۔
تقسیم برصغیر کے فوراً بعد ماحول اور حالات مرثیہ گوئی کے لیے خاصے سازگار تھے اپنے اجداد کی قبریں اور قدریں چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والوں کے دل درد و یاس سے بھرے ہوئے تھے، ہجرت کے مصائب اور غیر یقینی مستقبل نے دلوں میں سوز و گداز پیدا کردیا تھا۔ کربلا ہر طرح کے انسانی مصائب و آلام پر صبر کرنے کا نہ صرف درس دیتا ہے بلکہ اس صورتحال سے نکلنے کا سلیقہ بھی عطا کرتا ہے۔ لہٰذا اس صورتحال میں بھارت کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے شعرا مرثیہ گوئی کی طرف راغب ہوئے ان میں کچھ تو تقسیم سے قبل ہی اس میدان میں قدم رکھ چکے تھے اور کچھ جو دوسری شعری اضاف میں طبع آزمائی کررہے تھے وہ بھی مرثیہ گوئی کی طرف آئے کیوںکہ مرثیہ ظلم، غریب الدیاری، بے سروسامانی، پیاروں اور وطن سے بچھڑنے کے درد و اندوہ کو انتہائی مہذب انداز میں رضائے الٰہی کے لیے سر تسلیم خم کرنے کا درس دیتا ہے۔
مرثیہ دنیاوی جاہ و جلال، دولت و ثروت کے بجائے توکل، استغنا، اظہار بندگی ہے۔ دنیا کی بے ثباتی سے حوصلہ وار گزرنے کی ہمت و جرأت بھی عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب علاقوں اور شہروں کے بے سروسامان شعرا کراچی میں یکجا ہوئے تو اپنے مصائب ہجرت کے باعث اپنی شاعری کا رخ مرثیہ گوئی کی جانب موڑنے میں خاصے کامیاب رہے لہٰذا یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تقسیم کے فوراً بعد کراچی میں شعر و ادب کا آغاز دکن کی طرح رثائی شاعری بالخصوص مرثیہ سے ہوا، دوسری اضاف سخن بعد میں سامنے آئیں۔
کراچی کی ابتدائی ادبی فضا میں مرثیہ گو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے۔ پہلے سے مرثیہ کہنے والے شعرا نے نہ صرف مرثیہ گوئی کو آگے بڑھایا بلکہ نئے شعرا کو بھی اس طرف راغب کیا، بزرگوں کی راہنمائی اور ہمت افزائی و قدر دانی سے نئے شعرا کے حوصلوں کو مہمیز کیا۔
قیام پاکستان سے اب تک مرثیہ گو شعرا کی جو طویل فہرست ہے وہ اپنی جگہ مگر کچھ ایسے شعرا بھی ہیں جو مرثیہ (مختصر یا طویل) کہہ رہے ہیں مگر لفافہ کلچر اور سینئرز کے کلام کو بلا کسی دقت کے اخبارات و رسائل میں جگہ دینے کے رواج نے ان نو آزمودہ شعرا کے کلام کو منظر عام پر آنے سے محروم رکھا ہوا ہے۔
بہر حال دبستانِ کراچی کے ابتدا سے اب تک کے شعرا کی فہرست میں جو مقبول اور معلوم اسمائے گرامی شامل ہیں ان میں جوش ملیح آبادی، سید آلِ رضا، نسیم ام وہوی، ڈاکٹر یاور عباس، آرزو لکھنوی، صبا اکبر آبادی، ثمر لکھنوی، کامل جوناگڑھی، منظر عظمی موجودہ سرسوی، شوکت تھانوی، رئیس امرو ہوی، کوکب شادانی، راغب مراد آبادی، قمر جلالوی، جمیل نقوی امروہوی، امیر امام حر، ریبارو دلوی، ضیاالحسن موسوی، وصی فیض آبادی، عدیم امرو ہوی، عزم جونپوری، محسن اعظمی، مصطفی زیدی، میر رضی میر جونپوری، مقبول حسین نیئر، کرار جونپوری، ساحر لکھنوی، خمار ناروی، صہبا اختر، امیر فاضلی، خاور ربگرامی شامل ہیں۔
کراچی کے کئی اہم مرثیہ نگاروں میں کرار نوری، حسین اعظمی، کوثر الٰہ آبادی، ظلِ صادق، نعیم نقوی، عزت لکھنوی، مسرور شکوہ آبادی، زاہد فتح پوری، بصیر بنارسی، بیدار نجفی، رفیق رضوی، سالک نقوی کے علاوہ ہلال نقوی، تازہ ترین نام ہداﷲ حیدر کا ہے جو کرار جونپوری کے صاحبزادے ہیں۔ یہ سب شعرا افق مرثیہ پر جگمگاتے ستاروں کی مانند ہیں۔
مرثیے کا سفر ہنوز جاری ہے۔ مرثیہ کے ارتقائی سفر نے کئی موڑ کاٹے ہیں مرثیے کے مستقبل البتہ روشن ہے کہ یہ جن کردار اور ہیئتوں کی اسلامی و انسانی خدمات و قربانیوں کے لیے وقف ہے ان کا نام، کام اور قربانیاں رہتی دنیا تک باقی رہنے والی ہیں لہٰذا ان کا تذکرہ بھی شعری و نثری اضاف میں ہوتا رہے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ آنیوالی نسلیں مرثیے کے لیے کس ہیئت انداز اور عنوانات کا انتخاب کرتی ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ مرثیے کو ایک مخصوص فقہی و مذہبی صنف تک محدود کر کے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا ہے حالانکہ تمام اصناف شعری میں مرثیہ ہی اس مقام پر فائز ہے کہ جس کو دنیا بھر کی شاعری کے مقابلے میں فخریہ پیش کیا جاسکتا ہے۔