نظریاتی تنظیموں میں موقع پرستی

پاکستان میں کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو ظلم و بربریت پر مبنی سرمایہ دارانہ سماج کے خلاف نیک نیتی سے اپنا کام کررہی ہیں

ibhinder@yahoo.co.uk

میں گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان اورہندوستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے رسائل اوراخبارات میں تسلسل سے مارکسسٹ نقطہ نظر سے آرٹیکلزاور مضامین لکھ رہا ہوں،جن کا مقصد محض اپنی طبع کی تسکین کے لیے کسی نظریے کی خیالی اشاعت نہیں ہے، بلکہ ایک نظریے کی روشنی میں تشکیل پانے والے معاشرے اوراس کے اندر سے جنم لینے والی انسانی واخلاقی اقدار کا فروغ اور ان اقدار کو حقیقی سطح پر وجود میں لانا ہے۔

کوشش میری یہ رہی ہے کہ لوگوں کو اس گھناؤنے سرمایہ داری نظام کے ہولناک کردار سے آگاہ کیا جائے، انھیں ان کی طبقاتی شناخت کا شعور دیا جائے، طبقاتی بنیاد پر لوگوں میں یگانگت کا احساس بیدارکیا جائے۔ بالخصوص ان لوگوں کو جن کی طبقاتی بنیاد تو ایک ہی ہے مگر انھیں مذہب، رنگ، نسل، قومیت اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ ان لوگوںکو مارکسزم کے سماجی، معاشی، سیاسی نظام کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔

یہ درست ہے کہ ان لوگوں کو بعض پرانے مارکسیوں نے مارکسزم سے متنفر کیے رکھا، یہ کہہ کر کہ یہ کمیونسٹ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ وہ لوگ جنھیں اپنے عقائد عزیز ہوتے ہیں، وہ ساری زندگی کی غربت و افلاس، ذلت و رسوائی، ظلم و دہشت اور جبر و استحصال تو برداشت کرلیتے ہیں، لیکن وہ کسی بھی قیمت پر اپنے عقیدے پر آنچ نہیں آنے دیتے، وہ اسے ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔

پرانے ترقی پسندوں سے یہ المیہ، بہرحال، ضرور سرزد ہوا ہے کہ انھوں نے مارکسی نظریے کی سماجی، معاشی اور سیاسی جہات کو نمایاں کرنے کی بجائے سیدھا اسے عقیدے سے متصادم قرار دے دیا۔انھوں نے نظام کی تبدیلی کی بجائے الحاد کو مسئلہ بنا لیا۔ پاکستان جیسے ملک میں مارکسی آئیڈیالوجی کے جڑیں مضبوط نہ ہونے کی، بہرحال، یہ ایک اہم ترین وجہ ہے اور بنیادی نوعیت کی غلطی بھی ہے جسے انتہائی احتیاط سے سمجھ کر ہی اس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔

اس سارے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے فیس بک پر حقیقی مارکسزم سے متعلق کئی مباحث کروائے، مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ جنھیں مرکزی مباحث اور جدوجہد کا حصہ ہونا چاہیے، انھیں کسی طریقے سے مارکسزم کے بنیادی نکات کی تفہیم ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ بعض ''مارکسیوں'' کی اذعانی اور قدامت پسندانہ 'مارکسی' تعبیروں سے نجات پائی جائے اور براہِ راست لوگوں کو مارکس، اینگلز، فیورباخ، ہیگل، لوکاش، گرامشی وغیرہ کی تحریروں سے آگاہ کیا جائے۔

فیورباخ پر مارکس کے تھیسس پر طویل مکالمہ منعقد کیا جن کی تفہیم میں امین مغل صاحب اور یوسف حسن صاحب جیسے پرانے مارکسسٹوں نے اپنا حصہ ڈالا۔ مارکسزم کے نقطہ نظر سے مابعد جدیدیت کے ان تمام پہلوؤں کی مخالفت کی جو پسے جبر و استحصال کا شکار عوام کو مرکزی دھارے میں آنے سے روکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کے عقائد کو چھیڑے بغیر ایک سوشلسٹ معاشرے کا قیام ممکن ہے! لوگوں کے عقائد کا احترام کسی بھی جدوجہد کے لیے ناگزیر ہے ، اور ان کے عقائد کو چیلنج کیے بغیر حقیقی معنوں میں مبنی بر انصاف و مساوات معاشرے کے قیام عمل میں آسکتا ہے۔

پاکستان میں کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو ظلم و بربریت پر مبنی سرمایہ دارانہ سماج کے خلاف نیک نیتی سے اپنا کام کررہی ہیں۔ جنھیں کسی کو نیچا دکھانے اور کسی کو اس کے قد سے اونچا ثابت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہی وہ ''انسان دوست'' نظریے کے نام پر انسان دشمنی پر کمربستہ ہیں۔ انسانی و اخلاقی اقدار کی بجائے جب شخصیات توجہ کا محور بن جائیں اور انھیں ہی منفی و مثبت طریقے سے نمایاں کرنے کا رجحان غالب رہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر غالب آگئے ہیں اور نظریے کے نام پر ہی نظریے کی نفی کا آغاز ہوچکا ہے۔


وسائل پر قابض سرمایہ داروں کا طریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ حقیقی جدوجہد پر گامزن تنظیموں کے متوازی ایسی تنظیموں کی تشکیل کرتے ہیں جو ان حقیقی جدوجہد میں مصروف تنظیموں کی جدوجہد کو بھی تشکیک سے دو چار کرتی ہیں۔ ایسی تنظیمیں یہی تاثر دیتی ہیں کہ وہ عام لوگوں کی خیر خواہ ہیں، ان کے حقوق کی محافظ ہیں، لوگوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت اور جبر و استحصال کے خلاف ہیں۔

بظاہر تو ان کا کردار طبقاتی ہی دکھائی دیتا ہے، جب کہ حقیقت میں ان کا اکلوتا مقصد حقیقی جدوجہد کو اپنے مخصوص ہتھکنڈوں سے سبوتاژ کرنا ہوتا ہے۔ ایسی تنظیمیں جدوجہد کا جو طریقہ کار متعین کرتی ہیں، اس سے کہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ان مقاصد کو حاصل کر پائیں گی جن کے حصول کا وہ دعویٰ کرتی ہیں۔

طبقاتی بنیادوں پر کام کرنے والی کوئی مارکسی تنظیم جونہی کچھ مضبوط ہوتی ہے اس کے اندر سے ہی بعض موقع پرست سرمایہ داروں کی ایما پر اس تنظیم میں پھوٹ ڈلوانے کا کام شروع کردیتے ہیں۔ ویسے تو یہ موقع پرست خود کو 'مارکسی' باور کراتے ہیں، لیکن ان کا مقصد مارکسزم کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔ یہ موقع پرست 'مارکسی' شناخت کے ساتھ سرمایہ داروں کے مقاصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کی تنظیموں میں کام کرنے والے چند خود ساختہ ''کامریڈز'' حقیقی کامریڈوں کی سچی جدوجہد کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کا مقصد حقیقی مارکسی یا غیر مارکسی تنظیموں کی آئیڈیالوجی کو علمی و فکری سطح پر چیلنج کرنا نہیں ہوتا، بلکہ جو ٹارگٹ انھیں دیا جاتاہے وہ ایک بالکل ہی الگ اور نئے طریقے سے اس پر عمل پیرا دکھائی دیتی ہیں۔ ایسی تنظیموں کی تخصیص یہ ہے کہ ان کا واحد مقصد لوگوں کو اس نظریے سے متنفر کرانا ہوتا ہے، جس کے پرچار کی یہ خود دعویدار ہیں۔ بظاہر تو یہ کام کافی مشکل لگتا ہے کہ انسان جس نظریے سے منسلک ہو، شعوری طور پر اس کو بدنام کرنے کا بیڑا بھی اٹھا لے۔ تاہم اگر مذہبی حوالے سے طالبان کے کردار کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے تو ایسی 'مارکسی' تنظیموں کی حقیقت کو بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔

اب عام لوگ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں کہ طالبان کا اسلام' حقیقی' اسلام نہیں ہے۔ ان کی اسلامی تشریحات نے مسلمانوں کے عالمی تشخص کو پامال کیا ہے۔ خود سے متضاد نظریات رکھنے والوں کو انتہائی اذیت سے دوچار کرنا، انھیں بے دردی سے قتل کرنا اور اس سارے عمل کی وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنے سے لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے نفرت کا پیدا ہونا یقینی بات ہے۔ اس سارے عمل کا فائدہ ایک طرف تو ان سرمایہ داروں کو ملتا ہے جنہوں نے ہر حال میں ایسے لوگوں کی موجودگی کو کسی ملک میں ایک حقیقت کے طور پر ثابت کرکے وہاں مداخلت کرنا ہوتی ہے، تو دوسری طرف اس کا براہ ِ راست ٹارگٹ مسلمانوں کو بنایا جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح بورژوازی 'مارکسیوں' کا ایسا ہی ایک موقع پرست گروہ تیار کرتی ہے اور اسے ایسا ہی طالبانی ہدف دے دیا جاتا ہے کہ جس سے لوگوں کے دلوں میں اس آئیڈیالوجی کے حوالے سے نفرت پیدا ہو جس کی یہ تنظیمیں خود مبلغ ہیں۔ آج کل اپنے ہی نظریے کے خلاف نفرت کو اجاگر کرنے کا سب سے موثر استعمال سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ ایسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہر دوسرے شخص سے نظریے کا نام پر جھگڑا کرتے ہیں۔

آغاز میں وہ ایک دوسرے کو ''کامریڈ ، کامریڈ'' کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ یقین آجائے کہ یہ ''مارکسی'' ہیں جب لوگوں کو یہ یقین ہوجائے کہ یہ ''مارکسی'' ہیں تو پھر وہ لوگوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ لوگ جن کو اکٹھا کیے بغیر 'انقلاب' کا تصور ممکن نہیں ہے، یہ 'مارکسی' انھی لوگوں سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ لوگ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نظریاتی تفریق میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ اس سارے عمل کا یہ نکل رہا ہے کہ لوگ ان 'مارکسیوں' اور بحیثیت مجموعی مارکسزم سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں مارکسزم کے حوالے سے نفرت پیدا کررہے ہیں۔ ایسے کرداروں کی شناخت کرنا اور ان کے حقیقی اہداف کو سمجھ کر انھیں مسترد کرنا ایک کامیاب جدوجہد کے لیے بہت ضروری ہے۔
Load Next Story