کاربن ڈائی آکسائیڈ سے حادثاتی طور پر ایتھانول تیار
تانبے اورکاربن کوبطورعمل انگیز پانی میں حل شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے آمیزے میں ڈالاگیا
KARACHI:
امریکی ریاست ٹینیسی میں سائنسدانوں نے حادثاتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ایتھانول میں تبدیل کرنے کا ایک شاندار طریقہ دریافت کر لیا ہے۔
اوک ریج نیشنل لیبارٹری کے محقققین نے مشاہدہ کیا کہ اگرسلیکان پر نینو اسپائیکسب بنانے کیلیے تانبے اور کاربن کو اکٹھے رکھاجائے اور اس مادے کو پانی میں حل شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے آمیزے میں ڈالا جائے اور اس سے بجلی گزاری جائے تو یہ محلول حیرت انگیز طور پر مرتکز ایتھانول کا آمیزہ بن جاتا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ جو کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے سنگین سبب ہے اسے اب ایتھانول میں تبدیل کرکے موٹر انجن میں جلنے والے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ اس گرین ہاؤس (ماحولیاتی آلودگی کاسبب بننے والی) گیس کوری سائیکل (دوبارہ سے استعمال)کرنے سے جہاں ایک طرف سستا ایندھن ملے سکے گا وہیں دوسری جانب عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی شرح کو بھی کم کیاجا سکے گا۔
اس تحقیق کرنے والی ٹیم کے ایک مصنف نے ریسرچ جرنل کو بھجوائے گئے اپنے پریس ریلیز میں بتایا ہے کہ ہم نے تقریباً حادثاتی طور پر یہ دریافت کیاکہ یہ چیزکام کر رہی ہے۔ ہم مجوزہ ردعمل کے پہلے مرحلے پر تحقیق کی کوشش کر رہے تھے جب ہم نے محسوس کیا کہ عمل انگیز (Catalyst)سارا عمل خود اپنے تئیں ہی کر رہا ہے۔
محققین نے اپنے پریس ریلیز میں بتایا ہے کہ ''عام میٹریل کو نینوٹیکنالوجی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ہم نے پایا کہ کیسے دیگر متوازی عمل (سائڈ ری ایکشن) کو محدود کیا جا سکتا ہے اور وہ چیز حاصل کی جاسکتی ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے ایندھن بنانے کے دیگر طریقوں کے برعکس اس طریقے میں عام دھاتیں تانبا اور کاربن استعمال ہوتے ہیں جبکہ جو حتمی چیز تیار ہوتی ہے وہ ایتھانول ہے اور یہ پہلے ہی ایندھن کے طور پر مختلف قسم کے انجنوں میں استعمال ہوتا ہے''۔
فی الوقت یہ ریسرچ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے تاہم سائنسدانوں نے ایک بڑا سستا اور فعال طریقہ دریافت کر لیا ہے جس سے بڑے پیمانے پرقابل عمل بنایاجاسکتاا ہے۔ ایتھانول پہلے مکئی کی چھلیوں سے ، مائیکرویو سے بھی حاصل کیا گیا تھا اور اب اس نئے خوشگوار حادثے سے یہ یقینی بن سکتا ہے کہ جس زمین پر ہم رہتے ہیں ہم اسے مزید تباہ نہیں کریں گے۔
امریکی ریاست ٹینیسی میں سائنسدانوں نے حادثاتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ایتھانول میں تبدیل کرنے کا ایک شاندار طریقہ دریافت کر لیا ہے۔
اوک ریج نیشنل لیبارٹری کے محقققین نے مشاہدہ کیا کہ اگرسلیکان پر نینو اسپائیکسب بنانے کیلیے تانبے اور کاربن کو اکٹھے رکھاجائے اور اس مادے کو پانی میں حل شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے آمیزے میں ڈالا جائے اور اس سے بجلی گزاری جائے تو یہ محلول حیرت انگیز طور پر مرتکز ایتھانول کا آمیزہ بن جاتا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ جو کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے سنگین سبب ہے اسے اب ایتھانول میں تبدیل کرکے موٹر انجن میں جلنے والے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ اس گرین ہاؤس (ماحولیاتی آلودگی کاسبب بننے والی) گیس کوری سائیکل (دوبارہ سے استعمال)کرنے سے جہاں ایک طرف سستا ایندھن ملے سکے گا وہیں دوسری جانب عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی شرح کو بھی کم کیاجا سکے گا۔
اس تحقیق کرنے والی ٹیم کے ایک مصنف نے ریسرچ جرنل کو بھجوائے گئے اپنے پریس ریلیز میں بتایا ہے کہ ہم نے تقریباً حادثاتی طور پر یہ دریافت کیاکہ یہ چیزکام کر رہی ہے۔ ہم مجوزہ ردعمل کے پہلے مرحلے پر تحقیق کی کوشش کر رہے تھے جب ہم نے محسوس کیا کہ عمل انگیز (Catalyst)سارا عمل خود اپنے تئیں ہی کر رہا ہے۔
محققین نے اپنے پریس ریلیز میں بتایا ہے کہ ''عام میٹریل کو نینوٹیکنالوجی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ہم نے پایا کہ کیسے دیگر متوازی عمل (سائڈ ری ایکشن) کو محدود کیا جا سکتا ہے اور وہ چیز حاصل کی جاسکتی ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے ایندھن بنانے کے دیگر طریقوں کے برعکس اس طریقے میں عام دھاتیں تانبا اور کاربن استعمال ہوتے ہیں جبکہ جو حتمی چیز تیار ہوتی ہے وہ ایتھانول ہے اور یہ پہلے ہی ایندھن کے طور پر مختلف قسم کے انجنوں میں استعمال ہوتا ہے''۔
فی الوقت یہ ریسرچ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے تاہم سائنسدانوں نے ایک بڑا سستا اور فعال طریقہ دریافت کر لیا ہے جس سے بڑے پیمانے پرقابل عمل بنایاجاسکتاا ہے۔ ایتھانول پہلے مکئی کی چھلیوں سے ، مائیکرویو سے بھی حاصل کیا گیا تھا اور اب اس نئے خوشگوار حادثے سے یہ یقینی بن سکتا ہے کہ جس زمین پر ہم رہتے ہیں ہم اسے مزید تباہ نہیں کریں گے۔