پوچھتے وہ ہیں کہ ’’عظمت‘‘ کون ہے

نہ زندگی میں کوئی تمغہ ملا اورنہ مرنےکےبعد کسی نےانکامزاربنایا،شاید ایسا اسلئےکہ عظیم ہستیوں کے مزارتودلوں میں ہوتےہیں

عظمت صاحب سائنسی صحافت کے ساتھ ساتھ عوامی سائنسی ابلاغ کو جتنی وسعت اور گہرائی سے جانتے تھے، اپنے اُنتیس سالہ صحافتی کیریئر میں مجھے ایسا کوئی دوسرا نہیں مل پایا۔

پاکستان میں سائنسی صحافت کے بانی، جناب عظمت علی خان کا مختصر سوانحی خاکہ (5 جون 1931ء تا 22 اَکتوبر 2012ء)

آج کل بہت سے نوآموز اور اناڑی قسم کے مضمون نگار جب سائنسی صحافت کے بارے میں لکھنا شروع کرتے ہیں تو اکثر وہ ماضی میں اس حوالے سے کی گئی سنجیدہ کوششوں اور اپنے بزرگوں کی خدمات، دونوں کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ جب بھی کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان میں سائنسی صحافت کا کوئی وجود نہیں، تو جی چاہتا ہے کہ اس کے سامنے پاکستانی سائنسی صحافت کی وہ تاریخ پیش کروں جس کی ابتداء قیامِ پاکستان سے بہت پہلے ہوچکی تھی۔ اُس وقت جب اُردو زبان کے سب سے پہلے باقاعدہ سائنسی جریدے سہ ماہی ''سائنس'' نے اورنگ آباد (موجودہ ہندوستان) سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا تھا۔

علاوہ ازیں، بہت کم لوگ اُس غیر معروف لیکن صحیح معنوں میں عظیم ہستی سے واقف ہیں جس نے پہلی بار سائنسی صحافت کو عالمی معیارات کے مطابق سمجھا، سیکھا اور پاکستان میں سائنسی ابلاغ اور فروغ کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ وہ ہستی، وہ شخصیت جسے آج ہم غیر متنازعہ طور پر''بانی سائنسی صحافت پاکستان'' کا لقب دے سکتے ہیں، استادِ محترم جناب عظمت علی خاں ہیں۔

اور کسی کا تو مجھے علم نہیں لیکن آج ''سائنسی صحافی'' کی حیثیت سے میری شناخت ہر اعتبار سے استادِ محترم جناب عظمت علی خاں ہی کی مرہونِ احسان ہے۔ کراچی ہو یا اسلام آباد، اٹلی ہو یا آسٹریلیا، دہلی ہو یا دوہا، ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں مجھے مقامی اور بین الاقوامی سائنسی صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا موقعہ نہ ملا ہو، اور میں نے خود کو صرف عظمت صاحب کا شاگرد ہونے کی ہی وجہ سے اس قابل محسوس نہ کیا ہو۔

جی ہاں! میں عظمت صاحب کا شاگرد تھا، شاگرد ہوں، اور اپنے مرتے دم تک عظمت صاحب کا شاگرد ہی رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)۔

پوچھتے وہ ہیں کہ ''عظمت'' کون ہے؟

اب آپ پوچھیں گے کہ کون عظمت علی خاں؟ تو جناب! یہ تحریر میں اسی لئے قلم بند کررہا ہوں تاکہ نئی نسل کو اسمِ بامسمّٰی، جناب عظمت علی خاں کی عظمت سے روشناس کروایا جائے۔ یہ تذکرہ اس شخصیت کا ہے جس نے جوانی سے لے کر وقتِ وفات تک، اپنی زندگی کے 60 سال ایک اہم قومی مشن کے لئے صرف کردیئے، لیکن صلے کی تمنا اور ستائش کی پروا سے بے نیاز ہوکر۔

جناب عظمت علی خاں 5 جون 1931ء کو رامپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ذوالفقار اسکول (رامپور) اور اعلیٰ ثانوی تعلیم رضا انٹر کالج (رامپور) سے حاصل کی۔ 1950ء میں گریجویشن کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں سے 1954ء میں بی ایس سی (آنرز) کی سند حاصل کی اور ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پاکستان آکر عظمت صاحب نے اردو سائنس کالج کے تدریسی عملے میں شمولیت اختیار کی۔ اُن دنوں اعلیٰ ثانوی سطح پر پہلی بار ارضیات کا مضمون متعارف کروایا گیا۔ علی گڑھ سے بی ایس سی (آنرز) میں عظمت صاحب کا ایک مضمون ارضیات (جیالوجی) بھی تھا، لہٰذا انہوں نے ارضیات کی تدریس کیلئے اپنی خدمات پیش کردیں اور پورے پاکستان میں ارضیات کا مضمون پہلی بار اردو زبان میں پڑھانے والے استاد بھی بن گئے۔

اُن دنوں اردو سائنس کالج اور جامعہ کراچی، دونوں آمنے سامنے اُس جگہ ہوا کرتے تھے جہاں آج اردو یونیورسٹی کا ''عبدالحق کیمپس'' موجود ہے۔ عظمت صاحب نے جامعہ کراچی اور اردو سائنس کالج میں قربت کا خوب فائدہ اٹھایا اور 1950ء کا عشرہ اختتام پذیر ہونے تک جامعہ کراچی سے شعبہ کیمیا میں دو مرتبہ ایم ایس سی کی سند بھی حاصل کرلی۔

1956ء میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے ایک سابق رفیق کار، میجرآفتاب حسن مرحوم نے اپنے کچھ دیگر احباب کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا کہ انیسویں صدی میں سرسید احمد خان کی قائم کردہ ''سائنس سوسائٹی'' کی طرز پر پاکستان میں بھی ''سائنٹفک سوسائٹی'' قائم کی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا کہ سائنس کو عوام تک پہنچانے کیلئے ایک نئے دو ماہی جریدے ''جدید سائنس'' کا اجراء کیا جائے۔

عظمت صاحب کو سائنٹفک سوسائٹی کے ایک نوجوان رکن کی حیثیت سے''جدید سائنس'' کے مدیران میں شامل کرلیا گیا۔ بعد ازاں جب سائنٹفک سوسائٹی نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کیا اور قومی سطح پر سالانہ سائنس کانفرنسیں منعقد کرنا شروع کیں تو ان کے انتظام و انصرام کی بعض بھاری ذمہ داریاں بھی عظمت صاحب ہی کے کاندھوں پر بار کی گئیں۔

سائنٹفک سوسائٹی کے قیام سے لے کر 1993ء میں اس سوسائٹی کے عملاً ''مرحوم و مغفور'' ہوجانے تک، کُل 27 سالانہ قومی سائنس کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ اردو میں پیش کئے گئے سائنسی تحقیقی مقالہ جات، ان کانفرنسوں کا خاصّہ بلکہ طرۂ امتیاز ہوا کرتے تھے۔ اپنے اس اہتمام اور حسنِ انتظام کی بناء پر یہ کانفرنسیں آج بھی ملک بھر میں اہم ترین سائنسی تقریبات کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ تاہم بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ان کانفرنسوں میں سائنس داں حضرات و خواتین جو تحقیقی مقالے اردو میں پڑھا کرتے تھے، ان کی اکثریت انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ ہوتی تھی۔ اِن سائنسی مقالہ جات کا ترجمہ، معیار بندی اور اندازِ پیشکش، غرض ہر مرحلے پر عظمت صاحب اپنی بھرپور توانائی اور توجہ کے ساتھ شریک رہتے تھے۔ سالانہ سائنس کانفرنسوں کی دیگر انتظامی ذمہ داریاں اس کے علاوہ تھیں۔

اسی طرح 1956ء میں پہلی بار جب ''قومی سائنسی میلہ'' منعقد کیا گیا تو اس موقع پر بھی عظمت صاحب انتظامات میں پیش پیش تھے۔ پاکستان میں سائنسی نمائشوں اور میلوں کی بنیاد اسی میلے سے رکھی گئی تھی۔

انہی برسوں میں جب پاکستانی سائنس دانوں اور سائنسی پیشہ وران کی انجمن (PASSP) قائم ہوئی تو عظمت صاحب اس کے ابتدائی ارکان میں شامل تھے۔ پی اے ایس ایس پی کے پلیٹ فارم سے بھی عظمت صاحب نے کئی کانفرنسوں، ورکشاپوں اور سیمیناروں وغیرہ کے انعقاد میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ (عظمت صاحب اپنی زندگی کے آخری دنوں تک اس ادارے سے وابستہ رہے، جبکہ پی اے ایس ایس پی ٹرسٹ کے امور کی دیکھ ریکھ بھی انہی کے سپرد رہی۔)

بعد ازاں 1964ء میں، جب پاکستان کونسل فارسائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) نے ایک عمومی سائنسی جریدہ ''کاروان سائنس'' کے نام سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس وقت کے چیئرمین پی سی ایس آئی آر، ڈاکٹرسلیم الزماں صدیقی مرحوم کی مردم شناس نگاہ نے بھی عظمت صاحب ہی کا انتخاب کیا۔ یوں عظمت صاحب کے زیرِ ادارت، جون 1964ء میں سہ ماہی کاروانِ سائنس، پی سی ایس آئی آر کے ذیلی ادارے ''سائنٹفک انفارمیشن سینٹر'' (ایس آئی سی) سے شائع ہونا شروع ہوا لیکن 1974ء میں حکومت پاکستان کے ایک سیکریٹری صاحب نے کاروان سائنس کو وقت اور ''قومی دولت کا زیاں'' قرار دے کر بند کرنے کا حکم جاری کیا، یوں پاکستان میں سائنسی صحافت کا ایک بے مثل چراغ ہمیشہ کیلئے بجھ گیا۔

کاروانِ سائنس کے بعد عظمت صاحب کی خدمات ''پی جے ایس آئی آر'' (پاکستان جرنل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ) کو بطور مدیر منتقل کردی گئیں۔ یہ پی سی ایس آئی آر کا تحقیقی مجلہ ہے جو انگریزی میں ہے۔ تحقیقی مجلے اور عمومی سائنسی جریدے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، مگر عظمت صاحب کی تخلیقی صلاحیتیں یہاں بھی کام آئیں۔ 1974ء سے 1991ء تک، سترہ سال عظمت صاحب نے پی جے ایس آئی آر کی ادارت سنبھالے رکھی اور اس عرصے میں مذکورہ مجلے کو وہ معیار عطا کیا جو بین الاقوامی سطح کے کسی بھی تحقیقی مجلے (پرائمری ریسرچ جرنل) کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ اس عرصے میں پی جے ایس آئی آر کی بروقت ماہانہ اشاعت بھی بطور خاص قابل ذکر ہے۔ افسوس کہ مئی 1991ء میں عظمت صاحب کی ریٹائرمنٹ سے لے کر آج تک یہ مجلہ دوبارہ اس معیار اور باقاعدگی کو نہیں پہنچ پایا جو اس سترہ سالہ عرصے میں مجلے کا طرۂ امتیاز بن چکے تھے۔

البتہ، اس پورے عرصے کے دوران عظمت صاحب نے خود کو کبھی محض پی جے ایس آئی آر تک محدود نہیں رکھا۔ 1974ء میں پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے پروگرام ''رفتار'' میں بھی عظمت صاحب کی مشاورت و رہنمائی شامل رہی۔ اس پروگرام میں پاکستانی تحقیقی اداروں کا تعارف اور وہاں جاری سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی دی جاتی تھی۔ ریڈیو پاکستان کے وہ درجنوں پروگرام اس کے علاوہ ہیں جو عظمت صاحب کی مشاورت و رہنمائی کے سبب جاری ہوئے، اور جنہیں بہت سراہا بھی گیا۔


مئی 1991ء میں، جب عظمت صاحب پی سی ایس آئی آر سے ریٹائر ہوئے، تو وہ ایس آئی سی میں ڈائریکٹر ہوچکے تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی یوں لگا جیسے عظمت صاحب اسی موقع کے منتظر تھے۔

سرکاری ملازمت سے آزادی ملتے ہی عظمت صاحب نے ''پی اے ایس ایس پی'' کے تحت اردو زبان کے ایک نئے سائنسی جریدے کا قصد باندھا۔ باہمی مشاورت سے اس دو ماہی سائنسی جریدے کا نام ''نوائے سائنس'' تجویز ہوا۔ لیکن اس تنظیم میں جاری اندرونی سازشوں نے ''نوائے سائنس'' کو کبھی بلند ہونے ہی نہیں دیا۔


بزمِ سائنسی ادب کا قیام


 

جن دنوں ''نوائے سائنس'' کا کام زوروں سے جاری تھا، ان ہی دنوں (9 جون 1992ء کے روز) ''پی اے ایس ایس پی سائنس سینٹر'' میں عظمت صاحب نے اپنے چند ہم خیال احباب کو جمع کیا اور''بزمِ سائنسی ادب'' کی بنیاد رکھ دی۔ ماشاءﷲ! آج یہ ''بزم'' بھی 24 سال پورے کرچکی ہے۔ بزمِ سائنسی ادب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سائنسی معلومات اور جدید سائنسی پیش رفت کو آسان، عام فہم، زود ہضم اور دلچسپ انداز میں (ادبی پیرایۂ بیان اختیار کرتے ہوئے) اس طرح بیان کیا جائے کہ ایک پڑھا لکھا شخص بھی انہیں بہ آسانی سمجھ سکے اور ان سے لطف اندوز بھی ہوسکے۔

''بزم'' کے پلیٹ فارم سے اب تک متعدد ماہرین اور محققین اپنی نثری و شعری ''سائنسی نگارشات'' پیش کرچکے ہیں۔ عمومی نشستوں کے علاوہ اردو زبان میں سائنسی مشاعروں (خاص کر طرحی سائنسی مشاعروں) کی بنیاد بھی بزم ہی نے ڈالی ہے، اور یہ سب کچھ عظمت صاحب ہی کی رہنمائی سے ممکن ہوسکا۔

1993ء سے 2007ء تک عظمت صاحب ''کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان'' کے طبی تحقیقی مجلے ''جے سی پی ایس پی'' سے بطور مدیر منتظم وابستہ رہے۔ پی جے ایس آئی آر کی طرح جے سی پی ایس پی کو بھی عظمت صاحب نے معیار کی ایسی بلندی پر پہنچادیا جہاں تک اس سے پہلے پاکستان کا کوئی طبّی تحقیقی جریدہ (میڈیکل ریسرچ جرنل) پہنچ نہیں پایا تھا۔

عمر کے ساتھ ساتھ عظمت صاحب کی صحت بھی جواب دیتی جارہی تھی۔ وہ کئی ایک امراض سے بیک وقت لڑرہے تھے۔ لیکن اپنی بیماری پر کبھی دو منٹ سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ نت نئے منصوبوں اور نئے ارادوں کا تذکرہ شروع کرکے گویا اپنی بیماری بھول جایا کرتے تھے۔ اکتوبر 2009ء میں اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد سے عظمت صاحب کی صحت اور بھی تیزی سے خراب ہونے لگی۔ اس کے باوجود وہ پورا دن جامعات اور کالجوں میں جاکر بزمِ سائنسی ادب کی ''تبلیغ'' کرنے کے بعد، شام سے لے کر رات گئے تک بزمِ سائنسی ادب کے دفتر میں موجود رہتے، اور مختلف اُمور کی انجام دہی میں مصروف رہا کرتے۔

تمام مشکلات اور مسائل کے باوصف، عظمت صاحب اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ''بزمِ سائنسی شعر و سخن'' کا پودا لگانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ پچاس سے زائد شعراء کی چار سو سے زائد سائنسی نظموں پر مبنی ''شعریاتِ بزم'' بھی انہوں نے اسی بیماری کے عالم میں مرتب اور شائع کروائی، جو اُن کی زندگی کا آخری مکمل کام بھی ثابت ہوئی۔


سائنسی صحافت کے لئے کوششیں


 

پاکستان میں سائنسی صحافت کی ادارہ سازی (انسٹی ٹیوشنلائزیشن) کے لئے عظمت صاحب نے پاکستانی جامعات میں ایم اے ابلاغِ عامّہ (ایم اے ماس کمیونی کیشن) کی سطح پر متعارف کروانے کیلئے سائنسی صحافت کا نصاب بھی مرتب کیا، اور کئی بار مختلف جامعات میں منظوری کیلئے جمع بھی کروایا، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل پایا۔ عظمت صاحب کی ان کوششوں کے آخری بیس برسوں کا عینی شاہد راقم خود ہے؛ اور اس بات پر گواہ بھی ہے کہ جامعہ کراچی اور نام نہاد ''اردو یونیورسٹی'' کے ذمہ داران نے کس طرح تاخیری ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے سائنسی صحافت کو نصاب کا حصہ بننے سے روکے رکھا۔ حیرت انگیز طور پر جب 2007ء میں ''ورلڈ فیڈریشن آف سائنس جرنلسٹس'' نے اپنا سائنسی صحافتی کورس تجرباتی طور پر متعارف کروایا تو اس کے بنیادی خد و خال بھی تقریباً وہی تھے جو عظمت صاحب کے مرتب کردہ نصاب کے تھے۔

عظمت صاحب بڑی شدت سے یہ چاہتے تھے کہ سائنس کے عوامی ابلاغ میں نوجوان نسل کو لازماً شریک کیا جائے۔ اپنے انتقال سے صرف چار دن پہلے، 18 اکتوبر 2012ء کے روز ''بزمِ سائنسی ادب'' کے ایک خصوصی مشاورتی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کئی بار بہ آوازِ بلند کہا: ''میں چاہتا ہوں کہ بزمِ سائنسی ادب کو ریٹائرڈ لوگوں کا کلب نہ بنایا جائے بلکہ اس میں نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد شامل کی جائے۔''

اس گفتگو کے چوتھے دن، 22 اکتوبر 2012ء کے روز، عظمت صاحب نے پیامِ اجل کو لبیک کہا۔ اِناللہ واِنّا اِلیہِ راجِعُون۔

عظمت صاحب نہ صرف سائنسی صحافت بلکہ عوامی سائنسی ابلاغ (پبلک کمیونی کیشن آف سائنس) کو جتنی وسعت اور گہرائی سے جانتے تھے، اپنے اُنتیس سالہ صحافتی کیریئر میں مجھے ایسا کوئی دوسرا نہیں مل پایا۔ وہ صحیح معنوں میں پاکستان کے بابائے سائنسی صحافت تھے۔ جیتے جی انہیں کوئی تمغہ، کوئی اعزاز نہیں ملا۔ مرنے کے بعد بھی کسی نے اُن کا مزار نہیں بنایا۔ لیکن ایسی عظیم ہستیوں کے مزار تو دلوں میں ہوتے ہیں، عقیدت و احترام کے مزار:

بعد از وفات تُربَتِ ما، دَر زمیں مجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف، مزارِ ماست

(میرے مرنے کے بعد میری قبر، زمین پر نہ ڈھونڈنا
کیونکہ میرا مزار تو میرے عقیدت مندوں کے سینوں میں ہے)؎

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصرمگرجامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story