ایک نئی سیاسی سرگرمی
ہمارا ایک عام سا گاؤں تھا اور ہے جس کی گلیاں اور راستے دھیان سے چلنے کی نصیحت کرتے ہیں
ISLAMABAD:
میں چند دن گاؤں میں گھوم کر آیا ہوں یعنی تازہ دم ہو کر وہاں کے گلی کوچوں کو بار بار دیکھا کہ ان میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں لیکن ایک تبدیلی صاف ظاہر تھی اور وہ تھی گلیوں کی فرش بندی۔ وہ گلیاں جن پر چلتے ہوئے پاؤں کو بار دیکھنا پڑتا تھا کہ ان پر کتنی خاک چڑھی ہے اور اسے دھونے کے لیے اب کتنا پانی چاہیے۔ لوگ مسجد میں چلے جاتے وضو بھی کرتے اور ساتھ ہی پاؤں بھی دھو لیتے۔
ہمارا ایک عام سا گاؤں تھا اور ہے جس کی گلیاں اور راستے دھیان سے چلنے کی نصیحت کرتے ہیں کہ اگر دھیان سے نہ چلیں تو گلیوں میں بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ آپ کے پاؤں سے چپک جاتا ہے اور اسے دھونے کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ یہ ایک پتھریلی زمین کا گاؤں ہے جس میں خود بخود رہا نہیں جاتا رہنا پڑتا ہے اور اس رہنے کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے اور دیہی زندگی کے ''آداب اور تکلفات'' کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایک گلی جو بالکل صاف تھی معلوم ہوا کہ گزشتہ بارش نے اپنے رنگ چھوڑے ہیں اور اب اس گلی کو بحال کرنے کے لیے کچھ کوشش لازم ہے اور یہ کوشش گاؤں کے وہ سیاستدان بھی کرتے ہیں جو کبھی اپنے لیے اور کبھی اپنی جماعت کے لیے ووٹ مانگتے ہیں۔ دیہی زندگی میں صرف ووٹ ایک ایسی چیز ہے جس کے مانگنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی جھجھک نہیں ہوتی نہ ملے تو بے عزتی بھی نہیں ہوتی۔
ہماری سیاسی زندگی گاؤں کی ہو یا کسی شہر کی اس میں گھر گھر بکھرا ہوا ووٹ مانگا جا سکتا ہے اور اس کے انکار پر ناراضگی نہیں ہوتی کہ یہ کسی فرد کا نہیں کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہ ہو اور ملکیت ہو اور کوئی بھی سیاسی جماعت کسی فرد کی نہیں سب کی ہوتی ہے۔
سبھی اس کے مالک ہوتے ہیں اور یہی عام ملکیت سیاست کی عزت رکھتی ہے ورنہ کسی سے کچھ مانگنا سب پہلے عزت کو لے ڈوبتا ہے خصوصاً دیہی زندگی میں جہاں مانگنا بہر حال ایک عیب ہوتا ہے لیکن آپ نے کبھی غور کیا کہ ایک ووٹ ایسی چیز ہے جس کو مانگنا اور بار بار مانگنا کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اکثر اوقات یہ ووٹ جو کچھ کرتا ہے وہ سب کا ہوتا ہے اور اس میں ہر ایک کی عزت ہوتی ہے۔
ووٹ کسی فرد کی ذات کے لیے نہیں مانگا جاتا یہ سوسائٹی اور معاشرے کے لیے مانگا جاتا ہے جس میں سب کی بھلائی ہوتی ہے اور انتخابی حلقہ کا ہر فرد اس اجتماعی بھلائی کا احساس رکھتا ہے۔ یہی اجتماعی احساس کسی معاشرے کو زندہ سلامت رکھتا ہے اور جو کام بھی اس اجتماعی نظام کے تحت ہوتا ہے وہ سب کا ہوتا ہے سب کی عزت اور سب کی بھلائی کوئی ایک فرد اس کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرتا۔ میں چونکہ گاؤں سے ابھی ابھی لوٹا ہوں اسی لیے گاؤں کی سیاست کا تذکرہ کر رہا ہوں۔
درست کہ گاؤں کی سیاست شہروں کی طرح عام نہیں ہوتی لیکن اب یہ شعور پیدا ہو گیا ہے کہ زیادہ تر گاؤں کی سطح تک بھی بھی کوئی اجتماعی کام کسی فرد سے نہیں ہو سکتا اس کے لیے مل جل کر محنت کرنی ہے اور جب یہی مل جل کر کوئی کام کرنے کا موقع آتا ہے تو فوراً ہی سیاست بھی سامنے آجاتی ہے اور سیاست سے وابستہ دیہی لوگ آگے بڑھ کر اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ایسی کسی بھی اجتماعی کوشش سے یہ کام جلد از جلد ہو جاتا ہے اور جس شخص کا اس میں جتنا زیادہ حصہ ہوگا اس حلقے میں گویا اس کے ووٹ بھی زیادہ ہوں گے۔
اب تو یہ کام ووٹوں کی مدد سے ہوتا ہے اور یہ ووٹ جب مل بیٹھتے ہیں تو سیاستدان بھی بیدار ہو جاتے ہیں کیونکہ انھیں کل یہی ووٹ مانگنے ہوتے ہیں اور انھیں پر ان کا سیاسی روز گار چلتا ہے۔ ان دنوں لاہور میں راستوں کے کھلنے اور بند ہونے کی سیاست چل رہی ہے لیکن شہری سیاست کچھ وقت لیتی ہے اب جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب کسی شاہراہ عام کو بند کیا جائے گا اور کسی کو کھلا چھوڑا جائے گا بس یہی بندش ہماری آنے والی سیاست کا مرکز بن رہی ہے اور ہماری سیاست اس کے گرد گھومے گی۔
سیاستدانوں نے ابھی تو اخباری مہم شروع کی ہے لیکن جلد ہی وہ گلی کوچوں میں مورچے لگائیں گے اور عوام کو ان میں کھینچ لانے کی کوشش کریں گے۔ بہرکیف یہی سیاست ہے جس پر بہت سوں کا روز گار چلتا ہے جن کی جیبوں میں نوٹ ہیں اور پاؤں تلے گاڑی ہے وہ آہستہ آہستہ باہر نکل رہے ہیں اور زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ یہ سب آپ کے گلی کوچے میں سرگرداں ہوں گے۔ آپ کی حمایت طلب کرتے ہوئے' اب یہ نئی رونق جلد ہی آنے والی ہے۔ اس نئی سیاسی سرگرمی بلکہ سرگرانی کے لیے تیار رہیں۔