یہاں انسان برابر نہیں ہیں
ارم رمضان صرف دس برس کی معصوم بچی تھی
ارم رمضان صرف دس برس کی معصوم بچی تھی۔ غربت کی بدولت جہالت اور جہالت کی بدولت غربت کے گورکھ دھندے میں جکڑی ہوئی عام سی بچی۔ تعلق اوکاڑہ سے تھا۔ اسکول کیا ہے، تعلیم کیا ہوتی ہے، اس کے لیے خواب تھا۔ والد مزدوری کرتا تھا۔ ماں اوکاڑہ میں گھروں میں کام کرتی تھی۔گھر میں فاقے تھے۔ ارم کی والدہ زبیدہ کو اپنی بدقسمتی کا تو احساس تھا ہی، مگر پھر بھی رات کو سوتے ہوئے اولاد کے لیے اچھے وقت کے خواب دیکھتی تھی۔
اوکاڑہ کا ہی ایک خاندان لاہور منتقل ہو گیا تھا۔ سب سے مہنگے علاقے ڈیفنس میں قیام پذیرہوا۔ خاندان کی مالکہ کو گھریلو ملازم کی ضرورت تھی۔ بدقسمتی سے یہ قرعہ فال ارم کے نام نکلا۔ دس برس کی بچی والدین کی مفلسی کی بدولت لاہور میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے لگی۔ تنخواہ محض پچیس سو روپے مہینہ مقرر کی گئی۔ سلسلہ پانچ چھ ماہ چلتا رہا۔ مالکہ کے تیس ہزار روپے گم ہو گئے۔ چوری ہوئے یا گم گئے مگر اہم بات یہ تھی کہ مالکہ کا شک ملازمہ پر گیا۔
مالکہ کا نام نہیں لکھنا چاہتا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ عرض کر سکوں کہ غلام یا کنیز بنانے کا زمانہ قطعاً ختم نہیں ہوا۔ مالکہ نے ارم کو کھانا دینا بند کر دیا۔ دس سالہ بچی دو دن بھوکی رہی۔ بچی نڈھال ہوئی تو اصل سزا شروع ہوئی۔ مالکہ نے لوہے کی سلاخ سے پیٹنا شروع کر دیا۔ مالکہ بار بار پوچھتی تھی کہ تیس ہزار تم نے کہاں چھپا رکھے ہیں۔ الزام کا جواب نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ پیسے اس معصوم نے نہیں چرائے تھے۔ ارم پر اس درجہ تشدد کیا گیا کہ سانس اکھڑنے لگا۔ مالکہ کو شک پڑا کہ کہیں وہ مر نہ جائے۔
گھر کے دوسرے نوکروں کو حکم دیا کہ رکشہ میں ڈال کر سرکاری اسپتال لے جاؤ۔ چنانچہ ارم کو ایک رکشہ میں ڈال کر لاہور کے سروسز اسپتال لے جایا گیا۔ ارم اسپتال آتے آتے دم توڑ گئی۔ طبی ملاحظہ ہوا تو پتہ چلا کہ پورے جسم پر بدترین تشدد کے نشانات ہیں۔ پرچہ ہوا اور مالکہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ بیگم صاحبہ تھوڑے ہی دنوں میں سرکاری مہمان خانے سے واپس آ گئی۔ کیس کا کیا ہوا، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ ارم کے خاندان کی حیثیت ہی نہیں تھی کہ پولیس اور تھانہ کے اخراجات برداشت کر سکیں۔ انھوں نے چند ہزار روپے لے کر معاملہ کو ختم کر دیا۔ صلح نامہ پر دستخط ہو گئے۔
عدالت نے انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے اور بیگم صاحبہ باعزت بری ہو گئیں۔ مگر عدالت یہ دیکھنے سے قاصر رہی کہ بے گناہ بچی کے جسم نہیں بلکہ روح پر تشدد کے کتنے نشان تھے۔ ہمارے نظام انصاف کا حقیقی انصاف سے کیا تعلق۔ خیر ارم کا معاملہ ختم ہوا۔ آج وہ منوں مٹی کے نیچے سو رہی ہے۔ اس کی خاموشی میں کئی سوالات ہیں۔ مگر ہمارا تعلق ان سوالات سے کیا ہے؟ ہمارا تو پورا نظام مکمل طور پر صاف، شفاف اور بہترین ہے!
لاہور ہی میں نامور قانون دان کے گھر ایک لڑکی کام کرتی تھی۔ نام شازیہ مسیح تھا۔ معمولی سے گھریلو تنازع پر لڑکی پر بلا کا تشدد کیا گیا۔ عمر پندرہ برس تھی۔ اس لڑکی کو قتل کر دیا گیا۔ ریسکیو کو فون کیا گیا کہ ملازمہ نے دوپٹہ گلے میں ڈال کر خودکشی کر لی ہے۔
لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو معلوم ہوا کہ قتل کیا گیا ہے اور زیادتی کے ثبوت بھی سامنے آ گئے۔ معمول کی کاروائی۔ چند دن کا شور و غوغا۔ تھوڑے دنوں میں معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ غریب بچی کے والدین کو شاید دو تین لاکھ روپے ادا کر دیے گئے۔ غربت میں پسے ہوئے لوگوں کے لیے یہ رقم بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کے بعد آج تک کسی نے اس کیس کی بازگشت نہیں سنی۔
شان علی کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ اس ملک کے نظام میں صرف ایک عنصر اہم ہے۔آپ مالی اعتبار سے کتنے مستحکم ہیں۔ اگر امیر ہیں یا کھاتے پیتے ہیں تو یہ ملک آپ کے لیے امریکا سے بھی اعلیٰ ہے۔ اگر محروم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں تو ملک ایک عذاب گاہ ہے۔ شان علی بھی اسی عذاب گاہ میں سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسلام آباد میں ایک متمول گھر میں کام کرنے کی نوکری ملی تھی۔ اصل کام یہ تھا کہ گھر کی مالکہ عطیہ کا ایک دس ماہ کا بچہ تھا۔ شان علی دراصل اس معصوم بچے کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
بیگم صاحبہ کو دن میں سخت نیند آ رہی تھی۔ وہ کمرے میں آرام کرنے چلی گئیں۔ نومولود بچہ شان علی کے حوالے کر دیا گیا۔ دو تین گھنٹے کے بعد مالکہ اٹھیں اور بچہ دیکھا تو وہ رو رہا تھا۔ شان علی اسے چھوڑ کر کچن تک گیا تھا تا کہ بوتل میں دودھ ڈال لے۔ مالکہ نے لختِ جگر کو روتے دیکھا تو غصے سے دیوانی ہو گئی۔ شان علی کو بلا کر پیٹنا شروع کر دیا۔ شور کی آواز سن کر عطیہ کاخاوند بھی آ گیا۔ اس نے بھی شان علی کو مارنا شروع کر دیا۔ عطیہ نے دوپٹا شان علی کے گلے میں ڈالا اور بچے کا سانس روکنا شروع کر دیا۔
گیارہ سال کا بچہ اپنا دفاع کیا خاک کر سکتا ہے۔ دو چار منٹ میں ملازم دم گھٹنے سے مر گیا۔ خیر اسلا م آباد کا واقعہ تھا، عطیہ اور اس کے خاوند نے واویلہ مچانا شروع کر دیا کہ نوکر نے خودکشی کر لی ہے۔ معاملہ پولیس تک پہنچا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ شان علی کو گلا گھوٹنے سے قتل کیا گیا ہے۔ خیر عطیہ اور اس کے خاوند کے خلاف قتل کا پرچہ درج ہو گیا۔ شان علی کا بھائی رمضان اسلام آباد میں ہی ایک دفتر میں سیکیورٹی گارڈ تھا۔ چند ماہ کیس کی پیروی کرتا رہا مگر مالی وسائل اور چھٹی نہ ملنے کے سبب پیروی کرنا چھوڑ دی۔ کیس کا کیا ہوا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
شہر کے کسی مہنگے ریسٹورنٹ میں چلے جائیے۔ متعدد بار نظر آئیگا کہ ایک متمول خاندان اور بچے کھانا کھانے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اکثر اوقات ملازم یا ملازمہ کو نزدیک ہی کسی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ ان ملازموں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا جاتا۔
وہ انتہائی صبر سے مالکان کو گلچھرے اُڑاتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔ کئی بار تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ نزدیک ہی کرسی پر بٹھا کر کہا جاتا ہے کہ اپنا رخ دوسری طرف کر لیں تا کہ نظر نہ پڑے۔ یعنی ملازم دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھا ہوتا ہے اور پورا خاندان انتہائی بے فکری سے طعام میں مشغول ہوتا ہے۔یہ کسی ایک شہر کا مخصوص رویہ نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہر اور قصبے کی روزمرہ کی کہانی ہے۔یہ ترش اور غیر انسانی رویہ ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔ کوئی بھی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔
کسی گھر میں چلے جائیے۔ ایک سیکنڈ میں پتہ چل جائیگا کہ گھریلو ملازموں کے برتن بالکل الگ ہوتے ہیں۔ پلاسٹک یا معمولی سے برتن ان کے استعمال کے لیے مختص ہوتے ہیں۔ آج تک ایک ایسا گھر نہیں دیکھا جہاں مالک اور ملازم ایک جیسے برتنوں میں کھانا کھاتے ہوں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ایک زمانے میں روایت تھی کہ مالکان ملازموں کو اپنے ساتھ زمین پر بٹھا کر کھانا کھانے کی اجازت دیتے تھے۔
قبائلی نظام میں ہزار نقص ہو سکتے ہیں، مگر اس کی بہت سی اچھائیاں بھی ہیں۔ اس میں ایک سماجی اچھائی یہ ہے کہ ملازم کے ساتھ زیادتی اور ظلم روا نہیں رکھا جا سکتا۔ اس اہم سچائی کو دیکھنے کا موقعہ مجھے لورالائی میں بارہا نظر آیا۔ شروع شروع میں عجیب سا لگتا تھا کیونکہ پنجاب میں یہ رویہ بالکل موجود نہیں ہے کہ گھر کے مالک میزبان، مہمان اور ملازم اکھٹے کھانا کھائیں۔
آئی ایل او (I.L.O) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ کے لگ بھگ کمسن بچے اور بچیاں جبری ملازمتیں کرتے ہیں۔ گھریلو ملازموں سے لے کر مارکیٹوں تک میں کام کرتے ہیں۔ مزدوری سے لے کر قالین بافی تک کے مشکل کاموں میں جھونک دیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے سروے کے مطابق ہمارے ملک میں ان کمسن بچوں اور بچیوں کو غلاموں کی طرح رکھا جاتا ہے۔
کہنے کو تو ہمارا معاشرہ اسلامی ہے۔ مذہبی رسومات پر بھی بہت زور ہے۔ مگر جہاں انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو ہمارا رویہ کرخت اور جاہلانہ ہو جاتا ہے۔ عملی طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے کہ کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ غریب گھرانوں کے بچے جو صرف اور صرف غربت کی وجہ سے ادنیٰ ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں، ہماری ہی طرح کے انسان ہیں۔ ان ملازم بچوں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مالکان کے بچوں کے ہیں۔ ان کی رگوں میں بھی وہی سرخ رنگ کا خون ہے۔ مگر نہیں، ہم ان غریب بچوں کو برابری کی سطح پر انسان تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔
آج تک ہم نے اپنی کسی معاشرتی یا سماجی کمزوری کو دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ ہماری ہر خرابی کی اصل وجہ یہود و ہنود کی سازش ہے۔ گھریلو ملازموں سے سفاک سلوک کرنا بھی دراصل اسی سازش کا حصہ ہے؟ ہم لوگ تو بالکل بے قصور ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں انسان برابر نہیں ہیں!